دل سے کہتا ہوں کہ تو ساتھ نہ لے مجھ کو
جا کے میں واں ترے قابو سے نکل جاؤں گا
آنکھ سے آنکھ ہے لڑتی مجھے ڈر ہے دل کا
کہیں یہ جائے نہ اس جنگ و جدل میں مارا
یہ دل مجھے ڈبو کے رہے گا کہ سینہ میں
وہ کونسا ہے داغ جو گردابِ غم نہیں
دل یہ کہتا ہے مجھے روزن سینہ سے نکال
ورنہ خوں ہوکے میں آنکھوں سے نکل جاؤں گا
آنا ہے گر تو آؤ کہ سینہ سے چل کےاب
آنکھوں میں آکے ٹھیرا ہے دم انتظار کا
خورشید وار دیکھتے ہیں سب کو ایک آنکھ
روشن ضمیر ملتے ہر اک نیک و بد سے ہیں
میں ہوں وہ خشت کہن مدت سے اس ویرانہ میں
برسوں مسجد میں رہا برسوں رہا بتخانہ میں
نازک خیالیاں میری توڑیں عدو کا دل
میں وہ بلا ہوں شیشہ سے پتھر کو توڑ دوں
ہر چند ناتواں مگر رکھتے دل قوی ہیں
ہم عشق کی کمک سے جنوں کی مدد سے ہیں
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
مجھ سا مشتاق جمال ایک نہ پاؤ گے کہیں
گر چہ ڈھونڈو گے چراغِ رخِ زیبا لے کر
اے دل اس کے تیر کے ہمراہ سینہ سے نکل
دیکھ پچھتائے گا تو یی ساتھ ناداں چھوڑ کر
کب لباس دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمیر
جامۂ فانوس میں بھی شعلہ عریاں ہی رہا
کب صبا آئی ترے کوچہ سے اے یار کہ میں
جوں حباب لب جو جامہ سے باہر نہ ہوا
آنا ہے گر تو آو کہ سینہ سے چل کےاب
آنکھوں میں آکے ٹھیرا ہے دم انتظار کا
نہیں خضاب سے مطلب یہ موئے سفید
سیاہ پوش ہوئے ماتمِ جوانی میں
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
ذوق
ذوق،اردو دنیا میں ذہانت اور براقی کےلئے جانے جاتے تھے.ظفر بادشاہ طرحیں نکالتے تھے اور ذوق انہیں سرسبز کرتے تھے ورنہ شور زار ہی ہوجاتا.
بقو ل محمد حسین آزاد "مسودہ میں کوئی شعر پورا کوئی ڈیڑھ مصرع کوئی ایک کوئی آدھا مصرع فقط بحر اور ردیف قافیہ معلوم ہوتا تھا باقی بخیر یہ ان ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا کر حسن و عشق کی پتلیاں بنادیتے..
بادشاہ چورن مرچن کی پڑیاں بیچنے والوں کے آواز اور کبھی فقیروں کےصداپر گرہ لگاتے تھے""
.استاد ذوق کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ مدتوں اہنے کلام کو زیر نظر رکھتے اورابتدا میں شاہ نصیر سے اصلاح لیتے تھے اس قسم کے واقعات کا ذکر ہوا ہے لیکن در اصل یہ سب کچھ ابتدائی دور کی مشق قافیہ پیمائی کے سوا کچھ نہ تھا ..جس میں انکے ہاں شعری زمینیں تو گرم معلوم ہوتی ہیں لیکن تاثیر ٹھنڈی بلکہ کہیں کہیں سخت ٹھنڈی ہے.
حق تو یہ کہ صحت زبان کے باوجود موجودہ دیوان ذوق میں اکثر اشعار بھرتی کے ہیں البتہ انکی زبان نہایت شستہ اور منجھی ہوئی ہے جس میں فن تو اپنے عروج پر ہے لیکن خیالات پھسپھسے ہیں
یہاں سے ہی کلام غالب کی فوقیت اور قدر محسوس ہوتی ہے.
بقول ذوق انہوں نے یہ شعر کچھ یوں کہا تھا:
نرگس کے پھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما ہے یہ کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
لیکن بعد میں خود ہی اپنے شعر کی اصلاح کی "نرگس کے پھول کی جگہ" بادام دو جو" کردیا لیکن کہنے والوں نے مشہور کردیا کہ شاہ نصیر نے اصلاح کی"
بادام دو جوبھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما ہے یہ کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایما مرتب کیسے ہوا اور وہ ہے کہاں ؟ یہ سب دلخواہ توضیحاتی سلسلہ یے …
بہر کیف ذوق کی شعری کرافٹ Craft قابل تحسین اور آنے والے شعراء کے لئے مثالی تھی
مثال کے طور پر
مقراض، قندیل ردیفوں میں اشعار ..
کب زباں چلتی ہے اس بزم میں بدگویوں کی
ان کے منہ میں یہ زباں ہے کہ الہی مقراض
ہمارے کعبۂ دل میں ہمیشہ روشن ہے
کسی کے باب کمال ظہور کی قندیل
عیاں ہے یوں مرے روز سیاہ میں خورشید
کہ جیسے شب کو نظر آئے دور کی قندیل
ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا
کچھ راہ خدا دیجے جا تیرا بھلا ہوگا
ا
بادشاہ ظفر کی فرومایہ مزاجی نے ذوق کی شاعری کو مجروح کیا..بادشاہ ہمیشہ فرومایہ مضامین باندھتا تھا اور بادشاہ کے مصاحب اس قسم کے لکھے گئے ٹپوں ٹھمریوں پہیلیوں اور سٹھنیوں کو گلی گلی گاتے پھرتے تھے … مغلیہ سلطنت کے زوال کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوسکتی ہے…
تزکرہ نویسوں نے مصاحب بادشاہ حافظ ویران وغیرہ کی زبانی کئی امثال کا ذکر کیا ہے. لیکن ان گرہوں میں کوئی معیاری اور دیر پا چیز نظر نہیں آتی..
بادشاہ کی شاعری اردو ادب کی پیٹھ پر گراں بوجھ ہے ..نناوے فیصد کلام چاشنی سے محروم ہے…
بادشاہ کو طبعاً ایسی ہی چیزیں پسند آتی تھی کہیں کی اینٹ کہیں کا گارا ملا کر لیپا پوتی کا شغل چلتا تھا
بھوپال میں شمشیر کھنچنے کی خبر بھی شعر میں ڈھل جاتی.. شعر
آج ابرو کی ترے تصویر کھنچ کر رہ گئی
سنتے ہیں بھوپال میں شمشیرکھنچ کر رہ گئی
ذوق کے اشعار کے پست مضامین ملاحظہ کیجئے
جھانکتے تھے وہ ہمیں جس روزنِ دیوار سے
وائے قسمت ہو اُسی روزن میں گھر زنبور کا
ماتھے پہ ترے چمکے ہے جھومر کا پڑا چاند
لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند
١۲٦۰ ھ کے آس پاس بادشاہ دلی کے ٹوٹے پھوٹے تخت پر سخت پریشان تھا کبھی ادھر گلی کوچوں میں ٹہلتے. مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے ذوق کو بادشاہ کی معیت کا شرف تھا اس لئے ہر قسم کے لوگوں سے ملتے تھے جن میں علما مشاہیر اصحاب معرفت بلاامتیازے مزہب و ملت اہلیان سیاست وغیرہ وغیرہ شامل تھے ذوق کی شاعری میں ملے جلے اثرات مرتسم ہوئے
اشعار بطور نمونہ
یہاں تنِ خاکی میں دل روشن ہمارا ہو گیا
جس طرح پانی کوئیں کی تہ کا تارا ہو گیا
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
تھا ذوق پہلے دلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا
پانی ملتان بہہ جانے مراد موقع کا ہاتھ سے نکلنا ہے ویسے بھی دریائے راوی جو لاہور کے نیچے بہتا ہے ملتان کی جانب سے چل کر پنجاب کے اور دریاؤں سے ملتا ہوا دریائے شور میں جا پڑتا ہے.
اس قبیل کی شاعری سے زوال پزیر بادشاہ کی طبیعت تو بہل جاتی رہی لیکن ذوق جیسی نہایت ذہین و فطین شخصیت اورفن کو کتنا نقصان پہنچا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے. یہی بادشاہ آخری عمر میں مشاعروں میں جاتے بھی اپنا کلام نہیں پڑھتے بلکہ خلیفہ اسمعیل سے ہی پڑھواتے تھے.
آخری عمر کی نہایت مصیقل اور مشہور غزل مطلع :
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بندے کی کیا چوری
ذوق زمینیں ہی نہیں ماپنے میں ماہر تھے بلکہ الفاظ کو انکا موزوں مقام و نشست دیتے تھے. قوافی کے پہلوؤں کومہارت اور خوش اسلوبی سے نبھاتے تھے. اور عظیم زبان دان تھے یہ مرتبہ انکے بعد داغ کو ملا..اردو شاعری کی زبان کا معیار انہیں شعرا کے یہاں بلندی پر دکھائی دیتا ہے
ذوق مشاعروں میں کبھی کبھار بڑھک اٹھتے تھے شاہ نصیر نے غزل پڑھی جس کا مشہور زمانہ مطلع یہ تھا
ہم پھڑک کر توڑتے سارے قفس کی تیلیاں
پر نہیں اے ہم صفیرو اپنے بس کی تیلیاں
کہتے ہیں استاد ذوق نے دوغزلہ لکھا اس میں کچھ تکرار ہوئی اس میں جوش میں آکر استاد ذوق نے کہا اگلے مشاعروں میں اسی زمین میں غزلیں ہوں دو مشاعروں کے بعد سلسلہ رک گیا استاد ذوق پر چوٹیں ہونے لگیں استاد ذوق نے ستائس اشعار پر مشتمل غزل کہی جو دیوان میں موجود ہے یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا …اس غزل میں.. استاد ذوق نے بتکلف بہت سر مارا لیکن شاید کوئی شعر شاہ نصیر کے مطلع کے پایہ کا نہ ہوسکا.. بلکہ ااستعارات و تشبیہات کی بھرمار اور گنجلک تراکیب نے غزل بلکہ اسکے سننے والوں کے کانوں کو بے مزہ اوربعد میں پڑھنے والوں کی حساس طبیعتوں کو کچھ کرکرا کردیا ..جسے یقین نہ وہ غزل مزکورہ پڑھ کر دیکھ لے.
استاد شاہ نصیر کے صاجزادے شاہ وجیہہ الدین منیر نے یہ شعر پڑھا ..
گر چہ قندیل سخن کو منڈھ لیا تو کیا ہوا
ڈھانچ میں تو ہیں وہی اگلے برس کی تیلیاں
اس عہد کے بعض غلو پسند جدیدیوں کی طرح اس دور میں بھی اوٹ پٹانگ نئے مضامین کی ہانکتے تھے
مثلاً
ہے کاٹنے کو دوڑتا کتا تفنگ کا
…مینڈھا حلال کرتے ہیں دریائے نیل کا
اخلاقی تعیلیم پر اشعار کا نمونہ
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
حق نے تجھکو اک زبان دی اور دئے ہیں کان دو
اسکے یہ معنی کہے ایک اور سنے انسان دو
کب حق پرست زاہد جنت پرست ہے
حوروں پہ مر رہا ہےیہ شہوت پرست ہے
آدمیت سے ہے بالا مرتبہ آدمی کا
پست ہمت یہ نہ ہو پست قامت ہو تو ہو
گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
خط بڑھا کاکل بڑھا زلفین بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
بعد رنجش کےگلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی وحشت وگرنہ پہلے آہ
ہاتھ کے ناخن بڑھے سر کے ہمارے مو بڑھے
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
کم ہونگے اس بساط پر ہم جیسے بد قمار
جو چال ہم چلےسو نہایت بری چلے
ہوعمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
باقی ہے دل میں شیخ کے حسرت گناہ کی
کالا کرے گا منہ بھی جو ڈاڑھی سیاہ کی
کتنے مفلس کتنے تونگر ہوگئے
خاک میں جب مل گئے دونوں برابر ہوگئے
چل میکدہ میں شیخ بسر کر مہِ صیام
مسجد میں تنگ بیٹھا ہے کیوں اعتکاف سے
پہنچا ہے شب کمند لگا کرکہاں رقیب
دیکھو حرامزادہ کی رسی دراز ہے
نہ دینا ہاتھ سے تم راستی کو عالم میں
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے
ذوق اس بحر فنا میں کشتئ عمر رواں
جس جگہ پر جا لگی وہی کنارا ہوگی
صفحۂ دہر پہ یکدل نہ ہوااک سے ایک
دل کے دو حرف ہءں سو بھی ہے جدا اک سے ایک
غیروں سے دیکھ دیکھ تری گرم جوشیاں
میں آگ پر ہوں رشک سے محفل میں لوٹتا
کس کس مزے سے لوٹتے ہیں میکدے میں مست
ہے ایک کے جو ایک مقابل میں لوٹتا
رباعی نمونہ
کھلتا نہیں اے ذوق یہ ہم پر مضموں
ہر شخص جو مزہب کا ہے اپنے مفتوں
کہئے کسے حق پہ اور باطل پہ کسے
کل حزبِ بمالدیہم فرحون
قصیدہ نما غزل سے چند اشعار
اس قد کو کیونکہ کہئے نہالِ چمن کی شاخ
لائیگی وہ کہاں سے ادا بانکپن کی شاخ
کہتی تھی چوب،دستۂِ تیشہ کی، میری طرح
سوکھے نخل آرزوئے کوہکن کی شاخ
مسواک نے بڑھایا ہے زاہد کا اعتبار
ہے یہ بھی اس کے ایک شجر، مکروفن کی شاخ
بد خصلتوں کو کرتا ہے بالا نشیں فلک
اونچی ہے آشیانۂ زاغ و زغن کی شاخ
شاہا یہ تیرا دست سخا باغ دہر میں
گویا کہ نکلی ہے کَرَمِ ذولمنن کی شاخ
موذی کو سر کشی سے فزوں تر ہو اعتبار
نکلے ہے طولِ عمر سے مارِ کہن کی شاخ
یہ ذوق کی دعا ہے کہ تا باغِ دہر میں
سرسبز شعرِ تر سے ہو نخلِ سخن کی شاخ
غزل سے چند اشعار
گور میں پیش ہو جب دفترِ تن کا کاغذ
ہو سیاہی کو سفیدئ کفن کا کاغذ
بن گیا عکس سے اس شوخ گلستاں رو کے
صفحۂ آئینہ تصویرِ چمن کا کاغذ
سینہ صافوں کو زمانہ کے ہے ہاتھوں سے شکست
ہے صفائی سے سزاوار شکن کا کاغذ
یوں قفس میں کوئی ہم تک ہے پہنچتاگلبرگ
جیسے غربت میں شفیقانِ وطن کا کاغذ
ظاہر آرا نہ کتابوں سے ہو ڈر دوزخ سے
کر نہ آتش میں لباس اپنے بدن کا کاغذ
جعلسازی پہ زمانہ کی گواہی دے ہے
مُہری و سادہ مہِ چرخِ کہن کا کاغذ
ذوقِ دلسوختہ دیواں لکھے اپنا کیا خاک
متحمل نہیں گرمئِ سخن کا کاغذ