لیکن مذہب زرتشتی میں آگ کا رتبہ عناصر میں سب سے بلندہے اور اوستا میں آگ کی پانچ مختلف قسمیں بتائی گئی ہیں۔
(۱) برزسواء وہ آگ ہے جو آتش کدوں میں جلتی ہے۔ اس کو آتش بہرام بھی کہتے ہیں اور روز مرہ کے استعمال کے لیے بھی یہی ہے۔
(۲) دُہوفریان وہ آگ ہے جو انسان اور جانوروں میں پائی جاتی ہے
(۳) اُزوازشت وہ آگ جو درختوں میں پائی جاتی ہے
(۴) وازشت وہ آگ ہے جو بادلوں میں ہے یعنی بجلی
(۵) اشنشت وہ آگ ہے جو بہشت اہورا مزدہ کے سامنے جلتی ہے۔
پانچویں قسم کی آگ یعنی آتش بہشت کا مظہر شاہان ایران کا شکوہ و جلال ہے جو ہمیشہ ان کے گرد ایک ہالے کی شکل میں رہتا ہے اور اس کو اوستا میں خورنہ پہلوی خور اور فارسی میں فر کہتے ہیں۔
آتش مجسم کو جو اوستا میں اتر اور پہلوی میں آذر ہے بسا اوقات اہورا مزدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ساسانی اوستا کے تلف شدہ حصوں کے بہت سے مقامات ایسے تھے جن میں آتش مقدس ہونے کا ذکر تھا اور اس کے احسانات اور انسان کے ذمے اس کے حقوق و فرائض بیان کیے گئے تھے۔
ایرانی بادشاہ چونکہ آسمانی خداؤں کی نسل سے تسلیم کیا جاتا تھا۔ لہذا ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مذہبی جماعت کی پیشوائی بھی ان کی زات سے وابستہ رہے۔ افسانہ ارد شیر میں لکھا ہے کہ پابگ نے خواب میں دیکھا کہ تین مقدس آگیں (اہل جنگ، علمائے دین، زراعت پیشہ) ساسان کے گھر جمع ہوگئیں۔ جو بابگ کا داماد اور اردشیر کا باپ بنا۔ فردوسی کے شاہنامہ کے مطابق اکثر اس کو موبد کہہ کر بلاتے تھے زرتشت کی عمر کا زیادہ تر حصہ مقدس آگ کی حفاظت، اس کی پوجا اور اپنے مذہب کی اشاعت و ترقی میں گزرا ہے۔ گشتاسب نے بھی دین زرتشتی کی اشاعت و ترقی کی کوشش میں مسلسل مصروف رہا۔ اس نے پورے ملک میں بہت سے آتش کدے تعمیر کرائے اور لوگوں کو آگ کی پوجا کا حکم دیا۔ اوستا کے ایک باب میں ان آتش کدوں کی تفصیل درج ہے اور شاہنامہ میں بھی گشتاسب کے تعمیر کردہ آتش کدوں کا ذکر ہے۔ مسعودی نے بھی تفصیل سے ان آتش کدوں کا ذکر کیا ہے۔ ان آتش کدوں میں بہت سے آتش کدے زرتشت سے بھی پہلے بھی موجود تھے۔ شہر ستانی نے دس بڑے آتشدوں کی تفصیل درج کی ہے جو زرتشت سے پہلے ایران میں موجود تھے۔ زرتشت کے بنوائے گئے آتشکدوں میں ایک نیشاپور اور دوسرا نسائیہ کا تھا۔ شاہ گشتاسپ نے خوارزم کا آتش کدہ جو جمشید کے وقت سے چلا آرہا تھا وہ دارا بجر میں منتقل کروا دیا تھا۔ یہی وہ آتش کدہ تھا جو مجوسیوں کے نذدیک سب سے زیادہ مقدس تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے آتش کدے سیستان، روم، بغداد، یونان، ہندوستان اور چین میں تھے کا حال درج کیا گیا ہے۔
نقش رستم میں شاہان ہخامنشی کے مقبروں کی منقت کاری میں چند آتش گاہوں کی برجستہ تصویریں بنی ہوئیں ہیں۔ جن پر آگ جلتی ہوئی دیکھائی گئی ہے۔ آتش کدے کی شکل ان قربان گاہوں کی نقل ہیں جو اقوام مغربی ایشیا کے معبدوں میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اصل میں میزیں ہوتی تھیں جن پر قربانیاں رکھ دی جاتی تھیں۔ نقشم رستم دو بہت بڑی آتش گاہیں ایک صقیل شدہ چبوترے پر ایک چٹان کو تراش کر بنائی گئیں ہیں۔ ان کا بالائی حصہ جو دندانہ دار ہے چار ستنوں پر دھرا معلوم ہوتا ہے۔ جو پتھروں کو تراش کر بنائی گئی ہیں۔ لیکن آتش سرمدی کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ اس پر کوئی تعمیر کی جائے جو اسے مردر زمانہ کی آفات سے محفوظ رکھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پتھر کی وہ عمارت جو رستم میں شاہی مقبروں کے بالمقابل بنی ہوئی ہے اور اس میں مرور زمانے سے گڑھے پڑگئے ہیں آتش گاہ کا ہی نمونہ ہے۔ یہ عمارت ہخامنشی زمانے میں بنی ہوئی ہے اور ایرانی اسے کعبہ زرتشت کہتے ہیں۔ اگرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے یہ مقبرہ ہے۔
شریعت زرتشتی میں یہ دستور تھا کہ سورج کی روشنی آتش گاہ کی مقدس آگ پر نہیں پڑنی چاہیے۔ یہ تمام معبد ایک خاص نقشے پر بنے ہوتے تھے۔ عبادت کی مرکزی جگہ پر آتش گاہ تھی۔ عام طور پر ہر آتش کدے کے آٹھ دروازے اور چند ہشت پہلو کمرے ہوا کرتے تھے اور اس کے جس کے عین وسط میں ایک تاریک کمرہ بنایا جاتا تھا اور اس کے اندر آتش دان رکھا جاتا تھا۔ اس نممونے کی عمارت شہر یزد کا قدیم آٓتش کدہ جو آج بھی موجود ہے۔ جو قدیم سکے ملے ہیں ان پر آتش دانوں کی تصویریں ملی ہیں اس سے آتش دانوں کی شکل واضح ہوتی ہے۔ یہ آگ آتش کدے میں ایک آتش دان میں جل رہی ہوتی تھی۔ جس کے ایک طرف پجاری کھڑا ہوکر مناجات پڑھ رہا ہوتا تھا اور اس کے دوسری جانب ایک شخص ہاتھ اعضا لیے کھڑا ہوتا تھا۔ بعض سکوں پر آگ کے شعلوں میں ایک سر آذر (خدائے آتش) بنا نظر آتا ہے۔
آگ کے مختلف درجے تھے ۔ یعنی آتش خانہ پھر آتش قبیلہ یا دیہ (آذروان) پھر آتش ضلع یا ولایت جس کو آتش دہران (دہرام یا بہرام) کہتے تھے ۔ آتش خانے کی حفاظت مان بذ (رئیس خانہ) کا کام تھا ۔ آذران (آگ) کی نگہداشت کے لیے کم از کم دو ہیر بد ضروری تھے ۔ لیکن آتش ورہران کی خدمت کے لیے ایک موبد کے ماتحت ہیر بدوں کی ایک جماعت مامور رہتی تھی ۔ آگ کی پرستش کے قواعد کی تفصیل میں چند افسانے تمثیل کے طور پر بیان ہوئے ہیں ۔ جس کی تفصیل ساسانی اوستا کے ایک نستک میں دی گئی تھ جس کا نام سوذگر ہے ۔ آتش کدے میں جہاں فضا لوبان کی دھونی سے مہکتی رہتی تھی ۔ ہیر بد منہ پر کپڑے کی ایک پٹی (اوستا ۔ ہاءتی دانَ) باندھے ہوئے تاکہ اس کا سانس سے آگ ناپاک نہ ہوجائے ۔ لکڑی کی چھپٹیاں جن کو خاص مذہبی رسوم سے پاک کیا جاتا تھا برابر آگ میں ڈالتا رہتا ہے تاکہ وہ جلتی رہتی رہے ۔ منجملہ اور درختوں کے ایک خاص درخت (ہذا سیپتا) کی لکڑی جلائی جاتی تھی ۔ ٹہنیوں کے ایک گھٹے کے ساتھ ایک خاص مذہبی رسم کے کاٹا اور باندھا جاتا تھا اور اس کو برنم کہتے تھے ۔ وہ آگ کو الٹ پلٹ کرتا رہتا تھا اور مقدس دعائیں برابر پڑھتا رہتا تھا ۔ اس کے بعد ہیر بدان ہَومَ کا چڑھاوا چڑھاتے تھے ۔ اس کی ترکیب یہ تھی کہ وہ ہذا سیپتا کے درخت کی شاخیں لے کر پہلے انہیں پاک کیا جاتا تھا ۔ پھر ہاون میں انہیں کوٹا جاتا تھا اور کوٹنے کے ساتھ ہیر بد برابر دعائیں پڑھتے رہتے تھے ۔ یہ ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہوتا تھا جو مذہبی ہدایات کے عین مطابق پورا کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ہوم کا چڑھاوا چڑھاتے تھے ۔ جس کے ساتھ ساتھ زوَتر (رئیس مراسم آتش کدہ) خاص خاص دعائیں مقررہ ترتیب کے ساتھ پڑھتا جاتا تھا اور مختلف مراسم جن میں ہوم کا استعمال ہوتا تھا ادا کرتا جاتا تھا ۔ زوَتر کے سات مددگار ہوتے تھے ۔ جن کو رتو کہتے تھے ۔ ہر رتو کے اپنے مقررہ فراءض تھے ۔ ان میں ایک کا نام ہاوَنان تھا جس کا کام ہوم کو کوٹنا تھا ۔ دوسرا آتر دخش تھا جو آگ کی خبر گیری کرتا تھا اور زوَتر کے ساتھ مل کر بھجن گاتا تھا ۔ تیسرا فرابرتر تھا جو لکڑیاں لا کر آگ میں ڈالتا تھا ۔ چوتھا آبرت تھا ۔ جس کا کام پانی لانا تھا ۔ پانچواں آسنتر تھا جو ہوم کو چھانتا تھا ۔ چھٹا رئیث ونشکر تھا جو ہوم کو دودھ میں ملاتا تھا اور ساتواں سُروشاورز (سروشاورز) تھا ۔ جس کا فرض سب کام کی نگرانی کرتا تھا اور آتش کدے کے فراءض کے علاوہ اس کے اور بھی فراءض تھے ۔ کیوں کہ روحانی تربیت کا انتظام بھی اسی کی زیر نگرانی تھا ۔
ہوم کو دودھ اور ایک پودے کے رس جس کا نام ہذنیپتا تھا ملا کر شربت تیار کیا جاتا تھا جسے خداؤں کو چڑھاوے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا ۔ جب کہ نیاز جو ہیزہ کہلاتی تھی ۔ وہ غالباً گوشت اور چربی یا گوشت یا مکھن سے تیار کی جاتی تھی ۔
آتش کدے میں ہیربد دن میں پانچ وقت کی مقررہ دعائیں پڑھتے تھے اور تمام مذہبی فراءض کو عمل میں لاتے تھے ۔ یہ مذہبی فراءض ان چھ سالانہ تہواروں کے موقعوں پر خاص متانت کی صورت اختیار کرلیتے تھے ۔ جنھیں گاہان بار کہا جاتا تھا ۔ یہ تہوار سال کے مختلف موسموں کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے ۔ یہ یاد رہے دنیادار لوگوں کو آتش کدوں کے فراءض میں شریک ہونے کی کوئی ممانعت نہ تھی ۔ بلکہ ہر شخص کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہاں آکر دعائے آتش نیائش (دعائے تمجید آتش) پڑھنے اور لوگون کا اعتقاد تھا کہ جو شخص دن میں تین بار آتش کدے جاکر دعائے آتش نیائش پڑھے وہ دولت مند ہوجاتا ہے ۔ دیندار لوگوں کے لیے آتش کدے کے تاریک کمروں کا سماں ایک پرسرار حیرت و رعب کا باعث ہوتا تھا جہاں آتش دان میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے تھے اور اس کی روشنی سے دھات کے آلات پردوں کی کھونٹیاں ، باون ، چمٹے ، برنم دان (ہلالی شکل کے پائے جن پر برنم رکھا جاتا تھا) چمکتے تھے اور جہاں ہیر بد کبھی بلند اور کبھی دھیمی آواز کے ساتھ اپنی نامتناہی دعائیں اور کتاب مقدس کی آیات مقررہ تعداد اور مقر انداز کے ساتھ زمزمے کے لہجے میں پڑھتے تھے ۔
سلطنت ساسانی میں آتش کدے ہر جگہ موجود تھے ۔ لیکن ان میں سے تین ایسے تھے جن کی خاص حرمت و تعظیم ہوتی تھی ۔ یہ وہ آتش کدے تھے جن میں تیں آتش ہائے بزرگ محفوظ تھیں ۔ جن کا نام آذر فربگ یہ فرن بگ یا فرگ بگ قدیم شکل ہے اور پہلوی اترفرن بگ ، سریانی کو آذر فرہوا ہے ۔ دوسرا آذر گنشب تیسرا آذر برزین مہر تھا ۔
ایک قدیم زرتشتی افسانے کے مطابق جو بندہشن میں درج ہے چند آدمی افسانوی بادشاہ تخمورب کے زمانے میں ایک عجیب الخلقت گائے سرسوگ کی پیٹھ پر سوار ہو کر کشور خونیرس سے چلے اور باقی چھ کشوروں کو طے کیا جہاں کوئی شخص کسی اور ذریعے سے جا نہیں سکتا تھا ۔ ایک رات جب وہ سمندر سے گزر رہے تھے تو ہوا نے ان تین آگوں کو جو گائے کی بیٹھ پر جل رہی تھیں سمندر میں گرا دیا ۔ لیکن وہ آگیں ;8; تین جانداروں کی مانند نئے سرے سے پھر اسی گائے کی بیٹھ پر دوبارہ جل اٹھیں اور ان سے تمام عالم منور ہوگیا ۔
ان تین آگوں میں سے ایک کا نام آتش فربگ تھا ۔ کچھ عرصہ بعد شاہ یم جو تخمورب کا جانشین تھا اس آگ کے لیے خوازم میں کوہ خورے ہومند پر ایک آتش کدہ تعمیر کرایا ۔ ہ میں معلوم نہیں ہے کہ دراصل کس زمانے میں یہ تین آگیں وجود میں آئیں ۔ ہوفن کا خیال ہے کہ صوبہ استءوئین کے شہر اساک کی آتش جادوانی جس کے سامنے ازشک یا زشک اشکائی خاندان کے بانی نے اپنی تاجپوشی کی تھی آتش برزین مہر کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہے ۔ کیوں کہ ساسانیوں کے زمانے میں آتش برزین مہر کا آتش کدہ اس جگہ سے قریب ہے ۔ آزر فربگ علمائے مذہب کی آگ تھی ، آذر گشنپ سپاہیوں یا شاہی خاندان کی آگ تھی ۔ آذر برزین مہر زراعت پیشہ لوگوں کی آگ تھی ۔ عہد ساسانی میں ان تین آگوں کے آتشکدے جس مقام پر بنے ہوئے تھے ان کے متعلق روایت ہے کہ ان کو مقامات کو عہد ہخامشی سے پہلے کے افسانیوی بادشاہوں نے معین کیا تھا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...