قدیم زمانے دنیا کی بہت سی قوموں میں محرمات سے شادی کا رواج تھا ۔ لیکن جس مذہب میں اس رواج کی بہت فصیلت بیان کی ہے وہ زرتشتی مذہب ہے ۔ خاندان میں پاکی نسب کی حفاظت ایرانی سوساءٹی کی ایک نمایاں خصوصیت بتائی گئی ہے اور محرمات کے ساتھ شادی کو مذہبی جواز دیا گیا ۔ اس قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے اوراس قسم کی شادی خویذد گردس (اوستا خوئیت ودادا) کہلاتی تھی ۔ بگ نسک اور ورشمتانسر نسک میں خویذوگدس کی بڑی عظمت بیان کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسی مزادجت پر خدا کا سایہ پڑتا ہے اور شیطان اس سے دور رہتا ہے ۔ ایک اوستائی مفسر نرسی ُبرز مہر کا کہنا کہ خویذدگدس سے کبائر کفارہ ہوجاتا ہے ۔ لہذا اس مذہب میں سگے بہن بھائی ، باپ بیٹی اور ماں بیٹا کے درمیان بھی شادی کی اجازت تھی ۔
اوستا میں زرتشت کے مربی گستاسپ یا گشتاسپ بن لہراسپ کی بیوی بانو بانوان (ملکہ) لہراسپ کی بیٹی اور گشتاشپ کی سگی بہن تھی اور گشتاسپ کے بیٹے اسفندیار کی شادی اس کی سگی بہن ہماء سے ہوئی تھی ۔ چنانچہ پہلا ایران کا پہلا تاریخی خاندان ہخامنشیوں میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔ کموجیہ ، داریوش دوم ، ارتخشر دوم ، داریوش سوم نے بھی اس طرح کی شادیاں کی تھیں ۔ ساسانی بادشاہوں میں بھی بہنوں اور بیٹوں سے شادی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ مثلا اردشیر دوم نے اپنی بیٹی آتشہ سے شادی کی تھی ۔ بہرام چوبین ، مہران گشنسپ نے اس قسم کی شادیاں کیں تھیں ۔ ایرانیوں کے یہاں محرمات سے شادی کی رسم بہت دیرینہ تھی اور اس کی تصدیق معاصر مورخین مثلاً اگاتھیاس وغیرہ کے بیان سے ہوتی ہے اور یہ رسم مسلمانوں کی فتوحات تک جاری رہیں ۔ کیوں کہ مسلمانوں نے محرمات سے شادی کو تسلیم نہیں کیا اور پابندی لگادی لگادی تھی ۔ حضرت عمر نے کوفہ میں محرمات زن و شوہر کے درمیان جدائی کا حکم جاری کیا تھا ۔ اس کے بعد پارسیوں سے اس قسم کی شادیوں کا رواج ختم تو نہیں لیکن اب بہت کم ہوچکا ہے ۔ تاہم یہ کسی نہ کسی صورت میں باقی رہا ہے ۔ ورنہ پارسی مذہب میں شوہر اپنی بیوی اور باپ بیٹی کو عارضی طور پر کسی اور شخص کے پاس جانے کا حکم دے سکتا ہے ۔ اس کی اور بھی صورتیں تھیں ۔ شیعوں میں متعہ کی رسم اسی کی باقیات ہے اور اسے بھی مذہبی جواز دیا جاتا ہے ۔
دبستان مذہب میں پارسیوں کے ایک فرقہ آخشی کے ایک شخص کا کہنا تھا کہ جو پانی بیٹی کی پیدائش کی اصل ہے وہ آلہ تناسل سے باہر آتا ہے اور رحم سے مل جاتا ہے ۔ لہذا دونوں لحاظ سے اس کے باپ کے آلہ تناسل سے نکلنا کوئی بری بات نہیں ہے ۔ اسی طرح بھائی بہن کے باہر نکلنے کا راستہ ایک ہی ۔ لہذا ان دونوں کا آپس میں اختلاط روکنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے ۔ نیز کہتا ہے کہ جب سارا بدن ماں سے شکم سے باہر آجاتا ہے تو کوئی ایک عضو باہر آکر دوبار اندر داخل ہوجائے تو کوئی ناشائستہ بات نہیں ۔
اس کتاب میں ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ جب تک میں اپنے کے باپ کی پشت میں تھا اپنی ماں کا شوہر تھا اور جب اس کے شکم میں آیا اور باہر نکل آیا تو لوگ مجھے اس کا بیٹا کہتے تھے اور اس سے شادی کرلی تو اس کا شوہر ہوں اس میں کوئی بری بات نہیں ہے ۔ بیٹی ، بہن اور ماں سے جماع کرنا دوسری عورتوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ کیوں کہ یہ عورتیں تمہاری محرم ہیں اور نامحرم عورتوں سے اختلاط میں زیادہ بے حیائی ہوتی ہے ۔ ہاں اگر ان محرم عورتوں میں سے کوئی میسر نہیں ہو تو نامحرم عورتوں سے اختلاط کرنا چاہیے ۔
یہ لوگ اس عورت سے اختلاط کرنا حرام سمجھتے تھے جس کا شوہر حیات ہو ۔ ہاں اگر شوہر نے اجازت دے دی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عورت جو خواہ اپنی ماں ہو اپنی یا دوسرے کی بیٹی اگر شوہر والی نہیں ہے اور دونوں راضی ہوں تو شادی ہوسکتی ہے ورنہ نہیں ۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس جانے کا حکم دے تو اس عورت سے جماع بھی جائز ہے ۔
جدید دور میں زرتشتیوں میں اس محرمات سے شادی کا رواج ختم ہوچکا ہے اور اس طرح کی شادی سے انکار کرتے ہیں ۔ مثلا بلسارا نے خویذوگدس کی تاویل یوں کی ہے کہ یہ خدا اور بندے کے درمیان وہ تعلق جو بذریعہ زہد و تقدس قائم کیا جائے ۔ اگر یہ لفظ پہلوی کتابوں میں ترویح محرمات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے تو وہ فقط مزدکی فلسفیوں کے بارے میں ہے ناکہ زرتشتیوں کے بارے میں ۔ لیکن اس قسم کی شادیوں کی بہت مثالیں اور جواز قدیم دور میں زرتشتی اور غیرملکی معاصر مصنفین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اور یہ فعل مذہبی نقطہ نظر سے بہت کار ثواب تھا ۔ چینی سیاح ہیونگ سانگ نے یہ لکھا یہ اس زمانے ایرانیوں کے یہاں شادیاں بلا امتیاز ہوتی تھیں ۔ تو وہ غالباًً اس رسم کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔