زرتشتیت جس کو مزدائیت بھی کہا جاتا ہے اور اس کا ارتقاء ایران کے مختلف کے حصوں میں کسی قدر مختلف ہوا تھا۔ مثلاً ہخامنشیوں کے وقت فارس کا مذہب مزدائیت اس مزایت سے مختلف تھا جو کہ میڈیا کے مغوں یا موبدوں کا مذہب تھا اور اس سے بہت مختلف تھا۔ یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت زرتشت کی مذہبی اصلاحات ایران کے مغرب تک نہیں پہنچی تھی اور چوتھی صدی قبل مسیح میں میڈیا کے مغوں میں رائج امور میں گاتھا کی مزدائیت سے مختلف تھے۔ ایک نہایت قدیم ایرانی عقیدہ جس کے کچھ دھندلے آثار گاتھا میں ملتے ہیں۔ اس کے مطابق خدائے خیر اور خدائے شر توام بھائی تھے جو زمان نامحدود (زَروان یا زَردان) کے بیٹے تھے۔ مزدائیت کے ایک اختلافی صورت میں جس پر کلدانی علم نجوم کا بہت اثر پڑا اور جو ایشائے کوچک کے مجوسیوں میں نشو و نما پائی ہے اور متھرایت (یعنی پرستش متھرا یا مہر پرستی) پیدا ہوگئی اور اسے خدا پرستی تصور کیا گیا۔ یہ متھرا پرستش سلطنت روما میں بھی بہت مقبول اور رواج پزیر ہوئی۔
مغربی ایران میں بالعموم ایشیا کے مغربی حدودو پر یونانیت نے مختلف مذاہب میں موافق صورت پیدا کردی۔ بابلی، یونانی اور ایرانی دیوتا عیناً ایک سمجھے جانے لگے۔ چنانچہ اہرا مزدا کو بعل کے ساتھ متھرا کو شمس کے ساتھ اور اناہتا کو اشتر کے ساتھ ملتس کیا گیا۔ ان یونانی ایرانی دیوتاؤں کی پرستش کے لیے اس نے مستقل مذہبی رسوم جاری کیں اورمتھرا پرستوں نے جن میں سے بعض شیطان پرست تھے (جو انگرمینیو یا اہرمن کے ماننے والے تھے) زروانی عقیدہ اختیار کرلیا تھا۔
عیسائی ماخذ کے بیانات میں ہمیں متھرا کی پوجا ملتی ہے۔ یزدگر دوم سورج کی قسم کھاتا ہے کہ ’قسم آفتاب کی جو خدا سے برتر ہے۔ جو دنیا کو اپنی شعاعوں سے روشن کرتا ہے اور اپنی حرارت سے تمام جانداروں کو گرمی پہنچاتا ہے’۔ بادشاہ نے سورج کی قسم کو تین چار مرتبہ نہایت سنجیدیگی کے ساتھ دھرایا ہے اور عیسائیوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ آفتاب کی پرستش کریں۔ بقول پروکوپیوس کہ مجوسیوں کی شریعت کا یہ حکم تھا کہ نکلتے سورج کی پرستش کی جائے۔
عہد ساسانی میں مجوسی جس خدا کی پوجا کرتے تھے وہ اہور مزد نہیں تھا بلکہ مہر یعنی خدائے آفتاب تھا۔ جس کو قدیم یشوں میں متھرا لکھا گیا ہے۔ متھرا جو عہد و پیمان اور نور صبحگاہی کا خدا تھا۔ جسے اہل بابل کے ہاں شمش (خدائے آفتاب) پوجتے تھے اور جس کو روم کے متھرا کی پرستش کرنے والوں نے سول ان وکٹس Sol Invictus بنالیا۔ طاق بستاں میں اردشیر دوم کی برجستہ تصویر میں متھرا کو جو اپنے سر کے گرد کی شعاؤں کے ہالے سے شناخت کیا جاسکتا ہے بادشاہ کے پیچھے دیکھایا گیا۔ برلن کے عجائب گھر میں ساسانی زمانے کی ایک مہر جس پر جو تصویر بنی ہوئی ہے وہ متھرا کی ہے۔ جس میں اس کے جسم کا بالائی حصہ اور اس کے گرد ہالہ بنا ہوا ہے اور سورج کی رتھ ہے جس کو دو پروار گھوڑے کھنچ رہے ہیں۔‘ خدائے متھرا کو خدا کا بیٹا اور سات خداؤں کا کا دلیر مدگار بتایا گیا ہے۔ یہاں سات خداؤں سے مراد ساتھ امیشہ شنت (پہلوی امہرسپتدان) یعنی فرشتے ہیں۔
ساسانی عہد میں ایک اور دیوی ننا یا ننائی کی پرستش بھی ہوتی تھی۔ اس کی تصویر ہندو ساکائی سکوں پر پائی گئی ہے۔ بعل اور نہو بابل کے دیوتا تھے اور مورخ تھیو فی لیکٹس نے ان دونوں دیوتاؤں کو ایران کے دیوتا بتایا ہے۔ ساسانیوں کا جد اعلیٰ ساسان اصطخر میں اناہیڈ (اناہتا) کے مندر کا رئیس (بڑا پجاری) تھا۔ پروفیسر آتھر کرسپین کا خیال ہے کہ ارد شیر کی رسم تاج پوشی باضابطہ غالباً اصطخر میں اناہتا کے معبد میں ادا کی گئی تھی۔ جہاں اس کا دادا موبد اعلیٰ تھا اور وہاں چار سو سال کے بعد آخری ساسانی تاجدار کی تاجپوشی کی گئی تھی۔ ایک اور برجستہ تصویر جو نقش رستم پر ہے جس میں نرسی اناہتا دیوی سے تاج لے رہا ہے۔ اناہتا قدیم دیوی تھی اور اس کی پوجا ایرانیوں میں وسط ایشیاء سے سیتھیوں کے ذریعہ آئی تھی اور ایران میں قدیم زمانے سے رائج تھی۔ تاہم اس کو ساسانی زمانے یا اس سے کچھ پہلے اس دیوی کو مزادئیت میں باضابطہ شامل کرلیا گیا اور ساسانی دور میں اسے خداؤں کے زمرے شامل کرلی گئی۔ ساسانیوں کے ذوال کے ساتھ ہی اس دیوی کی پوجا ذوال پزیر ہوئی اور جب موبدان زرتشت نے زرتشتی مذہب کی تنظیم نو کی تو کو خداؤں کی فہرست سے غائب کردیا۔
سریانی و ارمنی ماخذ سے تائید ہوتی ہے کہ ساسانی خداؤں کے مجموعہ میں برترین خدا زروان، اہور مزد، خورشید (مہر، متھرا) آتش (آذر) اور بیدخت (خدا کی بیٹی اناہتا) تھے اور ساسانیوں کے ذوال کے بعد جب موبدان زرتشت نے زرتشتی مذہب کی تنظیم نو کی اہورا مزد کے علاوہ تینوں یعنی زروان، متھرا اور اناہتا دیوی کو خارج کرکے زرتشتی مذہب کو توحیدی مذہب بنانے کی ناکام کوشش کی۔ مگر اس کوشش میں اہرمن کا کردار طاقت ور ہوگیا۔ جس میں مانی اور مزدوکی مذہب کی وجہ سے زیادہ شہرت ملی۔ اسی وجہ سے زرتشتی مذہب ثنونی مذہب کہلایا۔