دنیا میں بے شمار چیزیں اور انسان خوبصورت ہیں لیکن وہ سب ہر وقت ہر کسی کے لیے پسندیدہ نہیں ۔اس کا زیادہ دارومدار دیکھنے والے کی نظر پر ہے۔
کئی صدیاں پہلے "ارسطو اور افلاطون" کے درمیان بھی اس پر بحث ہو چکی ہے۔ جس میں ایک کا نظریہ تھا کہ چیز پیاری ہوتی ہے اور دوسرے نے کہا کہ دیکھنے والے کی نظر کا کمال ہوتا ہے۔
پر ان دو نظریوں کے ساتھ تیسرا بھی اہم ہے اور وہ ہے ضرورت ۔
جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں وہی پیاری لگتی ہے۔
فرض کریں بازار سوٹ خریدنے جائیں اور وہاں رنگ برنگے اور منفرد جوڑوں کی بھرمار ہے ۔اگر وہاں ہماری پسند اور جیب کے مطابق سوٹ نہ ملنے پر ہم خالی ہاتھ ہی لوٹیں تو اسکا ہرگز مطلب نہیں کہ مارکیٹ کے سب سوٹ پیارے نہیں ہیں ۔
لیکن ہمیں ان کی ضرورت نہیں اس لیے ہم چھوڑ آۓ ۔
اسی طرح پرس کی دوکان پر ایک ہی پرس سے متعلق دو کسٹمرز کی مختلف راۓ ہے۔
ایک کو پرس پسند ہے دوسرے کو نہیں ۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی چیز اچھی اور دوسرے کے لیے بُری کیسے ہو سکتی ہے۔
یہاں فرق ہے ضرورت کا جسے پرس پسند آ تا ہے اس کے پاس پہلے ایسا پرس نہیں ہے۔ ادھر جسے پسند نہیں آتا۔ اسکے پاس پہلے سے ویسا پرس موجود ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پرس کی ضرورت نہ ہونے پر اسے اہمیت بھی نہیں دیتے۔
یہی بات انسانوں میں میل جول میں کوئی بندہ ہمیں اچھا لگتا ہے لیکن کسی اور کو بُرا لگتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ تجربہ اچھا نہیں ہوتا اس لیے تصور بُرا بن جاتا ہے۔
دوسری طرف جسے اچھا لگتا ہے اس کے ساتھ کیونکہ تجربہ اچھا ہوتا ہے تو انسان اچھا لگتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اچھے کے ساتھ اچھا اور بُرے کے ساتھ بُرا بن جاتا ہے۔
ایک ٹیچر کلاس میں ایک بچے کو بہت پیار کرتی ہیں کیونکہ وہ پڑھائی میں اچھا ہوتا ہے۔ کام وقت پر کرتا ہے۔ جس سے وہ پیار کا حقدار بن جاتا ہے ۔ پر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ بچہ شرارتی نہیں۔ باقی بچوں کو تنگ نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ پڑھائی میں دل لگاتا ہے جو کہ ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے یا اس کی خواہش، اس لیے پسندیدہ بن جاتا ہے ۔
ایک بچہ نکما ہے کلاس ورک نہیں کرتا۔ ٹیچر اسے پیار نہیں کرتے اب وہ بچہ باقی معاملات میں اچھا ہے۔ جیساکہ بڑوں کی عزت کرنا، جھوٹ نہ بولنا، اب چونکہ وہ ٹیچر کے مقصد پر پورا نہیں اُتر رہا اس لیے استاد کی نظر میں برا ہے ۔
ہم سب اپنی اپنی بنائی پٹری پر زندگی گزار رہے ہیں۔اچھے سٹاپ پر اچھے اور بُرےسٹاپ پر بُرے بن جاتے ہیں۔
آ ئس کریم کی مثال لیں کسی کو پستہ کسی کو ونیلا کسی کو قلفہ یا کوئی اور فلیور پسند ہے ۔ جتنے انسان اتنی پسند کے آپشنز جسے پستہ پسند ہے وہ ونیلا کو اہمیت کیوں دے۔ جبکہ اسے اس کی پسند مل رہی ہے۔
شاپنگ مالز میں طرح طرح کی جیولری ہوتی ہے اس میں اچھی بری ہر طرح کی جیولری ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں ایک ڈیزائن پسند آ یا یا نظروں کو اچھا لگا یا اس کی ضرورت ہے تو وہی سیٹ بیسٹ اور ٹاپ پر ہوگا۔
اگر کسی وجہ سے وہ خرید نہ پائیں تو جب جب ویسی جیولری کی بات ہوگی ہمارے ذہن میں وہی جیولری آ ۓ گی۔ جس کو خرید نہ سکے ۔اس ایک کے سوا باقی سب ڈیزائن ہم بھول چکے ہونگے۔
یہاں پر بھی بات ضرورت اور اہمیت کی آ گئی کہ جس کی ضرورت تھی ہم نے صرف اسے یاد رکھا۔
ہم بچپن سے بڑھاپے تک بہت سے لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں ۔کسی سے کم کسی سے زیادہ دوستی ،کسی سے زیادہ عرصے تک اور ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہوتے ہیں جوکہ بُڑھاپے تک ساتھ رہتے ہیں۔
اب اس کی بھی آسان وجہ ہے ۔جیسے جیسے ہمیں کسی کی پالیسی کو ہماری ضرورت کم ہوتی جاتی ہے اسے چھوڑ کر اگلے سٹیپ پر پہنچ جاتے ہیں ۔اس دوست کی جگہ کوئی اور دوست لے لیتا ہے۔
دنیا کی اس پسندیدگی میں ہم اکثر لوگوں کو شکوہ شکایت کرتے سنتے ہیں ۔
مجھے پسند کا گھر،پسند کی گاڑی ،پسند کا شریک حیات نہ مل سکا۔
انسان میں اتنی طاقت ہے کہ والدین کے علاوہ پسند کی ہر چیز حاصل کر سکتا ہے۔
ادھر فرق آ تا ہے تو سوچ کا کیا کہ جو کچھ پسند ہے کیا کبھی خود کو اس کے لائق یا مطابق تیار کیا۔
جیسے اچھی نوکری کے لیے ذہانت کا بہترین استعمال کیا۔
پسند کے رشتے کے لیے اگلے یا اگلی کی جو ضروریات پسندیدگی ہوں ان کے مطابق ڈالا یا ایسے ہی قسمت کو کوستے رہتے ہیں۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...