سچی بات یہ ہے کہ میرزا طاہر بیگ کے دادا نیک اور دیانت دار شخص تھے۔ وعدہ پورا کرتے۔ تاجر تھے مگر ایسے کہ لین دین میں ننگی تلوار کی طرح صاف گو اور کھرے۔ بتا دیتے کہ یہ شے جو بیچ رہا ہوں، زیادہ اچھی نہیں! میرزا کے والد نے بھی یہ روایت قائم رکھی مگر یہ داستان ماضی کی تھی۔ میرزا تک معاملہ پہنچا تو بات بدل چکی تھی۔ میرزا ایسے تھے جیسے ان کے اردگرد سارا معاشرہ! جہاں موقع ملتا، جھوٹ بول جاتے۔ وعدہ کبھی پورا کرتے کبھی نہ کرتے! دیانت داری کی شہرت اب ایک اور خاندان میں منتقل ہو گئی۔ یہ چودھری تھے! چوٹی کے بزنس مین! کروڑوں کا لین دین! مگر ہر شخص کو معلوم تھا کہ ایک پیسے کا ہیر پھیر نہیں کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں کی نقد رقم بغیر رسید لیے بیوپاری ان کے حوالے کر دیتے۔ صاف گوئی اور شفافیت اس خاندان کی ضرب المثل ہو چکی تھی۔
میرزا طاہر بیگ ہر روز مغرب کے بعد اپنے بچوں کو پاس بٹھاتے اور باپ دادا کی دیانت کی کہانیاں سناتے۔ جب بچے پوچھتے کہ کیا ایسے دیانت دار لوگ آج کے زمانے میں نہیں پائے جاتے؟ تو عجیب بات تھی کہ میرزا کے منہ کو قفل لگ جاتا! ظرف چھوٹا تھا۔ اس چھوٹے ظرف کے اوپر حسد نے جالا تنا ہؤا تھا۔ جانتے تھے کہ چودھری ایسے ہی دیانت دار ہیں جیسے میرزا کے آبائو اجداد تھے مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کا ذکر نہ کیا! ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ وہ دیانت، وہ سچائی، وہ کھراپن جو میرزا کے بزرگوں میں تھی، اب مفقود ہے اور صرف داستانوں میں پائی جاتی ہے!
میرزا طاہر بیگ کون ہے؟ ہم ہیں! ہم مسلمان! ہم پاکستانی! ہم اپنے بچوں کو ، اپنے طلبہ کو، اپنے مقتدیوں مریدوں کو،عقیدت مندوں کو اپنے متعلقین کواور اپنی اگلی نسل کو اپنے قابلِ فخر ماضی کی داستانیں سناتے تھکتے نہیں! قاضی نے طلب کیا تو خلیفۂ وقت عدالت میں حاضر ہؤا! ایک اور خلیفہ ذاتی کام کرتے وقت سرکاری چراغ بجھا دیا کرتے! رعایا میں سے ایک نے پوچھا کہ سب کو اتنا اتنا کپڑا ملا تو آپ نے اتنے کم کپڑے سے کرتا کیسے بنا لیا؟ اس پر امیر المؤمنین نے باقاعدہ صفائی پیش کی! بادشاہ کو بتایا گیا کہ اس کا بھانجا ایک شہری کے گھر میں جا کر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بادشاہ موقع پر گیا۔ آنکھیں بند کر کے مجرم کا سر قلم کیا پھر مجرم کا چہرہ دیکھ کر الحمدللہ کہا کہ مجرم اس کا بھانجا نہیں تھا۔ راتوں کو حکمران بھیس بدل کر رعایا کی خبر گیری کرتے۔ عام سواری پر بیٹھتے یوں کہ لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ یہ حکمرانِ اعلیٰ ہے۔
ماضی کی یہ مثالیں ہم فخر سے پیش کرتے ہیں۔ سننے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیا زمانہ تھا اور کیسے حکمران تھے! پھر وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو صورتِ حال کو یکسر مختلف پاتے ہیں۔ رباط سے لے کر عمان تک، جدہ سے لے کر ریاض تک، قاہرہ سے لے کر دمشق تک، کراچی سے لے کر لاہور تک، اسلام آباد سے لے کر تاشقند تک۔ ہر جگہ محلات اور بیش بہا کاریں اور بجرے اور جزیرے ہیں! آج کے مسلمان حکمرانوں نے ساحل کے ساحل خرید لیے۔ ہسپانیہ، یونان اور اٹلی کے تفریحی جزیروں میں محلات کھڑے کر لیے۔ لندن میں سٹور خرید لیے، اربوں روپوں کے اپارٹمنٹ لے لیے۔ فرانس میں تین تین سو سالہ قدیم تاریخی شاہی حویلیاں اپنے نام کرالیں۔ بیٹے اور بیٹیاں ان کی امور سلطنت میں دخیل ہیں۔ خاندان ان کے قانون سے بالاتر ہیں!
ہماری مسجدوں میں وعظ پر سر دھننے والے، ہمارے سکولوں کالجوں میں عہد گزشتہ کی دیانت کی کہانیاں پڑھنے والے اور اجداد کے کارنامے سن کر عش عش کر اٹھنے والے بچے، اِس بات پر یقینِ کامل رکھتے ہیں کہ اب یہ دیانت، یہ احتساب یہ شفافیت صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے! مگر افسوس ایسا نہیں!
گزشتہ ہفتے برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنی بیوی کے لیے کار خریدی! آپ کا کیا خیال ہے یہ کار کون سی ہو گی؟ مرسڈیز؟ بی ایم ڈبلیو؟ رولز رائس؟ فراری؟ نہیں! یہ ایک پرانی سیکنڈ ہینڈ کار ہے جو وزیراعظم نے خود بنفسِ نفیس آکر، ڈیلر سے خریدی! یہ ایک نسان کار ہے۔ 2004ء کا ماڈل! یعنی بارہ سال پرانی! بانوے ہزار کلومیٹر چلی ہوئی۔ واحد شرط کار دیکھتے وقت ’’خریدار‘‘ نے یہ لگائی کہ کار برطانیہ کی بنی ہوئی ہو! وزیراعظم نے کار پسند کی۔ پھر طے کیا کہ دوسرے دن آکر رقم ادا کرے گا۔ باقی بات کار بیچنے والے ڈیلر کی زبانی سنیے:
’’وہ اگلی صبح دس بجے کے بعد آیا۔ میں نے کوئی ڈسکاؤنٹ نہیں دیا۔ اس نے رقم ادا کی بالکل اتنی جتنی سکرین پر لکھی ہوئی تھی۔ وزیراعظم ڈاکخانہ گیا، ٹیکس ادا کیا اور رخصت ہو گیا! اُس کے سیکورٹی والے سوچتے ہوں گے کہ میں نے اُس کے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا جو میں عام گاہکوں کے ساتھ کرتا ہوں! مگر اس نے کون سی بیس ہزار پاؤنڈ والی کار خریدی جو میں خصوصی برتاؤ کرتا!‘‘
برطانیہ کے وزیراعظم نے یہ کار 1495 پاؤنڈ (آج کے حساب سے 2لاکھ 30 ہزار 240 پاکستانی روپے)میں خریدی! جو وہاں کے معیار کی رُو سے ایک عام خریداری ہے!
یہ صرف ایک مثال ہے! مغربی دنیا کے جمہوری ملکوں میں آج وہ ساری مثالیں موجود ہیں جو ہمارے ماضی کی داستانوں میں ہیں اور جو ہم فخر سے گا گا کر، لہک لہک کر سناتے ہیں۔ وزرائے اعظم آج بھی بھیس بدل کر ٹیکسیاں چلا رہے ہیں تا کہ عوام کے خیالات اور حالات سے براہِ راست آگاہی حاصل کر سکیں! ملکہ سبزی خود خرید رہی ہے۔ وزیراعظم ٹرین میں کھڑا ہو کر اخبار پڑھ رہا ہے اور اس کی طرف کوئی دیکھ تک نہیں رہا۔ صدر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور مقدمے کی لمحہ لمحہ تفصیل انٹرنیٹ پر ساری دنیا دیکھ اور سن رہی ہے! نیو ساؤتھ ویلز کا وزیراعلیٰ تحفے میں شراب کی بوتل لیتا ہے، خبر پھیلتی ہے، صفائیاں پیش کرتا ہے اُس گفتگو کی ریکارڈنگ میڈیا میں چلتی ہے جو اس نے کی تھی! پھر اُسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ ایک اور وزیر سرکاری لیٹر پیڈ پر کسی کی سفارش کے لیے خط لکھتا ہے، اسے وزارت سے نکال دیا جاتا ہے! حکمران آج کے زمانے میں بھی سائیکلوں پر، بسوں میں، زیرزمین ریلوں میں بیٹھ کر دفتروں میں آتے ہیں۔ عوام کی شکایات پر مشتمل ڈاک وزیروں کے دفتروں میں میڈیا پہلے کھولتا ہے، وزیر بعد میں پڑھتے ہیں!
مگر یہ سب کچھ بتاتے ہوئے ہمارے پیٹ میں قولنج کا درد پڑ جاتا ہے! ہمارے واعظ یہاں پہنچ کر گونگے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مدرس موضوع بدل لیتے ہیں! ہماری درسی کتابوں میں یہ سب کچھ نہیں لکھا جاتا تا کہ طلبہ موجودہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر اعتراض نہ کر بیٹھیں!
حافظ سعید وہ واحد مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے کسی احساسِ کمتری کے بغیر عدالت میں کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو برطانیہ کے وزیراعظم سے سبق سیکھنا چاہیے! حافظ صاحب 2012ء کی جولائی میں عدالت گئے۔ افسوس! اس مقدمے کے بارے میں کوئی خبر بعد میں نہ آئی۔ کاش وہ اسے منطقی انجام تک پہنچاتے۔ دیکھیے، مشہور برطانوی روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے کیا لکھا۔ ’’لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں حافظ سعید نے لکھا کہ ہمارے افسران بادشاہوں کی طرح بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں جب کہ برطانوی وزیراعظم سترھویں صدی کے بنے ہوئے ایک عام چاربیڈ روم والے گھر میں رہائش پذیر ہے۔ جب سورج سلطنت برطانیہ پر غروب نہیں ہوتا تھا اس وقت بھی برطانیہ کا چیف ایگزیکٹو اسی، چند مرلے کے گھر میں رہتا تھا۔ حافظ سعید صاحب نے درخواست میں لکھا کہ ’’یہ اصل میں اسلامی طرز ہے! یہ سنتِ رسول کی ابتاع والی بات ہے‘‘ حافظ صاحب نے مزید بتایا کہ ’’صدر زرداری برطانیہ خصوصی طیارے میں سوار ہو کر گئے جس کے لیے ریاست نے بے پناہ خرچ کیا جب کہ لندن کا مئیر سائیکل پر سوار ہو کر آتا ہے اور کیمرون بھی وزیراعظم بننے سے پہلے سائیکل استعمال کر رہا تھا۔‘‘
آپ کا کیا خیال ہے مراکش کا یا سعودی عرب کا یا اردن کا بادشاہ یا پاکستان کا وزیراعظم اپنی اہلیہ کے لیے بانوے ہزار کلومیٹر چلی ہوئی سیکنڈ ہینڈ کار، خود ڈیلر کے پاس جا کر خریدے گا؟، خود ڈاکخانے کی کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر ٹیکس ادا کرے گا؟
ہاں! ہمارے خلفا ایسا ہی کرتے تھے، مگر ہمیں اپنے ظرف اتنے تو بڑے کرنے چاہئیںکہ لوگوں کو بتا سکیں آج بھی ایسا ہو رہا ہے! مگر مسلمان ملکوں میں نہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“