::: " زرد موسموں کا عذاب" ( افسانوی مجموعہ) ::: اور انکے افسانوی فن پر چند باتیں:؛؛
* افسانہ نگار ؛ نعیم آروی۔( آمد: 1946، آرا، ، بہار، بھارت – رخصت: 2002 کراچی پاکستان)
* ناشر: آروی پبلشنگ ۔ 11 سی ۔ایل 29 سرسید ٹاؤن، کراچی۔
* سال اشاعت: 1997۔
* صفحات : 112
افسانوں کا یہ گل دستہ نو (9) افسانوں سے سجا ھوا ھے۔ نعیم آروی نے مختر نویسی کے تحت خوب صورت افسانے لکھے ہیں۔جو ان کی روح کی خود نوشت ھے۔ ان کے افسانوں کی کی جامعیت کم الفاظ میں مافی الضمیر کی ترسیل ھے۔ جو جدی تر اردو افسانوی آفاق میں شاز ھی نظر آتا ھے۔ وہ زندگی کے ہر پہلوں پر کھبے کا فن اور ہنر جانتے ہیں۔ تہنائی، غم عشق، غم روزگار، تشدر، سفاکی، خوفناک موسم، ، موت کے درمیاں لٹکی ھوئی زندگی، جرم اور قانوں کی غیر منطقی اور پھیلی ھوئی مھمل ھوئی دنیا ھی ان کے افسانوں کی اساس ھے۔ جس میں مغائرت اوررشتوں کی بیگانگی نمایاں ھے۔ نعیم آروی ترقی پسند افسانہ نگار تھے۔ شوکت صدیقی نے لکھا ھے۔۔" نعیم آروی کا تعلق بنیادی طور سماجی حقیقت پسندی کے دبستان سے ھے"۔۔۔ نعیم آراوی اپنے افسانوں میں روان حال میں مستقبل کی تصویر دیکھتے ہیں ۔ جس میں ان کے آس پاس پھیلا ھوا پرسرار معاشرہ اور اس کی حرکیات ہیں۔ اس افسانے کے مجموعے میں محمود واجد، ادیب سھیل ، منظرامکانی کے مضامین کے علاوہ نعیم آروی کا ایک مضمون ۔۔"اپنی تلاش میں " ۔۔۔ بھی پڑھنے کے لائق ھے۔ اپنے اس مضمون میں افسانہ نگار نے زندگی کے فلسفے، محرمیوں، افسانوی جمالیات، عشق اور انسانی رشتوں کو واضح طور پر بیان کیا ھے۔ یہ مضمون ان کی مختصر خود نوشت بھی لگتی ھے۔ نعیم آردی نے لکھا ھے ۔۔۔" اجنبیت اور بیگانگی کا میہ احساس ساری عمر میرے تعاقب میں رہا۔ آج بھی اپنے دوستوں کو شک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوں اور اپنے ذہن میں شکوک و شبہات اور وسوسوں کو پالتا رھتا ھوں" ( صفحہ۔25) ۔اس کتاب میں حسن عابدی نے " نعیم آروی سے خطاب سے" کے نام سی ایک نظم بھی لکھی ھے نعیم آروی کو اردو کے نقادوں نے نظر انداز کیا۔مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ایک بڑے افسانہ نگار تھے۔ عشق او مشک چھپائے نہیں چھپتا۔
"نعیم آروی کا زندگی کے ساتھ کمٹ مینٹ ہے،انسانیت کا رشتہ ہے،دکھ سکھ کا رشتہ ہےاور اسی رشتے اور کمٹ مینٹ کو وہ ادب میں بروئے کار لارہے ہیں۔اُن کے افسانوں کے بہت سےکرداروں اور مقامات و واقعات سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔“ مٹی“ کے تراب علی ہمارےپڑوسی تھے، انفرنو تو خود نعیم بھائی کی اپنی رودادِ غم ہے۔وہ اس عہد کے سچے اور اچھےافسانہ نگار ہیں۔وہ ایک آئیڈیل معاشرے کا خواب دیکھتے رہے اور ساغر صدیقی کی طرح فقیرانہ روش پر گامزن ہیں کہ رزق،رہائش اور بنیادی ضروریات سے آگے انہوں نے کبھی اپنے لیے کچھ حاصل نہ کیا۔معاشرتی ناانصافیوں کی عکاسی اپنے افسانوں میں کرتے کرتے وہ ذاتی زندگی کےتلخ تجربات بھی سموتے رہے ہیں۔راجندرسنگھ بیدی،قرہ العین حیدر،شوکت صدیقی اور مشرف احمدان کے پسندیدہ افسانہ لکھنے والے فن کار ہیں۔ مشرف ذوقی نے نعیم آروی کے افسانوی مزاج ، کمال اور جمال کے متعلق لکھا ہے۔۔" ”میں منی بس سے اُتر کر بڑے قریب سے محب وطن بہاریوں کے پہلے لٹے پٹے قافلے کا جائزہ لے رہا تھا۔ پولیس اور فوج کا پہرہ نہ تھا۔ بس اتنا ہی یہاں سے جانے والے بنگالیوں اور وہاں سے آنے والے بہاریوں میں فرق تھا۔ باقی سب کچھ ایک جیسا تھا___ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل ہونے کا ہولناک منظر۔“ (گودھرا کیمپ: نعیم آروی) {'جدیدحقیقت نگاری بنام آج کی اردو کہانیاں'۔۔۔ روزنامہ "آگ"۔ 23 ستمبر 2013}۔
ان تمام تر کہانیوں کا ہیرو ’وقت‘ ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساری کہانیاں حادثوں کی کوکھ سے جنمی ہیں۔ گودھرا کے حادثے پہلے بھی کہانی کا منظر نامہ بنتے رہے ہیں۔ نعیم آروی 1948 کے آس پاس پاکستان چلے گئے۔ اسی کے آس پاس گودھرا کیمپ کے خونی مناظر انہوں نے دیکھے ہوں گے، جو بعد میں اُن کی کہانی کا موضوع بنے۔
(نعیم آروی کی زندگی میں لکھا اورنشست میں پڑھا گیا)
{حوالہ:کاغذ کا رزق ازانورجاویدہاشمی}
9 جنوری 2000 میں ڈی ایل ایس {DNS} کی اشاعت میں نعیم آروی کا انگریزی میں ایک مصاحبہ شامل ہے۔ تے انٹرویو منصور رضا نے کیا تھا۔
https://mansooraza.wordpress.com/…/interview-with-naeem-ar…/
تعیم آروی کی کتابوں کی فہرست یوں بنتی ہے :
سوا نیزے پر سورج
ہجرتوں کی مسافت
بستی کا آخری آدمی
گرد آلود شام
زرد موسموں کا غذاب
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔