ہر کوئی اسے مردہ سمجھتا تھا،حالانکہ وہ مردہ نہیں تھا ۔مردہ ہونے کے لیے مرنا ضروری ہوتا ہے جیسے رات کہنے کیلئے رات کا ہونا،مسکرانے کیلئے خوشی اور رونے کیلئے آنسو کا ہونا۔وہ تو زندہ تھا مگر زندوں میں مردے جیسا زندہ ۔خواہشات جذبات سے یکسر عاری ۔بس صرف دھڑکنوں کو گنتا ہوا ایک انسان، زدر چہرے والا،آنکھیں غار کے اندر بجھتی ٹمٹماتی ہوئ سی ، لمبا قد اور بڑے سر والا آدمی۔ وہ اب چالیس سال کا ہوگیا تھا،اسے خود حیرت ہوتی کہ وہ چالیس کا کیسے ہو گیا اسے تو بچپن میں ہی مرجانا تھا۔ کسی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ مشکل سے دس سال تک زندہ رہے گا اسکے کان بہت چھوٹے ہیں ۔ دس سال بعد وہ ہر روز مرجاتا ، یا خود کو مرتا محسوس کرتامگر وہ زندہ رہا۔دس سال بعد وہ دس سال اور بھی زندہ رہا۔اب وہ بیس سال کا ہوگیا اور زندہ رہا،پھر بیس سال مزید اور اب وہ چالیس سال کا ہوگیا، اور زندہ رہا۔ہر رات سونے سے پہلے وہ اپنے کان چھو کر دیکھتامگر وہ بڑے نہیں ہوئے ۔ اسے نہ جانے کیوں یقین تھاجس دن اسکے کان بڑے ہوں گے ، وہ اسکی زندگی کا آخری دن ہوگا ۔ وہ اپنی زندگی کوبس بلاوجہ کھینچ رہا تھا اسے بہت ساری باتیں ناگوار لگتی تھیں ، اسےاسکول جانا پسند نہیں تھا وہاں ماسٹر بدرو تھے جو اس کو کن بچا کہہ کر چھیڑتے ، بلاوجہ اس کے کان کھینچتے ۔ایک دن غصے میں آکر اس نے بورڈ پر ماسٹر بدرو ح لکھ دیا پھر اسے اسکول چھوڑ نا پڑا کیونکہ اس نے انکے گھر اور اسکول کی دیواروں پر ماسٹر بدروح لکھ دیا تھا جو اسکی بھرپور پٹائی کی وجہ بنی تھی ۔ اس نے ایک پرنٹنگ پریس میں کام شروع کر دیا۔وہ ایک معمولی آدمی تھا۔معمولی سے بھی زیادہ معمولی آدمی جسکی خود اپنی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔اسکا کوئ دوست۔نہیں تھا۔اسکی شخصیت میں کبھی کوئی بات نہیں رہی۔وہ گرمی بلکل پسند نہیں کرتا جیسے بہت سارے لوگ پسند نہیں کرتے۔وہ اندھیرے اور سمندر سے ڈرتا جیسے بہت سارے لوگ ڈرتے ہیں اور کچھ نہیں بھی ڈرتے۔اسے نیپال کو نیپال کہنا ا چھا لگتا لیکن کلکتہ کو کولکتہ کہنا برا لگتا۔اسے اس بات کی حیرت ہوتی کہ کوے اور فلپائنی ایک دوسرے کو کیسے پہچان لیتے ہیں وہ ہمیشہ اکیلا رہتا۔وہ صبح سیر کرنے جانا چاہتا مگر کبھی جا نہیں سکاجیسے بہت سارے لوگ نہیں جاتے مگر کچھ لوگ چلے بھی جاتے ہیں۔ اس نے کبھی نہیں سوچا کہ تتلی اتنی خوبصورت کیوں ہوتی ہے ،اور بھولوں میں رنگ اور خوشبو کہاں سے آتی ہے ،سمندر میں موجیں کیوں پیدا ہوتی ہیں اور چاندنی میں گاؤں کیوں خوبصورت لگتا ہے۔
اسنے پہلی بار دل میں اپنی خالہ زاد بہن طاہرہ کیلئے محبت جیسی چیز محسوس کی۔وہ اس سے شادی کا بھی خواہش مند ہوامگر اسکے خالو نےاسکے چھوٹے کان کی وجہ سے انکار کردیا ۔ اسے اس انکار پر زیادہ افسوس نہیں ہوا۔اسے افسوس ہوا اور بس۔پھر طاہرہ کی شادی ہوگئی کچھ دنوں بعد اسکے شوہر کا انتقال ہوگیا حالانکہ اسکے کان بڑے تھے۔وہ اکثر طاہرہ کو یاد کرتا طاہرہ سے زیادہ اسکے آنسوؤں کو جو اس نے اس دن بہائے تھےجب ماسٹر بدرو نے اسکی بھرپور پٹائ کی تھی۔
اسے ہیجڑوں سے ہمیشہ خوف آتا۔اسے بہت ساری چیزوں سے خوف آتا جیسے بہت سارے لوگوں کوبہت ساری چیزوں سے آتا کچھ لوگوں کو نہیں بھی آتا ۔ وہ رات کے اندھیرے کے آخری پہر میں چمگادڑ کے پھڑپھڑانے سے نہیں ڈرتااور کتوں کے بھونکنے سے بھی نہیں لیکن وہ سردیوں میں نہانے سے ڈرتا اور کالی بلی سے بھی ڈرتا۔اسے کوئٹہ عنابی ہوٹل کی کڑک چائے پسند تھی۔ اسے غصہ بہت کم آتا اور جب آتا تو جاتا نہیں اور جب جاتا تو پھر چلا جاتا۔وہ اپنی بےبسی اور کمزوری کو اندر ہی اندر چھپا کر غصے کو پالتا رہتا۔اسےمحسوس ہوتا جیسے اسکے جسم میں کوئ انگارہ دہک رہا ہو کبھی تیز کبھی مدھم۔وہ بہت ساری باتیں نہیں جانتا جیسے بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔اسے نہیں معلوم کہ اکسپریسو کافی کا موجد کون ہے اور مزہ کیسا ہوتا ہے۔ اس نے کافی کا نام سنا تھا اور بس ۔وہ اپنے کام میں ماہر تھا پرنٹنگ کی دونوں مشینوں پر مہارت سے وہ کام کرتا۔اسکا سیٹھ اکثر خوش ہوکر اسے گالی دیتا اور برگر کھلاتا اور وہ ساری گالیاں مسجد کے نکڑ پر بیٹھے دایاں ہاتھ کٹے فقیر پر الٹ دیتا
بھنچ۔۔۔۔کام کیوں نہیں کرتا سالا ہٹا کٹا ہڈ حرام ۔اسے ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔وہ کام کے بعد کوئٹہ عنابی ہوٹل سے دودھ پتی چائے پی کر گھر جاتا۔رات کو سونے سے پہلے چمگادڑ کے پھڑپھڑانے اور کتوں کے بھونکنے کا انتظار کرتا پھر پھڑپھڑانے اور بھونکنے کی آواز کے بعد وہ سو جاتا۔
آج اسے تنخواہ کے ساتھ سیٹھ نے بونس بھی دیا ۔وہ۔بہت خوش تھا۔اسے اچانک ہی ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا۔کیوں اور کیسے ،اسے نہیں معلوم۔اس نے لٹن پان والےکی دکان سے ایک میٹھا پان منہ میں دباکر ایک سگریٹ سلگا ئ اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔اچانک رینجر کے آفس سے قبل ایک جہاز اس کے اوپر سے گزرا۔وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔وہ ڈر گیا ۔وہ ہمیشہ جہاز سے ڈرتا۔اسے نہیں معلوم کہ جہاز کا موجد رائٹ برادرز تھے یا کوئی اور۔اسے تو بس جہاز سے ڈر لگتا جیسے بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے اور کچھ لوگوں کو نہیں بھی۔اسٹاپ سے پہلے دو موٹر سائیکل سواروں نے اسے روکا۔
“ موبائل اور پیسے نکال” ۔ اس کی کنپٹی پر پستول تھا ۔
“ موبائل نہیں ہے۔ “ دو میں سے دوسرا وہی دایاں ہاتھ کٹا فقیر تھاجسے وہ ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا تھا۔
“ جھوٹ بولتا ہے بھڑوے “ ایک زور دار مکا اس کے منہ پر لگا اسے بھی غصہ آگیا لیکن وہ کمزور زرد انسان بےبسی میں کچھ نہیں کرسکا ۔ بس اسکے منہ پر پان کی پیک پھینک دی ۔ وہ اتنا ہی کرسکتا تھا جو اس کے بس میں تھا ۔دوسرے ہی لمحے گولی چلی اور وہ زمین پر گر پڑا ۔وہ اپنی جیب کو پوری طاقت سے پکڑے تڑپتا رہا کچھ دیر بعد ہی وہ مر گیا۔اسکے مرنے پر کوئ نہیں رویا۔کون روتا،کوئی رونے والا نہیں تھا ۔ کچھ لوگوں کے مرنے پر کوئ نہیں روتا کچھ روتے بھی ہیں کچھ نہیں بھی ۔ جو روتے ہیں وہ بھی کچھ دنوں بعد مر جاتے ہیں اور جو نہیں وہ بھی.اس نے اپنی جیب کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔بڑی مشکلوں سے اسے الگ کیا گیا ۔جیب سے پیسے کی بجائے صرف ایک خط نکلا ۔
پیاری طاہرہ۔آج میں بہت خوش ہوں لیکن اس خوشی نے مجھ کو خوفزدہ کردیا ہے۔میرے ساتھ ہمیشہ ا یسا ہی ہوتا ہے ۔خوشی راس نہیں آتی ۔ مجھے سیٹھ نے تنخواہ کے ساتھ بونس بھی دیا ہے ۔میرے پاس اب اتنے پیسے ہوگئےکہ بہ آسانی تم کو رخصت کراسکتا ہوں ۔پیسے سیٹھ کے پاس جمع کردیا ہے۔اگلے ماہ میں رخصتی کرانے آرہا ہوں میرا انتظار کرنا تمہارے ساتھ محبت اور چاہت کے لمحات گزار کر مجھے نئ زندگی مل جائے گی مجھے یقین ہے ۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں تمہارے لیے تمہارے نام کے ساتھ۔ ۔۔۔۔۔۔۔تم میرا ساتھ دوگی نا
آگے خون کے داغ سے الفاظ مٹ گئے تھے۔