ضرب المثل اشعار
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہیر مچھلی شہری
مدعی لاکھہ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ثاقب لکھنوی
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ثاقب لکھنوی
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
مہتاب رائے تاباں
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
کعبے کس منہ سے جا ئوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
ظریف لکھنوی
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھہ کچھہ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علامہ اقبال
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال
دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبال
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
اقبال
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبال
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبال
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
سید محمد خاں رند
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھہ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈ تا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھہ کچھہ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ
چل ساتھہ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھہ
اس میں کچھہ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش
مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
آتش
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
عزیز الحسن مجذوب
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
دام و در اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
چتونوں سے ملتا ہے کچھہ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی
دیکھہ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھہ
نظام رام پوری
گرہ سے کچھہ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
امیر مینائی
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادی
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادی
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
سید محمد خاں رند
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھہ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
دیکھہ آئو مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی
الجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
وزیر علی صبا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھہ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھہ رہے ہیں
داغ دہلوی
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی
غالب
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
غالب
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کاررواں ہو کر
خواجہ وزیر
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اکبر الہ آبادی
فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھہ میں وہ جام اسی کا ہے
شاد عظیم آبادی
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھہ لے کے چلو
مخدوم محی الدین
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
میرتقی میر
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اقبال
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مرزاغالب
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
ناصرکاظمی
نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن بھوپالی
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
میر تقی میر
بہت کچھہ ہے کرو میر بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس
میر تقی میر
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
مادھو رام فرخ جوہر آبادی
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِ عشق احتیار کیا
میر تقی میر
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھہ یہ آزار جائے گا
میر تقی میر
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
میر تقی میر
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
نظیر اکبر آبادی
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“