زرافہ افریقہ کے جنگلوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ وہ ٹولی میں رہتا ہے۔ زرافہ کے جیسا دنیا میں کوئی اور جانور نہیں۔ زرافہ اس زمین کا سب سے اونچا جانور ہے۔ اس اونچائی سے وہ درختوں کے اوپر سے پتے کھا سکتا ہے۔ دوسرے جانور وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس اونچائی کی بدولت وہ دور سے دشمن کو دیکھ بھی پاتا ہے۔ زرافہ کا دل بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا ایک دل آدمی کے پچاس دلوںکے برابرہے۔ وہ دن میں صرف پانچ منٹ سے تیس منٹ کے لئے سو تاہے۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئے آرام کرسکتا ہے۔ وہ ایک دن میں سولہ سے بیس منٹ تک کھاتا رہتا ہے۔ اگر وہ لیٹ جائے تو دوسرے خطرناک جانور اس کا شکار کر سکتے ہیں۔ جب زرافہ پوری طرح بڑا ہوجاتا ہے اس کی لمبائی اٹھارہ فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی زبان بہت لمبی ہوتی ہے۔ اس کی اگلی ٹانگین اس کی پچھلی ٹانگیوں سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ زرافہ پانی کے بغیر کئی ہفتوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔ وہ اپنی پیاس پتوں میں موجود نمی سے پوری کرتا ہے۔ زرٖافہ ایک نہایت خاموش جانور ہے۔ وہ بہت کم آوازیں نکالتا ہے۔ اس کی نظر بہت تیز ہے اور وہ اچھی طرح سن بھی سکتا ہے۔ وہ بہت تیز دوڑ سکتا ہے۔ اس کے سر پر دو سینگ بھی ہیںجو لڑائی کے وقت اس کے کام آتے ہیں۔
اس کا مادہ ایک بار میں ایک ہی بچہ دیتی ہے۔زرافہ پندرہ مہینوں تک اپنے بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے۔ جب اس کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ چھ فٹ اونچا ہوتا ہے اور ہر روز بڑا ہوتا رہتا ہے۔ جب زرافہ کا بچہ دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنی ماں کے پیٹ سے اچانک اونچائی سے زمین پر گرتا ہے۔ ننھے زرافہ کی والدہ سب سے پہلے اس کو ایک لات مارتی ہے۔ ننھے زرافہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ وہ ابھی ابھی دنیامیں آیا ہے اور آتے ہی اس کو ایک لات پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کی ماں اسے دوبارہ لات مارتی ہے۔ بے چارے زرافہ کو اس بار اور زوروں کی لات پڑی ہے۔
ننھے زرافہ سمجھ گیا کہ اگر اس نے جلد کچھ نہیں کیا تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ننھا زرافہ اپنی کمزور ٹانگوں پر کھڑا ہونے لگا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ابھی کمزور تھیں۔ جیسے ہی وہ کھڑا ہوا اسے ایک اور لات پڑی۔ اس بار ننھا زرافہ اٹھا اور دوڑنے لگا۔ اس کی والدہ خوش ہوئیں اور اپنے بچے کے قریب جاکر اسے چومنے لگیں۔ دراصل ننھے زرافہ جب پیدا ہوتے ہیں تو ان کا گوشت بہت نرم و ملائم رہتا ہے۔ لکڑبگڑ، چیتا، مگرمچھ، تیندوا اور شیر اس کا گوشت پسند کرتے ہیں۔ والدہ کو معلوم تھا کہ وہ اپنے ننھے بچے کے ساتھ ہر وقت نہیں رہ سکتیں۔ اسے اپنے بچے کے لئے کھانا تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے بچے کی حفاظت کیسے کر پاتیں؟ یہ فکر ماں کو پریشان کر رہی تھی۔ ماں کو کب منظور تھا کہ پندرہ مہینے تک جس ننھی سی جان کو اپنے پیٹ میں تکلیفیں اٹھا تے ہوئے رکھا وہ بچہ کسی جنگلی جانور کا شکار بن جائے۔ اس لئے دنیا میں آتے ہی بچہ کو ایک ایسی لات ماری گئی تاکہ وہ اٹھنا سیکھے اور پھر جیسے ہی وہ اٹھا تو اسے ایک اور لات ملی جو اسے یاد رہے اوروہ پھرسے اٹھنا سیکھے۔
زندگی بھی ننھے زرافہ کی والدہ کی طرح ہوتی ہے۔ زندگی کئی بار لات مارتی ہے۔ آپ ناکام ہوتے ہیں۔ آپ دوبارہ اٹھتے ہیں۔ آپ ایک بار پھر ناکام ہوتے ہیں اور آپ پھر اٹھتے ہیں۔ اس طرح آپ نہ صرف زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ آپ میں زندگی کی سمجھ بھی آجاتی ہے۔
دنیا میں سب لوگ کامیاب بننا چاہتے ہیں۔ کامیاب ہونے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھی ناکامی بھی ہاتھ آتی ہے۔ ناکامی کامیابی کا حصّہ ہی تو ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...