ارشد جاوید : شام آئی تیری یادوں کے ستارے نکلے-
اس حادثے کو سُن کے کرے گاکوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
💥 فیصل آباد میں مقیم ممتاز ادیب ، نظم نگار ،دانش ور اور زیرک نقاد محترم ارشد جاوید نے بھی اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔۔۔خراباتِ آرزو پر اس کی دائمی مفارقت کا غم اِس طرح برسا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے اور دِل کی ویرانی کا اب کیا مذکور ہے ؟ میں اپنے جذبات حزیں کو صفحہ ٔقرطاس پر منتقل کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہوں۔ فرشتہء اجل نے اس فطین، فعال اور مستعد تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ پانچ عشروں سے تخلیقِ ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ اُردو اور پنجابی پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا علم و ادب کا وہ آفتاب جو 21 ستمبر 1939ء کو جگراں لدھیانہ ہندوستان سے طلوع ہوا اور اپنی ضیاء پاشیوں سے ادبیات عالم کو۔ منور کرنے کے بعد 26 اگست 2021ء کو فیصل آباد پاکستان میں غروب ہو گیا۔اس علاقے کی خاک کو اکسیر بنانے کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے والا عظیم محب وطن غلام محمّد آباد فیصل آباد کے بڑے قبرستان میں پیوندِ خاک ہو گیا ۔ ایک دبنگ اور بڑا تخلیق کار ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ تخلیقِ ادب کا کوئی بھی عکس ہو، اس میں اس زیرک تخلیق کار کی فعالیت کے خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔اس کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پرشہر کا شہر سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔اس کی یاد میں بزمِ ادب ایک عرصے تک سوگوار رہے گی۔ یہ نابغہء روزگار لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں،ان کے قدموں کے نقوش بھی سر بہ فلک کوہساروں کے مانند ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ منزل ثابت ہوتے ہیں۔زندگی اور اس کی حقیقی معنویت کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہم فریب ِ ہستی کھانے کے بعد بھی بھیانک تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں دِل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ مسحور کُن آوازوں کی مدھر لے پر خوابوں کی خیاباں سازیاں اپنی جگہ لیکن زندگی کی اصلیت کی گرہ کشائی کی یہ کیفیت قاری کو خواب غفلت سے جگاتی ہے اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب مراجعت کی راہ دکھاتی ہے۔۔ محترم ارشد جاوید کی شاعری جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔زبان و بیان اور اظہار ابلاغ پر خلاقانہ دسترس رکھنے والے منفرد اسلوب کے حامل اس شاعر نے تشبیہات ،استعارات اور نئی تراکیب کے استعمال سے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ۔ ارشد جاوید گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس
(جی ٹی ایس) لائل پور میں ٹکٹ ایگزامینر کے عہدے پر فائض تھے ۔میرے والد گرامی رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی مرحوم بھی اسی محکمہ سے منسلک رہے ہیں ۔اس لحاظ سے وہ میرے والد گرامی کے کولیگ اور قریبی دوستوں میں شامل تھے ۔ارشد جاوید جب بھی کہیں مجھے ملتے ،تو وہ بڑی شفقت اور پیار سے خوب حال و احوال پوچھتے ۔ پھر میرے والد گرامی کی رحلت کے بعد وہ جب کبھی مل جاتے تو قبلہ والد گرامی کی عطر بیز یادیں تازہ کر کے میرے دل کے نہاں خانوں میں روشنی کرتے۔۔۔شیخ شفیق احمد جو میرے والد گرامی رانا محمد گلزار خان اور محترم ارشد جاوید کے محکمانہ دوست تھے ۔ان کی علالت کے دنوں میں وہ جب بھی ارشد جاوید سے ملنے کے لیے جاتے تو میرے والد صاحب کا ذکر ضرور کرتے تو محترم ارشد جاوید صاحب ان کا ذکر سن کر نہال ہو جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد سے متعلق ارشد جاوید کا اردو ادب میں ایک اہم حصہ ہے ۔۔یہ کمزور و نحیف شاعر اپنے اندر توانا سوچیں اور
پرفکر لہجہ لیے ہوۓ تھا ۔۔بات کا سچا اور کھرا انسان جس کے انگ انگ سے شاعرانہ ادائیں پھوتیں تھیں ۔۔۔ارشد جاوید کی شاعری کا آغاز پانچ عشرے قبل ہوا تھا ۔انہوں نے نظم اور غزل دونوں اصناف ادب میں شاعری کی ۔۔کم کم لکھا مگر خوب لکھا اور جتنا لکھا اس سے بھی کم شائع کیا ۔۔
اُن کا مختصر کلام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے ’’ ذرا سی دھوپ‘‘ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس میں سماجی و سیاسی مزاحمتی رنگ غالب ہے۔ بہت کم شاعر اپنے مافی الضمیر کی اشاعت میں اتنی سنجیدگی و بہادری کا مظاہرے کرتے ہیں۔
ارشد جاوید کا پہلا اور واحد مجموعہ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ 2010ء میں شائع ہوا۔ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ پر ڈاکٹر ریاض مجید نے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ارشد جاوید کی شاعری سماجی حقائق سے جڑی ہوئی شاعری ہے۔ انھوں نے محبت و رومان پر نہ ہونے کے برابر لکھا ہے کہ ان کا مزاج اور ان کے مسائل اسی زمانے اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سیاسی انتشار اور معاشرتی تبدیلیوں نے حساس ذہنوں کو پگھلا کے رکھ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نسل مسائل اور حساسیت کے سبب بچپن سے ایک دم بزرگی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور ان پر شباب کے موضوعات اس طرح وارد نہیں ہوئے جس طرح ان سے پہلے نسل پر وارد ہوئے۔ان کی شاعری کا مجموعہ استعارہ ہمارے خطے کے آج کے اس فرد کا دکھ ہے جو بندھے پاؤں اور کٹے بازؤں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔‘‘
انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف ادب میں شاعری کی ہے ۔۔۔کم کم لکھا مگر خوب لکھا اور جتنا لکھا اس سے کم شاہع کیا ۔۔۔۔
عورت ، ارشد جاوید کی شاعری کا مرکز اور بنیادی آستعارہ ہے ۔۔اس پس منظر میں مشرقی عورت کے کرب کا احاطہ ان کی نظموں کا مرکزی نقطہ ہے ۔۔
ذرا سی دھوپ کسی لمحے میں
دو خلیوں کی آمیزش
نیا فتنہ جگاتی ہے
ارشد جاوید کی شاعری فکری بالیدگی ،احساس کی ندرت اور جذبے کی متنوع کیفیات کو حقیقتا طرز تحریر کی ایک منفرد اساس فراہم کرتی ہے ۔۔انھوں نے اپنی شاعری کو شعوری طور پر علامتوں اور ابہام سے دور رکھا ہے جیسے اکثر شعرا اپنی تخلیقات کو بلند درجہ دینے کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں ۔اپنے ابتدایہ میں لکھتے ہیں
” مجھے اردو شاعری میں علامتوں اور ابہام کی اہمیت سے انکار نہیں مگر میں اپنی شاعری کی حد تک سمجھتا ہوں کہ اسے کسی وسیلے یا واسطے کے بغیر قاری کے دل و دماغ تک اترنا چاہیے “۔۔
ارشد جاوید کی شاعری سماجی حقایق سے جڑی ہوئی شاعری ہے ۔۔انھوں نے محبّت و رومان نہ ہونے کے برابر لکھا۔۔ان کے مزاج اور ان کسے مسائل اسی زمانے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔ممتاز شاعر اور محقق ڈاکٹر محمود رضا سید اپنے تاثرات میں محترم ارشد جاوید کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔۔
“ارشد جاوید لائل پور کی ادبی تاریخ کا ایک اہم نام ہے ان کے بغیر ستر کی دہائی نامکمل سمجھی جاتی ہے ارشد جاوید ایک مثبت سوچ رکھنے والے ترقی پسند شاعر ہیں حلقہ ارباب ذوق لائل پور کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ایک دو سال سے حلقے میں نہیں آرہے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق ان کے بنا سونا لگتا تھا۔ حلقے کے اجلاسوں میں ان کی حاضری سو فیصد ہوا کرتی تھی آج کل بیمار ہیں ۔بطور شاعر ارشد جاوید ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور ترقی پسند نقاد بھی ہیں۔”
بھلاتا ہوں مگر صورت پرانی یاد رہتی ہے
مجھے اک شخص کی نقل مکانی یاد رہتی ہے
بہت سے جاننے والوں کی شکلیں بھول جاتی ہیں
جو بچپن میں سنی تھی وہ کہانی یاد رہتی ہے
(ارشد جاوید )
ارشد جاوید کی شاعری انسانی رویوں کے دلفریب اظہار کا نام ہے ۔۔دل و دماغ پر جو اثرات وارد ہوتے ہیں شاعر ان کو دلنشین اور مانوس الفاظ میں اس آہنگ اور انداز سے ادا کرتا ہے کہ قاری اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے ۔۔۔۔شاعری اظہار سخن کا ایسا انداز ہے۔ جس میں کہنے والا سب کچھ کہہ بھی دیتا ہے پھر بھی تشنگی باقی رہتی ہے۔ایک دلگرفتہ شخص ان اشعار میں اپنا عکس دیکھتا ہے ۔سیاسی انتشار اور معاشرتی تبدیلیوں نے ایک حساس ذہن کو کس طرح پگھلا کے رکھ دیا ہے۔۔نظم “چلڈرن وارڈ ” کی دو سطریں ملاحظہ ہوں ۔
پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو مرنا نہیں چاہیے
میرے اندر کے انسان کا مشورہ ہے
ان کی شاعری میں عصری آشوب اسی انتشار کا نوحہ ہے جس میں ان کی زندگی گزر رہی ہے ۔۔جاگتی آنکھوں اور کھلے آسمان کے ساتھ انھوں نے معاصر رویوں کو دردمندی سے دیکھا اور دکھی دل سے اس کے مرثیے کو سنا ۔۔ارشد جاوید کی شاعری کے موضوعات سماجی حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں ۔۔۔انہوں نے اپنی نظموں میں ایک معتبر وضاحت کے ساتھ اپنے اثر کی خوب ترجمانی کی ہے ۔
ہماری ہجرتوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا
ہم اپنا شہر اپنا خانوادہ مانگتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ارشد جاوید سماجی نا انصافی جبر اور استبداد کے خلاف پورے انسانی وقار کے ساتھ اپنی نظموں میں ہمیں نظر آتا ہے ۔۔اور اس نے تخلیقی ارتقا کے عمل کو قائم رکھا ہے ۔۔۔
وہ عام آدمی کے لیے عام اور بنیادی ضروریات سے مزین زندگی مانگتے ہیں:
ہم کبھی یوں تو خسارے پہ چلے جاتے ہیں
نصف کو چھوڑ کر سارے پہ چلے جاتے ہیں
شکل کچھ یوں ہے مری تیزی رفاقت کے بغیر
جیسے اک ہاتھ ہو انگشت شہادت کے بغیر
ہزار آنکھ نے جیبوں کی سمت دیکھا ہے
سفر کا حال تو بس میری ماں نے پوچھا ہے
پکارتے تو بہت ہیں صدا نہیں چلتی
ہمارے شہر میں اکثر ہوا نہیں چلتی
جو بھی قربت ہے،وہ شکلوں کی اکائی تک ہے
فاصلہ ورنہ بہت بھائی سے بھائی تک ہے
تمھیں جوہم نے حقِ حکمرانی دے دیا ہے
زمیں تو تھور تھی پر ہم نے پانی دے دیا ہے
اداس رکھتا ہے اپنی زمیں کا حال مجھے
تو ان خلاؤں کی تسخیر پر نہ ٹال مجھے
ڈاکٹر قاسم یعقوب ، ارشد جاوید کے فن پر یوں رقم طراز ہیں ۔۔
” ارشد جاوید کے ہاں شعری منظر نامہ کسی محرک کا ردِ عمل بنتاہے۔ وہ معروض کی جمالیات کا تابع رہنا پسند کرتا ہے۔ گو اُس کا جذباتی الاؤ اُسے اندروں بیں حسیت فراہم کرتا ہے مگر وہ باہر کے تلخ اور پُرآشوب تجربے کی پردہ پوشی نہیں کر پاتا۔ارشد جاوید کی غزلوں کا یہ حوالہ بنیادی نوعیت کا ہے۔ ارشد کے ہاں صرف بغاوت کا لاوا بہتا نظر نہیں آتا ہے بلکہ وہ ردِ تشکیل کے دوران تعمیر کی خاکہ سازی بھی سامنے رکھتا ہے۔ عموماً سماج کے سیاسی مدوجزرکا شکارہونے والے شاعر جزوقتی اظہار ہی کر پاتے ہیں۔ کھوکھلے نعرے اوربیکار طرز کی جذباتیت اُن کا طرزِ اظہار بن جاتی ہے مگر ارشد جاوید کے ہاں اس انتشار کے اندر سے خوبصورت رومانی بیانیہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ارشد جاوید کے ہاں غزل کی صنف کا کلاسیکی معیار غالب نہیں،وہ غزل کو اپنے جدید اظہار کا ایک پختہ مشق سمجھتا ہے اسی لیے وہ بعض جگہوں پر بہت سادہ اظہار کر جاتا ہے۔ کچھ اشعار میں تو شعر کا بیانیہ غیر شعری جمالیات میں ڈھل گیا ہے جس پر کچھ احباب انھیں شاعری ہی نہیں مانتے۔ شاعر کچھ جگہوں پر اپنے بیان کی تشریح کے لیے خود اس میدان میں اترتا ہے تاکہ وہ اپنے نکتہ نظر کو مکمل خام حالت میں پیش کر سکے ایسا اظہار عموماً مضبوط نقطہ نظر رکھنے والوں کے ہاں ہی ملتا ہے۔”
ارشد جاوید ایک مضبوط نکتہ نظر رکھنے والا شاعر ہے جو شاعری کو کسی جمال پسند جذبے کی تسکین کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔۔۔
ارشد جاوید نے الفاظ کے انتخاب میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے اور ان سے وہ موسیقیت اور نغمگی پیدا کی ہے جو پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے وہ منفرد الفاظ کی نغمگی اور موسیقیت کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں اور انہوں نے تجربات کے اظہار کے لیے موضوع کی مناسبت سے ان الفاظ کے انتخاب میں بھی بڑے فن کارانہ شعور کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔ مگر مختلف الفاظ کی مخصوص دروبست سے جو نغمگی پیدا کی ہے اس میں ارشد جاوید اپنا جواب نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔اگرچہ انہوں نے اپنی شاعری میں سیدھے سادھے الفاظ استعمال کیے ہیں مگر الفاظ کی دروبست سے ایک مخصوص لہجہ پیدا کرنا ان کا خاصہ ہے ۔۔ان کی آواز میں بانکپن ہے ،بے ساختگی اور برجستگی ہے ۔۔
’’سنو! اے مشرقِ وسطیٰ‘‘ کی چند لائنیں دیکھیں۔۔۔۔
جو مسلمان معاشرے کی لاچارگی کادرماں بنی ہوئی ہیں:
رسولوں کی زمیں بے کار لوگوں کے لیے سونا اُگلتی ہے
تمھارے دست و بازو اس لیے حرکت نہیں کرتے
انھیں یورپ کی ٹھنڈی عورتوں نے باندھ رکھا ہے
تمھیں یہ زعم تھا زیتون کی گرمی سے ان کی برف پگھلے گی
تو تم کو راستہ دے گی
مگر ایسا نہیں ہوتا
یہ بچے باپ کے خانوں میں ماں کا نام لکھتے ہیں
ارشد جاوید کی زبان نہایت شگفتہ اور شاداب ہے ۔اس میں تازگی نظر آتی ہے۔۔ اس کے زندہ اور متحرک ہونے کا احساس ہوتا ہے وہ بہت سجی سجائی معلوم ہوتی ہے ۔۔بڑی ہی جگمگاہٹ ہے۔۔ بڑی ہی تابانی ہے ۔۔۔جاوید کا نام فیصل آباد کی ادبی تاریخ میں تابندہ ستارے کی طرح روشن اور جاوداں رہے گا ۔۔
شاعری صرف خیالات کو شعری قالب میں ڈھالنے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مشکل فن ہے جس کے اصولوں سے صرف نظر نہ ممکن ہے۔ شاعری فکر وفن کے حسین امتزاج کا نام ہے۔۔ شاعر اپنی فکری بلندی اور وسعت کے ساتھ نئی چابک دستی اور زبان و بیان کی فنکاری سے شاعری میں ایسی ایسی تصویریں بناتا ہے جو مصور اپنے برش سے بھی نہ بنا پاۓ ۔ اپنے خیالات کو بیان کرنے کے لیے خوبصورت الفاظ کا انتخاب ،عمدہ تراکیب کا استعمال اور صنائع بدائع کی آمیزش شاعر کی فنی عظمت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔۔ ارشد جاوید نے کلاسیکی شعراء کا مطالعہ کیا تھا اور ان کلاسیکی شعراء کے اثرات واضح طور پر ان کے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ان کی شاعری اپنے دامن میں فکر کی تمام تر گہرائیوں کو سمیٹے ہوۓ ہے ۔ داخلیت پسندی اور سیدھے سادے انداز میں اپنے دل کی بات کہ دینا ارشد جاوید کا وصف خاص ہے ۔ ارشد جاوید کی شاعری کا بغور جائزہ لیا جاۓ تو ان کی فنی عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ان کی نظمیں تو فکر وفن کا بہترین نمونہ کہلائی جاسکتی ہیں ۔ ارشد جاوید نے زیادہ توجہ خیالات کی بلندی اور وسعت کو دی ہے لیکن ان کی نظموں کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارشد جاوید کے یہاں فنی چابک دستی اور زبان و بیان پر قدرت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ محققین و ناقدین ادب نے شاعری کے لیے جو اصول اور ضوابط مرتب کیے ہیں ۔ارشد نے ان سب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری کی تخلیق کی ہے ۔ ارشد جاوید نے تمام تر فنی اصولوں کی پابندی کی ہے۔
ارشد جاوید کا شمار اِس وقت پاکستان کے سینیئر ترین شعراء میں سے تھا ۔یہ اُن کی شخصیت کا امتیاز ہے کہ وہ مجید امجد اور جعفر طاہر کے قریبی احباب میں شامل رہے۔
وہ حلقہ اربابِ ذوق، لائلپور کے بانی رکن ہیں جنہوں نے حلقہ میں اپنی جاندار گفتگو سے نئے آنے والوں کو متاثر کیا۔
ستر کی دھائی کے اوائل میں وہ اپنے بیشتر ساتھیوں کی طرح بہت پُر جوش اور پُر اُمید تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی دور اور بھٹو کی پھانسی کے بعد اُن کا پُر اُمید اور پُر جوش لہجہ جارہانہ تو ہو گیا لیکن اُن کی شاعری سطحی نعرہ بازی سے پاک رہی۔
پاکستانی تاریخ کے اِس بدترین مارشلائی دور نے ہمارے شعر و ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور ملک میں مزاحمت کی ایک شدید لہر در آئی۔ انہی دنوں حلقہ اربابِ ذوق، لائلپور کی انتظامیہ نے صفدر سلیم سیال کی صدارت میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ اِس تاریخی مشاعرے میں ضیاء الحق کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف کھل کر شاعرانہ اظہار کیا گیا جس کی پاداش میں ارشد جاوید سمیت کئی اراکینِ حلقہ کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور حلقہ کے اجلاسوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ متبادل کے طور پر میاں اقبال اختر مرحوم نے ایک نئی تنظیم “صدف” کی بنیاد رکھی جس میں ارشد جاوید نے سرگرم کردار ادا کیا۔ ابتلا کے اِس دور میں ارشد جاوید کی شاعری، خاص طور پر ان کی نظموں میں مزاحمت کا بھر پور رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔
چند سال پہلے اُنکا واحد شعری مجموعہ “ذرا سی دھوپ” کے نام سے شائع ہوا جس میں اُنکی غزلیں اور انتہائی جاندار نظمیں شامل ہیں۔
“سنو اے مشرقِ وسطیٰ” اُنکی ایک ایسی ہی نظم ہے جو ہمیں اُن کے عمومی شاعرانہ مزاج کا پتا دیتی ہے۔ اِس نظم میں ستر کی دھائی کے بعد عالمِ اسلام کی کمزور ہوتی ہوئی صورتحال کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اِس نظم کی حیثیت آج بھی معنوی سطح پر ہمیشہ کی طرح موثر اور اہم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات اپنی جگہ افسوس ناک ہے کہ موجودہ دور میں ارشد جاوید صاحب کو نظر انداز کیا گیا اور اُن کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد ہونے والی نظمیہ شاعری اُن کے تذکرے اور حوالے کے بغیر نامکمل ہے۔۔
~~~~~~~
*سنو اے مشرقِ وسطیٰ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد جاوید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو اے مشرقِ وسطیٰ
یہ کیا بے اعتنائی ہے
خدا اب اپنے ہی گھر کی حفاظت کا کوئی ذمہ نہیں لیتا
یہ تنہا گھر
بدیسی حکمراں جس کی حفاظت کے لیے اپنے سپاہی بھیج دیتے ہیں
ابابیلیں نہیں آتیں
رسولوں کی زمیں بے کار لوگوں کے لیے سونا اگلتی ہے
تمہارے دست و بازو اس لیے حرکت نہیں کرتے
انہیں یورپ کی ٹھنڈی عورتوں نے باندھ رکھا ہے
تمہیں یہ زعم تھا زیتون کی گرمی سے ان کی برف پگھلے گی
تو تم کو راستہ دے گی
مگر ایسا نہیں ہوتا
یہ بچے باپ کے خانے میں ماں کا نام لکھتے ہیں
یہ کیسا اجنبی ہے
جو تمہارے شہر کی سڑکوں سے اوراقِ شکستہ کو اٹھا کر چوم لیتا ہے
اسے معلوم ہی کب تھا کہ کاغذ پر لکھا ہر لفظ پاکیزہ نہیں ہوتا
سنو اے مشرقِ وسطیٰ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...