بلوچستان میں رائج سرداری نظام کے پانچ ہزار سال مکمل ہونے پر پاکستان کو ان ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے جہاں آثارِ قدیمہ کی حفاظت احسن طریقے سے کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاکستان کو ایوارڈ بھی دیا جائے گا۔
پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی ہے۔ جس کی رو سے ملک میں زرعی اصلاحات کا نام لینے والے کو دس سال قیدِ با مشقت کی سزا دی جا سکے گی۔
ایک نیا ادارہ’’تاریخ پاکستان پر نظر ثانی‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارے میں اس امر پر تحقیق کی جائے گی کہ پاکستان بنانے کا سارا کریڈٹ مسلم لیگ کو کیوں دیا جاتا ہے اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کو اس کے اصل مقام سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔
تازہ ترین سیاسی کانفرنس میں سہ فریقی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بقائے باہمی کے اس معاہدے پر بلاول بھٹو، مونس الٰہی اور حمزہ شہباز نے دستخط کیے ہیں اور عہد کیا ہے کہ بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے باری باری حقِ حکمرانی ادا کرنے کے عمل کو جاری رکھا جائے گا۔
ادھر، رائے ونڈ میں دو فریقی کانفرنس کے اختتام پر مریم نواز اور حمزہ شہباز نے بھی پر امن بقائے باہمی کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں۔ باریاں متعین کرنے کے لیے کمیٹی کا قیام عمل میں لا یا جا چکا ہے۔
پی این اے، جے یو آئی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی جماعتیں ’’ خاندانی کاروبار‘‘ کے طور پر سٹاک ایکس چینج کی رکن بنا لی گئی ہیں۔ ان پارٹیوں میں شامل چند سر پھروں نے پارٹیوں کے اندر الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا تھا اور خاندانی اجارہ داری کو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ ان سر پھروں کی اصلاح کے لیے دانش وروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو تبلیغ و تلقین کے ذریعے انہیں خاندانی اجارہ داری کا قائل کرنے کی سعی کرے گی۔ دانش وروں کی اس کمیٹی میں اعتزاز احسن، رضا ربانی، احسن اقبال، شاہی سید اور حافظ حسین احمد شامل ہیں۔
ایک روز پہلے انتخابات میں شکست کھا جانے والے جماعت کے امیر سے ان کی آئندہ مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ فراغت کے اس دور میں وہ اپنے اُن منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے لیے انہیں وقت نہیں مل رہا تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے وہ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کا مد لّل جواب لکھیں گے۔
دوبارہ منتخب نہ ہو سکنے والے امیر نے اپنی جانشینی کے لیے دو اسمائے گرامی تجویز کیے تھے اور جماعت کے ووٹروں سے التماس کی تھی کہ ان میں سے ایک کو منتخب کر لیں۔ یہ دو نام مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز کے تھے۔ تاہم ووٹروں نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی اور سراج الحق صاحب کو پسند کیا۔ سراج صاحب کی ذاتی معاملات میں دیانت مثالی ہے اور بولنے میں توازن و احتیاط ملحوظ رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جناب اسد عمر نے طالبان سے درخواست کی ہے کہ وہ ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں، ہتھیار رکھ دیں اور فاٹا میں جمہوری عمل کا حصہ بن کر عوامی نمائندگی کریں۔ عوام کو یہ جان کر بے پایاں مسرت ہو گی کہ طالبان نے، جو معزز رکن قومی اسمبلی کی اس درخواست ہی کا انتظار کر رہے تھے، ان کی بات مان لی ہے۔ ہتھیار رکھ دیے ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
تحریک انصاف کو جے یو آئی(سمیع الحق گروپ) میں ضم کر دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف اپنے نوجوان ووٹروں کو، جن کی اکثریت ممی ڈیڈی اور برگر خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جہاد پر بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں امن قائم ہو جانے کے بعد وہاں سے فوج ہٹا لی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میںانہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ چونکہ پشاور، راولپنڈی، منگلا، گوجرانوالہ، لاہور، گلگت، بہاولپور، کراچی اور کوئٹہ میں امن پہلے ہی سے جاری و ساری ہے، اس لیے ان علاقوں سے بھی فوجی چھائونیاں ختم کر دینی چاہئیں۔
مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ حکومت غیر جنگی قیدیوں کو رہا کر دے کیونکہ انہیں قید میں رکھنا اسلام کی رو سے جائز نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام کی کسوٹی پر صرف حکومتی اقدامات ہی پرکھے جائیں گے۔
مذہبی رجحان رکھنے والے تاجروں نے علماء کی خدمت میں درخواست کی ہے کہ وہ جدید مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتہاد کے بند دروازے کھولیں۔ علماء نے پوچھا کہ تاجر حضرات کے نزدیک یہ جدید مسائل کون کون سے ہیں؟ جو اب میں تاجر برادری نے تجویز پیش کی ہے کہ دروغ گوئی، عہد شکنی، ناجائز تجاوزات، ٹیکس چوری اور شے بیچتے وقت نقص چھپانے کو، پاکستانی تاجروں کے لیے جائز قرار دیا جائے تاکہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں بار بار عمرے اور صدقہ خیرات نہ کرنا پڑے۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے کہ ہر مسجد میں صرف ان نمازیوں کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے جو اس مسجد میں نماز پڑھانے والے امام صاحب کے مسلک سے متفق ہوں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی میں قابل تحسین اضافہ ہو گا۔
حکومتِ پنجاب نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صوبے کے دو زون بنا دیے ہیں۔ پہلے زون کا نام’’ خوشحال زون‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں بہاولپور، خانیوال، مظفر گڑھ، اٹک، چکوال، جہلم، راولپنڈی،جھنگ، میانوالی وغیرہ کے اضلاع شامل ہیں۔ دوسرے زون کا نام ’’مفلوک الحال زون‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس زون میں لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ کے قلاش اضلاع شامل کیے گئے ہیں۔ انصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’خوشحال زون‘‘ پر خرچ کیا جائے گا۔
نجی شعبے میں میڈیکل تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت نے ایک ایک کنال کی عمارت میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ مخصوص حالات میں دس مرلے کے مکان میں بھی میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
حکومت نے تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں کو تلقین کی ہے کہ ملک میں جتنا گھی، چینی، گندم، گوشت، اناج، عمارتی لکڑی، سیمنٹ، سریا، ادویات، کپڑا، جوتے اور دیگر اشیائے ضرورت پیدا کی جا رہی ہیں، ان کا نصف حصہ پڑوسی ملک میں سمگل کرنے کے لیے مختص کر دیا جائے۔
کرپشن کم کرنے کے لیے حکومت اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ پڑوسی ملک سے لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ پاکستان آکر یہاں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رہے ہیں، انہیں یہاں آنے سے منع کر دیا جائے اور پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ انہیں ان کے اپنے ملک ہی میں فراہم کیے جائیں۔
یہ ساری خبریں محض خیالی ہیں لیکن ذرا انتظار کیجیے۔ امکان کی دنیا لا محدود ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔