۔۔ کلیدی تصورات : ثقافتی مطالعے ۔۔ میڈیا کا معاشرتی اور سیاسی پس منظر ۔۔ نیا مارکسی نظریہ۔۔ مارکسی آلاتیاتی نظریہ ۔۔ صحافی استحصال ۔۔۔۔ جمہورشکنی ۔۔۔۔ ابلاغ عامہ میں بازارکاری ۔۔۔
زرائع ابلاغ عامہ کو عموما " باغی" ادارہ کہا جاتا ہے ۔ جو عوام کی آواز تصور کیا جاتا ہے ۔ مگر اب صورتحا مختلف ہے۔ کیونکہ اب نظریات، آئیڈیا لوجی ، اخلاقی قدریں دم توڈ چکی ہیں۔ نظریات معدوم ہو چکے ہیں۔ زرائع ابلاغ اور صحافت اب بازار بن چکا ہے پہلے اخبارات مدیران اور اس کا مجلس مشاورت چلاتا تھا۔ اب یہ بنیئے قسم کے بیوپاری میڈیا گھروں کے مالک بن چکے ہیں ۔ جن کا صحافت ، لکھنے پڑھنے ، سوچ و بچار سے کوئی نہ تعلق ہوتا ہے نہ ان کے پاس اس میدان کا تجربہ ، پیشہ ورانہ تربیت اور نہ ہی ان کے پاس کسی مستند تعلیمی ادارے سے کوئی سند ہوتی ہے۔ یہ لوگ دکاندار قسم کے لوگ ہیں۔ جو جینیوئن صحافیوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اور پھر پاکستان میں " لفافہ" اور " پیٹِی یا سوٹ کیس" کلچر صحافت میں روشناس ہوا۔ حال ہی میں ایک بڑے میڈیا ہاوس اور پاکستان کے ایک بڑے اخبار کے مالک جب بدعنونیوں کیں قانون کی گرفت میں آئے۔ تو انھیں نے صاف طور ہر یہ کہ دیا کہ وہ صحافی نہیں ایک کاروباری شخص ہوں۔
پاکستان میں ایک زمانے میں بائیں بازو کے نظریاتی اخبارات امروز، مساوات، پاکستنان ٹاَئمز { انگریزی} اور ہفت روزہ میں لیل ونہار اور الفتح ہوتا تھا۔ اس اداردوں میں بشتر لکھنے والے اور انتظامیہ میں بائین بازو کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ بائیں بازو یا کمیونسٹ میڈیایا زرائع ابلاغ کو " لبرل" میڈیا کا نام دیا گیا۔ جس میں منافق او چور این جی او شامل ہو گئے۔ اس کے باوجود بھی دنیا میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد زرائع ابلاغ عامہ کا نظریہ قاَئم ہے اور مارکسی نظرئیےسےسئے صحافی جڑے ہوئے ہیں ۔
زرائع ابلاغ عامہ کے مارکسی نظرئیے پر زرا کم لکھا گیا ہے۔ مگر زرائع ابلاغ کے مارکس نظرئیے کا وجود ہے ۔
زرائع ابلاغ کے مطلعات میں ثالثی کا استعمال بھی اسی معنی میں ہوتا ہے جس طرح تعلق مارکسی نظرئیے سے ہے۔ مفکرین اور اہل دانش یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک دیئے ہوئے میڈیم نے کس طرح تاریخ ، ثقافت ، معاشیات یا مادی دنیا کی مختلف قوتوں کے ساتھ صلح کی اور اس سے سودے بازی بھی کی ہے ، اور معاشرتی بہروپیون کو کس طرح اس میڈیم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مختلف معنی اور اقدار۔ کسی بھی زرائع ابلاغ عامہ کے نظریہ داروں کے لئے مرکزی مسئلہ یہ ہے کہ جو ایک مارکسسٹ نظریہ دان کے مسئلے کی طرح ہے پھراس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے اور یہ کیا ممکن ہے اور جو ایک دیئے گئے ذریعہ سے محدود ہے۔ یا ، دوسرے الفاظ میں زرائع ابلاغ عامہ کا ڈھانچہ اس میڈیم کو کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے اور معاشرتی اور ثقافتی بہروپئے اس ڈھانچے کے اندر اور اس کے خلاف کام کیسے کرتے ہیں؟ اور جینوئن صحافیوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اوراس ادرارے کو داغدار کرتے ہیں۔
اگرچہ مارکس نے بذات خود میڈیا کا کوئی واضح طور پر کوئی نظریہ پیش نہیں نہیں کیا۔ ، لیکن ثقافتی اور نظریاتی ثالثی کی جدلیات کے بارے میں ان کے جمود اور مشقوں نے مارکسسی نظرئیے کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ جو کو ان کے یساریت پسند نظرئیے کے چار/4 بنیادی نکات ۔۔ تاریخی مادیت، طبقاتی کشمکش، قد زائد اور مغائرت سے بھی تشریح کی گئی ہے۔
مارکسی تنقیدی روایت میں زرائع ابلاغ عامہ میںایک عرصے سے زیر بحث ہے۔ میں ذاتی طور پر تھیوڈور اڈورنو اور دیگر مارکسی زرائع ابلاغ کے نظریہ دانوں کے مابین اختلافی نکات کی طرف توجہ مبذول دلوانا چاہتا ہوں اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اور مجھے احساس ہوا کہ کس طرح اس نظرئیے سے اڈورنو سودے بازی کرتے ہیں اور اپنے نظریات کی تفھیم کے لیے کھینچ تان کے اپنی مرضی اور اعتباظی طریقے سے اپنے حقمین شامل کرنا چاہا۔
میڈیا تھیوری کی مارکسی روایت کے تحت ثقافتی اور سیاسی معاشی رجحانات۔ میں یہ استدلال ضرور ملتا ہے کہ مارکسسٹ میڈیا تھیوری کے طبقاتی کی مباحث میں ثقافتی اور سیاسی معاشی روایات کے مابین وقتا فوقتا امتیاز ت میڈیا نظریہ میں اڈورنو کی شراکت کو نظرانداز کرتا ہے ، جو نہ صرف تخلیقی طور پر ان رجحانات پر سودے بازی کرتا ہے بلکہ اس کے قریب ہونے کی بھی نمائندگی کرتا ہے کہ کس طرح مارکس نے خود نظریہ بنایا تھاجو دیر سے سرمایہ دارانہ نظام میں زرائع ابلاغ عامہ میں داخل ہوا۔
تاریخی طور پر ذرائع ابلاغ کے مطالعے میں نظریہ کے کردار کا بھی کلیدی ہوتا ہے۔ جس کا اظہار ' پیراڈیم شفٹوں" کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ یہ مارکسسٹ سے لے کر تکثیریت تک ، تکثیریت سے لے کر تنقیدی نظریہ تک ، تنقیدی نظریہ سے لیکر نو مارکسسٹ ، نو مارکسسٹ سے لے کر تنقیدی نمونہ تک۔ یہ نمونہ بدلاؤ معاشرے کے مختلف تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق کے ذریعہ طے کیا گیا تھا۔ پچھلی دہائیوں کے دوران معاشرے کے معاشرتی ، قانونی ، معاشی اور سیاسی اداروں میں ٹیکنالوجی کی آمد اور بڑی تبدیلیوں کے ساتھ ، میڈیا کے مواد ، ہیت ، طرز ملکیت ، کنٹرول اور افعال نے ایک بہت ہی پیچیدہ ڈھانچے میں ثالثی کی جس کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ مطالعات ذریع ابلاغ میں مختلف نظریاتی خیالات ان مختلف نظریات میں سے ہر ایک کی دونوں قوتوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرکے اپنی آرا سے آگاہ کرتا ہے۔ ،میڈیا کے مطالعے میں 'آئیڈیالوجی' کا تنقیدی تجزیہ ضروری ہوتا ہے جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کیسے کام کرتا ہے اور اس میں سقم کی تشکیک پیدا ہوتی ہے۔
مارکسسٹ آلاتیاتی {Instrumentalist} نظرئیے کا موقف ہے کہ میڈیا مالکان میڈیا کے مواد کو کنٹرول کرتے ہیں ، اور یہ کہ میڈیا نظریاتی فرائض انجام دیتا ہے۔ میڈیا کا بنیادی کردار بڑے پیمانے پر غیر فعال سامعین کو سرمایہ داری پر تنقید کرنے سے روکنا اور اس طرح جمہوری حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔
مارکسسٹ اآلاتیاتی نظرئیے میں میڈیا کو روایتی مارکسسٹ یا جوڑ توڑ کر بھی تجزیہ اور موضوع بحث بنیا جاتا ہے۔
میڈیا مالکان میڈیا کے مواد کو کنٹرول کرتے ہیں
میڈیا مالکان حکمران طبقے کے اشرافیہ کا حصہ ہیں اور وہ وسیع تر آبادی پر قابو پانے اور اپنی دولت اور استحقاق کو برقرار رکھنے کے لئے قدامت پسند نظریے کو منتقل کرنے کے لئے میڈیا کے مواد کو شعوری طور پر جوڑتے ہیں۔
اس طرح میڈیا کا مواد تنگ نظر اور متعصبانہ ہوجاتا ہے اور عام طور پر حکمران طبقے اور خاص طور پر میڈیا مالکان کی رائے کو ظاہر کرتا ہے۔
حکومت میڈیا کے مشمولات کو موثر انداز میں قانونی شکل نہیں دے پاتی ہے کیونکہ سیاسی اشرافیہ بھی میڈیا مالکان کی طرح حکمران طبقے کا حصہ ہوتا ہے۔
میڈیا نظریاتی فرائض سرانجام دیتا ہے
الاتیاتی زرائع ابلاغ عامہ اور صحافت کے مارکسی نظرئیے کے مطابق ، میڈیا کا بنیادی کردار حکمران طبقے کے نظریے کو پھیلانا اور موجودہ غیر مساوی سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ، جمود کو برقرار رکھنا نہیں ہوتا بلکہ ان کو گمراہ کرکے اور دھوکے میں رکھ کر اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پنچایا جاتا ہے۔
زرائع ابلاغ عامہ کے ادارے کلاسیکی مارکسی لحاظ سے بڑے پیمانے پر میڈیا کے 'پیداواری' ذرائع' ہیں جو سرمایہ دار طبقے کے حکمران طبقے کی ملکیت میں ہیں۔ کلاسیکی مارکسسٹ پوزیشن کے مطابق ، میڈیا محض تھرولنگ کلاس کے نظریات اور عالمی نظریات کو عام کرتا ہے ، اور متبادل نظریات کی تردید کرتا ہے۔ یہ بات مارکس کی اس دلیل کے مطابق ہے کہ: جس طبقے کو اپنے اختیار میں مادی پیداوار کے ذرائع ہوتے ہیں وہی ذہنی پیداوار کے ذرائع سے ایک ہی وقت میں متنازعہ فی بن جاتا ہے تاکہ اس طرح ، عام طور پر بولنے والے ، ذہنی وسائل کی کمی کے ان لوگوں کے خیالات پروڈکشن اس کے لئے سبسکرائب کریں۔
اس موقف کے مطابق ، ماس میڈیا نے محنت کش طبقات میں 'غلط شعور' پیدا کرنے کے لئے جال پھیلاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی درجے کا مؤقف کا موقف ہوتا ہے جس کے تحت میڈیا کی مصنوعات کو حکمران طبقے کی اقدار کے یکجہتی اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، جو حکمران طبقے اور میڈیا کے اندر اقدار کے تنوع کو نظر انداز کرتا ہے ، اور میڈیا سامعین کے ذریعہ مخالفت کو پڑھنے کے امکان کو بھی نظر انداز کرتا ہے
**نو مارکسسٹ ’میڈیا مالکان کے پاس میڈیا کی ملکیت کے بارے میں روایتی مارکسی نقطہ نظر یہ دلیل پیش کرتی ہے۔ کہ میڈیا کے مالکان پر میڈیا کے مواد پر براہ راست لیکن بالواسطہ اثر و رسوخ نہیں ہے۔ یہ بالواسطہ اثر و رسوخ زیادہ لطیف ہے کیوں کہ کوئی بھی حکمران طبقہ نظریہ صحافیوں اور میڈیا منیجرز کے اشتراک سے ہوتا ہے۔ پہلے ہی حکمران طبقاتی نظریاتی اقدار کو بانٹ کر ، نو مارکسسٹ یہ استدلال کرتے ہیں کہ میڈیا معاملات پر غالب نظریہ (تسلط) قائم کرنے کے قابل ہے۔
نو مارکسسٹ کئی اہم خصوصیات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں:
مالکان روزانہ کی بنیاد پر مواد پر قابو پانے میں فعال طور پر شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اس کی بجائے کنٹرول اور مشمولات صحافیوں اور منتظمین کے ہاتھ میں رہ گئے ہیں۔
بطور منیجر اور صحافی اپنی ملازمتوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں وہ مناسب مواد شائع کرکے مشتھرین اور سامعین کو راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات سامعین میڈیا کی حکمرانی والے طبقے پر ہونے والی تنقید کی طرف راغب ہوتے ہیں ، لیکن اس طرح کی تنقید کبھی بھی دھمکی دینے یا نقصان دہ نہیں ہوتی ہے
صحافی اور منیجر اپنے پس منظر کی وجہ سے غالب نظریے پر تنقید نہیں کرتے ہیں۔ صحافی خوب صورت ، تعلیم یافتہ ، درمیانے طبقے اور مردانہ رجحان کے حامل ہیں لہذا انہیں حکمران طبقے کے نظریے کو قبول کرنے اور اس کی قدر کرنے کے لئے پہلے ہی معاشرتی بنایا گیا ہے ، اس طرح ان کے میڈیا پیغامات سے قائم معاشرتی اتفاق رائے کی حمایت ہوتی ہے ۔
اس عام فہم اتفاق رائے کو میڈیا کی مصنوعات میں پیش کردہ نقطہ نظر اور آراء کی حدود میں فروغ دیا جاتا ہے
ثقافتی اثرات کا ماڈل سامعین پر اس اثر کی بہترین وضاحت کرتا ہے
زرائع ابلاغ عامہ میں مارکسی نظریات کا عمل دخل اب کم ہوگیا ہے۔ صرف اب چند اس شعبے میں کام کرنے والے صرف دکھاوے کے طور پر مارکسی بنے ہوئے ہیں۔ مغرب میں بائین بازوں کے صحافیوں کو " لبرل" کہا جاتا ہے۔ جو سرمایہ دارنہ معاشرت کا " ردمقدمہ" { اینٹی تھیسیس} ہیں۔ یہ عالمی انسانیت اور بشریت کی بات کرتے ہیں ان کا یساریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے زرائع ابلاغ کا مارکسی نظریہ خاصا مستحکم جنوبی اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں دیکھا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...