ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہےاس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
دہکتا جسم ہے،گالوں میں انگاروں کی لالی ہے
چلن اس کا قیامت ،چال بھی اس کی نرالی ہے
دَہن غنچہ سا اس کا، کانوں میں شبنم کی بالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
فضاءوں میں گھٹا چھائے ،وہ جب زلفوں کو لہرائے
جھکیں نظریں تو دلہن کی حیا ، ان میں نظر آئے
کھل اٹھیں اَدھ کھلی کلیاں ، ذرا سا جو وہ مسکائے
بڑی بد مست ہے، وہ مست سب کو کرنے والی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
پَری دیکھےتو جل جائے وہ ایسی سرو قامت ہے
نظر ہٹتی نہیں اس سے،حسیں ایسی جسامت ہے
بس اتنا جان لو تُم ،وہ قیامت ہی قیامت ہے
کبھی یکسر جلالی ہے، کبھی یکسر جمالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
نظر ہے تیر اُس کی اور کماں سے بڑھ کے ابروہے
چمن میں اس کے دم سے جلوہء صد رنگ ہر سو ہے
فضا مہکے تو لگتاہےکہ وہ سرتا پا خوشبو ہے
عجب ہے حُسن و رعنائی ،جو بے شک ڈالی ڈالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
اُسے ہی دیکھتے رہ جائیں وہ مجبور کرتی ہے
خمارآلودہ آنکھوں سے بھی وہ مخمورکرتی ہے
لُنڈھا کرجام نظروں کے بڑا مسرور کرتی ہے
پتا چلنے نہیں دیتی ہمارا جام خالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
کتابوں سے نہیں رشتہ مگر چہرہ کتابی ہے
سنبھالے کیوں چُنریا کوطبیعت جو نوابی ہے
جو خوبی اس میں دیکھی ہے،وہی اسکی خرابی ہے
کسی اِک سے نہیں سب سے محبت کرنے والی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
کبھی رفتار مدھم ہے، کبھی وہ تیز چلتی ہے
بدلتی ہے وہ رنگ ایسے کہ جیسے رُت بدلتی ہے
لبوں سے پھول جھڑتے ہیں،کبھی شعلے اُگلتی ہے
کبھی آفت کی پُڑیاہے،کبھی وہ بھولی بھالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
نظر میں دوسرا ایسا نہیں ہے پھول سا چہرہ
جو دیکھو تو بہاروں کاامیں ہے پھول سا چہرہ
چمن کے سارے رنگوں سے حسیں ہے پھول سا چہرہ
دَہن غنچہ سا ہے، اس کی کمر لچکیلی ڈالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
کہانی ہے مروت کی،محبت کا وہ عنواں ہے
کہیں ہے رتجگااس سے،کہیں اس سے چراغاں ہے
کہیں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،کہیں خوشیوں کاساماں ہے
کہیں پر عید دِکھتی ہے،کہیں اُس سے دِوالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
محبت کرنے والے اس سے سہمے سہمے رہتے ہیں
نظرچُپ چُپ سے آتے ہیں پران کے چہرے کہتے ہیں
لگارہتاہے دھڑکا سا،اذیت ایسی سہتے ہیں
وہی ہوتا ہے جو کہہ دے ،زباں جو اس کی کالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
جمال و حُسن و رعنائی میں یکتائے جہاں بھی ہے
اگر ہے جسم رنگ و بو ،وہ اس کی روح و جاں بھی ہے
بہاریں ہیں فِدا اس پرکہ وہ تو خود گلستاں ہے
کہاں ڈھونڈو گے تم اُس کو؟وہ اِک نقش ِ خیالی ہے
ذرا بوجھو تو نام اس کا حسینہ زلفوں والی ہے
غضب کا حُسن ہے اس کا ،ادا اِک اِک نرالی ہے
نظم : ذرا بوجھو تو نام اس کا
نظم نگار: سیدعارف معین بلے