غلطی انسان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے ، ہر شخص میں غلطی کرنے کا مادہ موجود ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو نسیان اور غلطی سے مرکب کیا ہے،کوئ شخص معصوم نہیں پیدا ہوا ہے اور نہ اس میں یہ قوت ہے کہ معصومیت کے ساتھ زندگی گزار سکے، معصوم صرف فرشتے ہیں جن میں یہ مادہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انسان کو فرشتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے کیونکہ فرشتوں میں گناہ کرنے کی قوت نہیں ہوتی وہ سراپا اطاعت شعار ہوتے ہیں جبکہ انسان گناہ کرتا ہے اور قسم قسم کے خواہشات میں پڑ جاتا ہے پھر جب اس کو شرمندگی ہوتی ہے تو رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور یہ چیز اللہ کو بہت پسند ہے گناہ کرکے توبہ کرلینا اللہ کو نہایت پسند ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم گناہ نہیں کرتے تو میں ایسی مخلوق ایجاد کرونگا جو گناہ کرکے توبہ کرے ، یہ اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب انسان سے غلطی نہیں ہوگی تو وہ توبہ کیسے کرے گا جبکہ توبہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے،
غلطی ہوجانا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ غلطی کو نہ ماننا اور اس پر ڈٹے رہنا کوئی اگر ٹوکے تو اس کی بات پر دھیان نہ دینا اور اسی پر مصر رہنا یہ اصل غلطی ہے، عام طور پر ہمارے درمیان یہی برائی سب سے زیادہ رائج ہے ہم خود غلطی پر ہوتے ہیں اور دوسروں کو کوسنے لگتے ہیں اپنی اپنی صفائی دینے میں ہماری زبانیں نہیں تھکتیں جبکہ ہم خود گہرے اور تاریک گڑھے میں گرے ہوئے ہوتے ہیں ، اگر ہم میں اپنی اصلاح کی فکر ہوتی بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کی فکر کرتے تو آج وہ سب نہ ہوتا جو ہمارے ساتھ ہوا ، ہر شخص اپنا ذمہ دار ہے دوسروں کی غلطی اور اس کی اصلاح کے بارے میں اس سے باز پرس نہیں ہوگی بلکہ خود اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ہاں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ جبکہ ہر لمحہ خدا کا خوف ہو تو دوسروں کو بھی اس طرف راغب کرنا چاہیے اور یہ طریقہ اسلامی طریقہ ہے ہمیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے،
آج اصلاح کیلئے بڑی بڑی تنظیمیں قائم ہیں بڑے بڑے جلسے اور جلوس منعقد کئے جاتے ہیں کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے بڑے بڑے لوگ آکر اصلاح کی باتیں کرتے ہیں اپنے پیغامات دیکر جاتے ہیں لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اصلاح صرف نفس کی نہیں بلکہ ہر اس شعبے کی اصلاح ضروری ہے جس سے انسانی زندگی متعلق ہے،
ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اسلاف نے کافی خون بہایا اور آزادی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دیں جو ہم سب کیلئے جائے عبرت ہے، ان کی قربانیوں سے کم از کم ہمیں اتنا سبق تو ملا تھا کہ اب رہتی دنیا تک ہمیں ان قربانیوں کی حفاظت کرنا ہے ، لیکن اس کو ہماری بدقسمتی کہئیے یا پھر ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ کہ ہم ان قربانیوں اور جانفشانیوں کو بچانے میں ناکام رہے حالانکہ ہماری تنظیمیں اس ملک میں کم نہیں ہیں، غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ہماری تنظیموں میں جو کمی تھی یا اب بھی ہے بجائے اس کے درست کرنے کے دوسروں کی کمی و کوتاہی کی اصلاح میں لگ گئے ، ہماری تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کو برا بھلا کہتی رہیں طرح طرح کے جملے ان پر کستی رہیں لیکن آج تک اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہ بنا سکیں ، ہماری تنظیمیں میڈیا کو گالی بکتی رہیں طرح طرح کی تقریریں ان کے خلاف کی گئیں اس کی اصلاح کیلئے سپریم کورٹ میں مقدمہ درج کروائے مگر افسوس آج تک کوئی میڈیا ہماری تنظیمیں نہ بنا سکیں ، آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری تشخصات داؤ پر ہے ، ہمارے حقوق خطرہ میں ہیں، ہمارا دین ایمان سب مٹنے کے دہانے پر ہے، ہماری مسجدوں پر غاصبانہ قبضہ ہونا لگا حالیہ واقعہ اس کے شاہد ہیں ۔۔ اور پھر مسجدوں پر جو حملوں کا سلسلہ شروع ہوا وہ ہنوز جاری ہے کئی تازہ ترین خبروں کے مطابق مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا آگے کا منظر نامہ کیا ہوگا وہ تو اللہ کو ہی معلوم ہے،
افسوس ہم دوسرے کو آئینہ دکھاتے رہے لیکن خود نہیں دیکھا اور اگر کوئی خود آئینہ دیکھ کر اور اپنے اوپر لگے غلاظت کو صاف کرکے دوسرے کو دکھانا چاہتا ہے تو اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگتی ہیں خوب لمبے لمبے مضامین لکھے جاتے ہیں خود کو فرضی کسی تنظیم سے وابستہ کرکے اور پھر بکنا شروع ہوجاتا ہے اس طرح کا واقعہ ایک دو روز پہلے پیش آیا،
جب مسلم پرسنل لا بورڈ نے انگریزی میں اپنا موقف ہٹایا تو اس بزدلانہ حرکت پر کچھ ایسے لوگ کھڑے ہوئے جو حقیقت میں درد دل رکھتے ہیں اور اس پر غم کا اظہار کیا تو اسی پرسنل لا بورڈ کے کچھ الول فلول بکنے والے بھی کھڑے ہوگے اور پرسنل لا کی آڑ میں حکومت کی حمایت کرنے لگے، جب ہمارے ہی چہرے پر اتنی ساری غلاظت ہو تو دوسروں کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے،۔ اپنی بات کو مؤثر بنانے کیلئے اور اس کو قابل تقلید بنانے کیلئے پہلے خود کو آئینہ میں سنوارنا ہوگا ورنہ یوں ہی ڈھول بجانے سے بندر نہیں ناچتا،