میرے گھر کا اگلا حصہ خوب کشادہ ہے جہاں گیراج ، ہرے بھرے درخت ، پھول اور پودے لگے پوئے ہیں پیچھلا حصہ رہائش گاہ ہے جو گھر کے اگلے حصے کی کچھ زیادہ خیر خبر نہیں رکھتا خصوصی طور پر جب میں اکیلی گھر میں ہوتی ہوں
ادھر کچھ دنوں سے صحن میں کھڑے ایک نیم کے پیڑ نے سارے محلے کو ہمارے گھر کی جانب متوجہ کر رکھا تھا یہ درخت گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ متصل ہے ، اس کی آدھی چھاوْں گھرکے اندر اور آدھی گھر کے باہر گلی میں جھانک کر سُکھ بانٹتی نظر آتی ہے ، گرمیوں میں یہاں بچے کھیلتے ہیں اور لوگ اپنی گاڑیاں بھی پارک کر لیتے ہیں ۔
میرے علم میں یہ بات کافی دیر سے آئی کہ ، بہت سارے دنوں سے میرے گھر کی دربانی شہد کی بے شمار مکھیاں کر رہی تھیں ۔ پتہ اُس وقت چلا جب لوگوں نے ہمیں آتے جاتے مبارک باد دینا شروع کر دی ۔۔۔
وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ نیم کے اس گھنے پیڑ پر شہد کی مکھیوں کا خوب بڑا سارا چھتہ موجود ہے اور یہ کہ نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری طرح تیار بھی ہو چکا ہے لہذا اب اُس چھتے پر ، ہر کسی کی رال ٹپک رہی تھی
مجھ پر تو شہد کے گُن حال ہی میں کھلے تھے جب سانس کی شدید تکلیف میں ، میں نے ادرک اور شہد کی چائے پینی شروع کی تھی اور میری طبیعت میں اس کی وجہ سے میں کافی سدھار آ گیا تھا ۔
اب محلے کے سبھی لوگوں کو یہ شہد شدت سے چاہیئے تھا ، ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیا وہ اس چھتے کو اتار لے ؟ تب مالی نے کہا کہ نہیں بی بی جی میں بندہ لاوْں گا جو اس کام میں ماہر ہے وہ آپ کو بڑی صفائی سے شہد اتار دے گا ۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ سارا سال شہد کی مکھیوں نے محنت کی ہے اور اب اگر سب شہد ہم لے لیں گے تو ان مکھیوں کو اور ان کے بچوں کو کیا ملے گا ۔ اور ان کی اتنی محنت پر ہمارا کیوں حق ہے ۔
تب اس سوال کا جواب مجھے قران کریم کی سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 13میں ملا ْْْ
ْ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ْ ۔
شہد کی مکھیاں نہ صرف اپنے لیے شہد بناتی ہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ جس طرح مرغی تقریبا ایک انڈہ روزانہ دیتی ہے حالانکہ اسے اتنے انڈوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ گائے اتنا دودھ دیتی ہے جو اس کے بچھڑے کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تا ہے اسی طرح شہد کی مکھیاں بھی اسی نظام کے تحت اپنی ضرورت سے بہت زیادہ شہد تخلیق کرتی ہیں ۔
سو میرے گھر کے اس پیڑ پر ہزاروں مکھیوں کا ایک پورا گروہ جانے کب سے شہد کی تخلیق کے عمل میں بر سر ِ کارتھا جبکہ ہم گھر والوں کے علم میں بھی نہیں تھا ۔ ان مکھیوں نے نے فضائی آلودگی اور ہر طرح کے دوسرے منفی اثرات سے اس چھتے کو بچا کر رکھا ہوا تھا شدید گرمی میں بھی چھتے کے اندر شہد کے تحفظ کے لیئے ایک خاص درجہ حرارت مہیا کئے رکھا ۔ کسی بھی جراثیم آلود چیز کی موجودگی ان کی اس شاندار کاوش کے دوران مخل نہیں ہو سکتی تھی تبھی تو اتنا بڑا سا شہد بھرا چھتہ تیار ہو پایا ۔ یہ سب اللہ کریم کی مدد سے ہی ممکن ہوپاتا ہے ۔ شہد جو اللہ کی تمام غذائی نعمتوں میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے ۔
سنا ہے جب مکھی کو شہد کشید کرنے لائق پھول مل جاتے ہیں تو وہ خوشی سے رقص کرتی ہوئی اپنی ساتھی مکھیوں کے پاس آتی ہے اور ان کو ان پھولوں کے مل جانے کی نوید دیتی ہے اور وہ یہ شفابخش محلول اپنی پوری خوشی اور محنت اور جدو جہد سے تیار کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں ۔
یہ سب ریاضتیں میرے گھر میں ہوئی تھیں ۔ میں ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ اس شہد سے ہمیں اپنا اور مکھیوں کا حصہ کیسے الگ کرنا چاہیئے کہ مالی نے دروازہ کھٹکھٹا کر یہ وحشت ناک خبر سنائی کی بی بی جی باہرسے تو کوئی پورے کا پورا چھتہ ہی اتار کر لے گیا ہے ۔
کیا ۔۔۔ ؟؟؟ انتہائی افسوسناک حیرت سے میں نے اپنے گھر سے اس حیرت کدے کے غائب ہو جانے کی خبر سنی ۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ وہ معجزہ ۔ جو میرے گھر کے درخت پر اچانک مجھے ملا تھا ۔ اس کے نقصان کا ذمہ دار کون تھا
اور یہ کہ اُس چھتے کو یوں اچانک چوری ہو جانے پر نْقصان کسے زیادہ ہوا تھا
ان شہد کی مکھیوں کو ۔۔۔ ؟
صحن کے اس لہلہاتے پیڑ کو ۔ ؟؟
مجھے اور میرے گھر والوں کو ۔۔ ؟؟؟
یا پھر محلے کے ان سارے لوگوں کو جو اس شہد کے طلب گار تھے
ہاں ۔۔۔ شاید ان کو بھی
لیکن لیکر تو کوئی ایک گیا تھا ۔
جانے وہ شہد کس کس کی روحانی اور جسمانی شفا تھا ۔
اللہ کرے کہ اس شہد کی تاثیر، چوری کی اس بدترین بیماری کو بھی شفا دے دے جو اس شخص کو تھی ۔ جو ہزار ہا مکھیوں کی موجودگی میں اُن کے شہد کا چھتہ ہی لے اُڑا ۔