چین نے کامیابی کے ساتھ کورونا وائرس کے مزید پھیلنے پر قابو پالیا۔ چین نے اس وائرس کے ساتھ جنگ لڑنے کے لیے جو اقدامات کیے تھے، اُن پر شدید تنقید ہوتی رہی تھی لیکن انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج چین کو ہر کوئی سراہ رہا ہے۔ چین نے حالیہ بحران پر جس طرح خود بھی قابو پایا اور باقی ممالک کو جس طرح زیادہ مبتلا ہونے سے بچالیا اس کارنامے کو دیکھا جائےتو آرام کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ چین اب دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جسے فی الواقعہ دنیا کا سب سے بڑا لِیڈر بننے کا حق ہے۔ امریکہ کو شرافت کے ساتھ اپنی دستار جو اس نے غاصبانہ طورپر پہن رکھی ہے، اُتار کر چین کے قدموں میں ڈال دینی چاہیے اور پوری دنیا کے انسانوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ اگر اکیسویں صدی کے مصائب کے مقابلے میں کوئی قوم ان کی لیڈر بننے کی اہل ہے تو وہ چینی قوم ہے۔ اطلبوالعلم ولوکان بالصین کے مصداق یہ وقت ہے کہ چین سے انسانوں کی طرح جینا سیکھاجائے۔
خیر! چین کی تعریف و توصیف اس کا حق ہے لیکن اس پوسٹ میں مَیں یہ دِکھانا چاہ رہا ہوں کہ زنجیر (Chain) کو توڑنے کی جو بات ہمارے ڈاکٹرز ہمیں بتارہے ہیں اس کے پیچھے کیا لاجک ہے۔
کورونا وائرس جب ایک شخص پر حملہ کرتاہے تو اس شخص میں کورونا وائرس کی لاکھوں کروڑوں نئی کاپیاں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز بتارہے ہیں کہ جب تک علامات ظاہر ہونا شروع نہ ہوں، متاثرہ شخص سے وائرس پھیلنے کے امکانات قدرے کم ہوتے ہیں۔ زیادہ امکانات اس وقت ہیں جب کوئی شخص بخار اور کھانسی میں مبتلا ہوجائے۔ تو وہ جب کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو اس کے منہ سے اُڑ کر جانے والے وائرس کسی اور شخص کے اندر جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس شخص کو سب سے الگ رکھا جائےتو وہ یا تو بچ جائےگا اور یا مرجائےگا۔ ہردوصورتوں میں اس کے جسم میں پیدا ہونے والے کروڑوں نئے وائرس ختم ہوجائیں گے۔
اب ذرا تصورکریں کہ ایک سو لوگوں کو وائرس نے متاثر کیا۔ ان ایک سو اشخاص کو اگر باقی لوگوں سے الگ رکھا جائےگا تو ان سب کے وائرس مزید پھیلنے کے لیے ترستے تورہیں گے لیکن انہیں چونکہ نیا ہوسٹ نہیں ملےگا اس لیے وائرس مجبور ہوگا کہ اسی ایک شخص تک محدود رہے۔
ایک وقت میں وائرس اس شخص کے صحتیاب ہوجانے یا مرجانے کی صورت میں اس شخص کے اندر سے ختم ہوجائے گا۔ اب چونکہ سو کے سو مریضوں کو الگ رکھا گیا اس لیے سو کی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی زنجیر ٹوٹ جائےگی۔ لیکن اگر مریض فقط ایک ہو، لیکن وہ آوارہ ہو اوروائرس کو لے کر جگہ جگہ گھومتا رہے۔ مسجد میں باجماعت نماز پڑھے اور دعوتوں میں جاتا رہے تو زنجیر کی کڑیاں تیزی کے ساتھ بنتی اور بڑھتی چلی جائیں گی۔
زنجیر توڑ دینے سے یہ مُراد ہے کہ جس کسی کو وائرس کا حملہ ہواہے وہ اپنے وائرس کو ملٹی پلائی نہ ہونے دے، یا آپ اس کا وائرس ملٹی پلائی نہ ہونے دیں اور تمام مریضوں کو کوارنٹین میں رکھیں تو زنجیر بن ہی نہ سکے گی۔
اب چونکہ ہمارے ہاں زنجیر بن چکی ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شہر شہر تک پھیل چکی ہے، اس لیے ہم فقط یہ کرسکتے ہیں کہ زنجیر کو توڑیں۔ لیکن کیا ہم یہ کرسکتے ہیں؟ بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
ہماری مدد کرنے کوئی نہیں آئےگا۔ ہم میں سے جو مذہبی لوگ خدا کی مدد کے منتظرہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خدا صرف ان کی مدد کرتاہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ان للہ لا یغیر مابقومٍ حتٰی یغیرُ ما بانفسہیم۔