زن کی بات یوں تو ہر نوجوان کے من کی بات ہوتی ہے۔ مگر بوڑھوں کے من کی بات میں بھی زن کی بات کا غلبہ ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مَرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔ گھوڑے کو تو خیر اس کی مشقت جوان رکھتی ہے۔ مگر مَرد بڑی مشقت کرتا ہے تاکہ جوان رہ سکے، اور … سواری بھی کر سکے۔ جوانی میں جم کر جِم میں جتنی محنت کرتاہے، عمرڈھلنے پر آئینے اور کیمرے کےسامنے اس سے کہیں زیادہ محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ بالوں اور باتوں دونوں میں رنگ بھرنے کی کوشش ہوتی ہے۔یعنی رنگ و روغن کی بات زندگی کا معمول بن جاتی ہے۔ظاہر ہے جب بدن کی مچھلیوں کا اُبھار، شکم کے اُبھار میں تبدیل ہو جائے تو مایوسی کے سمندر سےاُبھرنے کے لئے یہ حربے لازمی ہو جاتے ہیں۔ شادی کے البم میں موجود جوانی کی تصویراپنی پروفائل پکچر کے بطور یا ڈی پی میں استعمال کرنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔
من کی بات، جب من چاہے کرنی چاہئے۔ اس کے لئے مہینے کے کسی خاص دن کے تعین کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن جس کی زندگی میں کبھی زن کی بات ہی نہ بنی ہو وہ بات بنانے کے لئے جَن کی بات کا سہارا لیتا ہے جہاں غریب جنتا سے وہ سب کچھ کہہ ڈالتا ہے سوائے دھن کی بات کے۔ بیوی سے من کی بات نہ کہہ سکنے والے ٹی وی پر ہی من کی بات کر کے من ہلکا کر لیتے ہیں۔
ویسے دشمن کمزور ہو تو من کی بات میں گَن (Gun) کی بات حاوی ہوتی ہے لیکن دشمن ہی حاوی ہو تو گن کی بات من میں ہی رہ جاتی ہے اور گن کی جگہ صرف بات ہی بات ہوتی ہے۔
بعض سیاست داں اپنے من کی بات من میں رکھنےکی بجائے زبان پر لےآتے ہیں جس سے خللِ امن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے نتیجتاً ان پر قدغن کی بات ہونے لگتی ہے۔بعض اوقات من کی بات من میں ہی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اگر عدالتیں اکثریت کے من کی بات کرنے لگیں تو یہ جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے حوصلہ شکن بات ہوگی۔
رشتہ طے کرنے کے معاملے میں لڑکا ایسی لڑکی چاہتا ہے جو اس کے من کی بات سمجھ سکے جب کہ باپ کو ایسے سمدھی کی تلاش ہوتی ہے جو دھن کی بات سمجھ سکے۔
سمجھدار شوہر اپنی بیگمات سے اَن بن کی بات جن گن سے نہیں کرتے کہ کہیں پڑوسی ان تک اپنے من کی بات پہنچانے کی کوشش نہ کر بیٹھے۔
شاید میں موضوع سے بھٹک رہا ہوں۔ دراصل لوگوں کا قافیہ تنگ ہونا سنا ہے، میں قافیے سے تنگ آ گیا ہوں۔
آج کل بیشتر مدیران”حسنِ زن“ کی بنیاد پر زن کی بات کو فن کی بات پرفوقیت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مرد قلم کاروں کی تخلیقات شائع کرنے سے پہلے انہیں فن کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے جبکہ خاتون قلم کاروں کا کلام زن کی کسوٹی پر، جس پر کوئی مرد کبھی پورا اتر ہی نہیں سکتا۔لہٰذا ”زن“ ناٹے دار تخلیقات بغیر پرکھے ترجیحاً شائع کی جاتی ہیں۔
ایڈمی شن کی بات ہو یا پروموشن کی بات،زن کی بات ہی باس کے من کی بات ہوتی ہے۔ ملازم کو باس سے ملنے کے لئے بھی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے مگر ”ملازن“ کو کسی پرمی شن کی بات پریشان نہیں کرتی۔ جہاں تک کرپ شن کی بات ہے، کمی شن کی بات بنیاد کا درجہ رکھتی ہے، اور بڑے بڑے ٹھیکوں کی حصولی میں کمی شن کی بات میں زن کی بات لازمی حصہ ہوتی ہے۔
مردوں کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ شادی سے قبل زن کی بات سن کر مسحور ہوتے ہیں اور شادی کے بعد زن کی بات سننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شادی سے پہلے صبح و شام ”درشن کی بات“ کرتے نہیں تھکتے، شادی کے بعد دوپہر اور رات ”برتن کی بات“ انہیں تھکا ڈالتی ہے۔ ملک کی سرحد پر تعینات، اپنی بہادری کے قصوں والی ”رَن کی بات“ سینہ پھلا کر سنانے والے بڑے بڑے تیس مار خاں اپنے گھروں میں زن کی بات ٹالنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
زن کی بات پارسائی اور پرہیزگاری کاسب سے بڑا امتحان ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ”انباکس“ وہ حمام ہےجس میں اچھے اچھے سفید پوش ننگے ہوتے ہیں جو زن سے بات کرتے وقت پہلے من کی بات اور پھر تن کی بات تک اتر آنے میں ذرا بھی نہیں جھجکتے۔
اگر بچہ اسکول میں زن کی بات کرتا ہے تو ماں باپ کو بڑی فکر ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ کالج یا یونیورسٹی پہنچ کر بھی زن کی بات بالکل نہ کرے تو اور زیادہ فکر ہو جاتی ہے،اور یہ ان کے لئے کوئی کم ٹین شن کی بات نہیں ہوتی، کیوں کہ عدالتیں بھی اب ان کے پروٹیک شن کی بات کرنے لگی ہیں۔
معلق پارلیمانی صورت حال کا سب سےبڑا المیہ یہ ہوتا ہےکہ سیاسی پارٹیاں انتخابات سے قبل جتنا خرچ کرتی ہیں، نتائج آنے کے بعد اس سے ز یادہ خرچ کرنا پڑ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ”سمرتھن“ کی بات آتے ہی دھن کی بات سب کے من کی بات ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن کی بات تب سنی جاتی ہے جب وہ کسی پوزیشن میں ہو، اور معلق پارلیامنٹ میں اس سے بہتر پوزیشن میں اور کون ہو سکتا ہے جہاں وہ ہر قسم کے کمیشن اور ڈونیشن کی بات اپنی شرطوں پر کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
پوری اردو شاعری زن کی بات سے ا َٹی پڑی ہے۔ کوئی زن کی آنکھوں میں غوطہ زن ہوتا ہے توکوئی اس کی یادوں میں مگن ہوتا ہے۔ کوئی گیسو سے الجھتا ہے تو کوئی فرقت میں بلکتا ہے۔کسی کے دن رات مہکتے ہیں تو کسی کے جذبات بہکتے ہیں۔
مشاعروں میں اگر ”زن ناٹا“ نہ ہو تو سنّاٹا چھا جاتا ہے کہ وجودِ زن سے ہے تقریبات میں رنگ۔ان کی محض موجودگی سے ہی شعراء اور سامعین دونوں کو ایک عجیب قسم کی سرور آگیں ”زن زناہٹ“ کا احساس ہوتا ہے۔
اپنے اجّو بھائی اور وراٹ کوہلی جیسے لوگ رَن کی بات کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو زن کی بات سوچنے لگتے ہیں اور موقع دیکھتے ہی من کی بات کہہ ڈالتے ہیں۔ پھر چشم زدن میں ”ٹو سے وَن“ کی بات طے ہو جاتی ہے۔
المختصر، زن کی بات ہی سب کےمن کی بات ہوتی ہے ورنہ بے من کی بات من سے کون سنتا ہے۔