جس ماحول، سماج یا کلچر میں ہم پرورش پاتے ہیں اس میں پہلے سے طے شدہ کچھ اقدار موجود ہوتی ہیں۔ معاشرہ ان کا احترام کرتا ہے۔ تلقین و تبلیغ کرتا رہتا ہے۔ والدین اساتذہ کتابیں ہمیں بچپن سے وہ اقدار سکھاتے رہتے ہیں۔ تواتر اور تسلسل سے وہ اقدار ہماری نفسیات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مثلا عبادت رحم مدد کرنا ثواب ہے۔ بہن بھائیوں سے پیار ان کو ان کا حق دینا نیکی ہے۔ والدین کی خدمت کرنا فرض ہے۔ جھوٹ چوری زنا لالچ حسد گناہ ہے۔ ملاوٹ رشوت شراب سور حرام ہے۔
اب جو اقدار ہماری نفسیات میں راسخ ہو کر جذبات اور ایمان کا حصہ بن جاتے ہیں وہ “ضمیر” کہلاتا ہے۔ جب بھی ان اقدار کے خلاف کوئی کام سرزد ہوگا ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرے گا اور بعض اوقات پچھتاوا بن کر ہماری نیندیں حرام کر دے گا۔
ضمیر کوئ آسمانی روحانی ابدی حقیقت نہیں یہ مقامی کلچر کی پیداوار ہے۔ مثلا کوریا جاپان تائیوان والے سانپ چوہے سور سب کھاتے ہیں اور صحت تعلیم ٹیکنالوجی میں مڈل ایسٹ کے عربوں سے آگے ہوتے ہیں۔ ان کا ضمیر حرام کھانے پر ملامت نہیں کرتا۔ جبکہ عرب یا مسلمانوں کو حلال گوشت کا روسٹ کھلانے کے بعد کہا جائے یہ سور کا گوشت تھا تو وہ الٹیاں کرتے کرتے بیمار ہو کر ہسپتال جا داخل ہوں گے۔
ضمیر نفسیاتی کیفیت ہے۔ بچپن میں سیکھے گئے یہ ثواب یہ گناہ، یہ حلال یہ حرام، کی آواز ہے جو ضمیر بن کر ہمارے اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
[ساشا فرید]۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...