“Mind Platter” یہ چند ادب پارے لبنانی نژاد کنیڈین ادیبہ نجویٰ زیبین کی کتاب “مائینڈ پلیٹر” سے منتخب کیے گئے ہیں۔ نجویٰ زیبین نے اس کتاب میں اپنی زندگی میں بطور متعلم، معلم اور انسان ذاتی تجربات، مشاہدات اور تخیلات کو دل نشین انداز سے بیان کیا ہے۔ یہ دراصل یہ ان کی ضمیر کی صدائیں ہیں جو انھوں نے عام انسان کی زبان میں بیان کی ہیں۔ اس کتاب میں زندگی کے تمام زندہ پہلوؤں؛ محبت، دوستی، غم، تاثرات، عزت و احترام، رغبت، دیانتدای اور کئی زاویوں سے اپنے احساسات و جذبات کو جمع کیا ہے۔
یہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اَن دیکھے اور اَن سنے دکھ درد، احساس اور دھتکارے ہوئے لوگوں کی دل کی آوازیں اور ضمیر کی صدائیں ہیں جن کو نجویٰ زیبین نے ایک زندہ مجسم صورت دے دی۔ یہاں اس کتاب میں سے چند منتخب تحریروں کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ میں نے عنوانات کو کسی شعر کے مصرعے سے باندھا ہے۔
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
Rest Your Heart
“دل بہت انمول چیز ہے اس لیے اسے ہمیشہ ترو تازہ اور خوش بہاررکھیے۔ ممکن ہے کہ یہ زندہ دل دوسروں کو غیر مشروط طور پر درگزر کرنے والا بن جائے، اس لیے اپنے ساتھ مستقل بدسلوکی کرنے والوں سے الجھ کر اسے پراگندہ مت کیجیے۔ اسی طرح آپ چاہتے ہیں یہ دل صبر سے لبریز رہے تو اسے بے قدرے لوگوں سے سے الجھنے سے باز رکھیے۔”
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
(اقبال)
راضی بہ رضا ہوتے ہیں اربابِ قناعت
Contentment
“کیا آپ نے کبھی پانی کی قلت کے سبب پیاسے سمندر یا سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرتی ہانپتی ہوا کے بارے میں سنا ہے؟ یا آپ نے کبھی یہ محسوس کیا ہو کہ آسمان تنگیء داماں کا شکوہ کرتے ہوئےاپنی حدوں سے نکلنے کے لیے بے تاب ہورہا ہے یا قوسِ قزح ہفت رنگ سے مزید رنگوں کی خواہش مند ہو، نہیں نا! ایسا ہوبھی کیسے سکتا ہے، اس لیے خدا سے مزید طلب سے قبل اس کی عطا شدہ نعمتوں پر نظر کیجیے۔ اور ضرورت سے زائد کی چاہت میں خود کو ہلکان مت کرو۔ اپنی خواہشات کو ضروریات پر غالب مت آنے دو، کیوں کہ اگر ایسا کرو گے تو ایک دن ایسا آئے گا جب تم اپنی خواہش کی تکمیل کے چکر میں اپنی ضرورت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ”
راضی بہ رضا ہوتے ہیں اربابِ قناعت
وہ اپنا بھرم دستِ طلب سے نہیں کھوتے
(نامعلوم)
دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے
Over analyzing Kindness
میں اکثر اس بات پرافسوس کے ساتھ حیرت میں ڈوب جاتی ہوں کہ لوگ دوسروں کی نیکی کے بارے میں پنہاں نیت کی کیسے توضیح کرلیتے ہیں۔ کوئی تو اس نیکی یا بھلائی کرنے کوعزت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دے رہے ہوتے ہیں تو کوئی اسے کسی کے عتاب سے بچنے کے لیےبزدلی یا کمزوری کی علامت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جبکہ کوئی اسے خوشی کا پروانہ کہتا ہے تو کوئی اسے سادہ لوحی سے تعبیر کررہا ہوتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے نا کہ نیکی یا بھلائی کو بذات خود نیکی کے بجائے اس کے محرکات کا تعین کرتے ہوئے دیگر معنی دے دیے جائیں۔ یہ توضیحات اور تجزیات کا محرک ہمارا وہ”اَن دیکھا تجسس”ہے جس بنا پر ہم دوسروں کے اعمال کی نام نہاد وجوہات تلاش کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ حالاں کی حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ نیکی یا بھلائی صرف کسی مفاد یا طلب میں ہی نہیں کرتے۔ اس لیے جمع خاطر رکھیے کہ ایک مسکراہٹ کا مطلب محض مسکراہٹ ہی ہے کسی کی ہنسی اڑانے کے لیے نہیں، اسی طرح کوئی کسی سے محوِ گفتگو ہے تو اسے معمول کی بات چیت ہی تصور کیجیے اور نیکی کا مطلب صرف نیکی ہے۔
دیکھے جو میری نیکی کو شک کی نگاہ سے
وہ آدمی بھی تو مرے اندر ہے کیا کروں
سلمان اختر
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
Work Hard
ایک لمحے کے لیے چشمِ تصور سے گزرے تیس برسوں پر محاسبے کی نظر ڈالیے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ ہر گزرتے لمحے میں مقصدِ زندگی کو ذہن و دل میں تازہ رکھتے ہیں تو ہر دن آپ کے لیے ثمر آور ثابت ہوگا۔ اگر آپ نے محنت کو زندگی کا شیوہ بنا لیا ہے تو اس سفر میں مزید محنت کو شامل کیجیے۔ زندگی سے نہ کبھی مایوس ہوں اور نہ اس سفرِ حیات سے بے زار ہوکر منزل سے بدظن ہوجائیے۔ بلکہ نفس کی تربیت اور نشوونما پر توجہ دیجیے۔ یہ محنت آپ کو بےکار رہنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ندامت سے محفوظ رکھے گی، بالخصوص ان آزمائش کے لمحات میں راحتِ قلب کا باعث بنے گی جب آپ خود کو ماضی کی نسبت کمزور اور نااہل سمجھنے لگتے ہیں۔
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی
(بہادر شاہ ظفر)
نجویٰ زیبین/ترجمہ: محمد کامران خالد