جدید دنیا کی کئی ایسی چیزیں ہیں جنہیں آپ دیکھ نہیں سکتے، خواہ ریڈیو ویوز ہوں یا لمیٹڈ کمپنی۔ اسی طرح ہم جائیداد کے حقوق دیکھ نہیں سکتے ۔۔۔ لیکن کئی جگہوں پر سن سکتے ہیں۔
یہ تجربہ پیرو سے تعلق رکھنے والے اکانومسٹ ہرنانڈو ڈی سوٹو کو ہوا۔ وہ پچیس سال پہلے انڈونیشیا میں بالی کے کھیتوں میں چل رہے تھے۔ جب ایک کھیت سے گزرتے تو ایک کتا ان کی طرف دیکھ کر ساتھ ساتھ بھونکتا۔ اور اچانک یہ پہلا کتا رک جاتا اور ایک نیا کتا بھونکنا شروع کر دیتا۔ یہ ایک کھیت اور دوسرے کے درمیان کی حد تھی۔ یہ حد ان کو تو نظر نہیں آ رہی تھی لیکن کتوں کو بالکل ٹھیک ٹھیک پتا تھا کہ یہ حد کہاں پر ہے۔
ڈی سوٹو جکارتہ آئے اور پانچ وفاقی وزراء سے ملاقاتیں کیں کہ ملک میں زمین کے ملکیتی حقوق کا رسمی نظام کیسے سیٹ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا علم تو سب کو تھا۔ یہاں تک کہ بالی کے کتوں کو بھی۔ لیکن اس کو باقاعدہ ریکارڈ میں لایا جانا تھا۔
ڈی سوٹو ڈویلپمنٹ اکانومکس کا بڑا نام ہیں۔ پیرو میں دہشت گردوں کی دلیرانہ مخالفت کرتے رہے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم “شائننگ پاتھ” کے نشانے پر رہے۔ تین قاتلانہ حملے ہوئے۔ انکا بڑا آئیڈیا ایسے قانونی نظام بنانا تھا جو بالی کے کتوں جتنا بہترین کام کر سکیں۔
انڈونیشیا نوے کی دہائی میں ملکیتی حقوق کو رسمی طور پر ریکارڈ میں لانا چاہ رہا تھا۔ لیکن ایسا ہر جگہ پر ہمیشہ نہیں رہا۔ مثلاً، ستر کی دہائی کے چین میں انفرادی ملکیت کو ختم کر کے اجتماعی ملکیت دینے پر زور تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ بہت ہی برا رہا۔ اگر آپ کسی چیز کے مالک نہیں تو اس چیز کو بہتر کرنے، اس پر وقت، محنت اور سرمایہ لگانے کی ترغیب نہیں رہتی۔ اجتماعی زراعت نے کسانوں کو شدید غربت کی طرف دھکیل دیا۔ 1978 میں ژاوگانگ کے دیہات میں کسانوں کا ایک گروپ چھپ کر ملا اور اجتماعی ملکیت ترک کے کے زمین بانٹ لی۔ جس پر جس کی زیادہ پیداوار ہو، وہی اس اضافی پیداوار کا حقدار ٹھہرے۔ ایسا معاہدہ کمیونسٹ حکومت کی نظر میں غداری قرار پاتا۔ اس لئے صرف خفیہ طور پر کیا جا سکتا تھا۔
لیکن کسانوں نے جلد ہی معلوم کر لیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہے۔ نہ صرف یہ سال اس دیہات میں پیداوار کا سب سے زیادہ سال تھا بلکہ اتنا زیادہ کہ اس سے پچھلے برسوں سے کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ بہت خطرناک کام کیا گیا تھا۔ ایسے کسانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنے۔ لیکن چین کی خوش قسمتی رہی کہ ایک نئے لیڈر کی آمد ہوئی۔ یہ ڈینگ ژاوٗپنگ تھے۔ اور انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ ایسے تجربات کے حق میں ہیں۔ اور 1978 وہ سال ثابت ہوا جب چین نے شدید غربت سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا سفر انتہائی تیز رفتاری سے شروع کیا۔
چین کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ زمین کے ملکیتی حقوق انتہائی طاقتور آئیڈیا ہیں۔ لیکن ایک حد تک ہی ان کو غیر رسمی رکھا جا سکتا ہے۔ اگر میرے پڑوس میں ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے تو میں اس میں سو سکتا ہوں۔ اس کی مرمت کر سکتا ہوں۔ اس کا کچن تبدیل کروا سکتا ہوں۔ کوئی چور گھس آئے تو شور مچا سکتا ہوں اور میرے پڑوسی میری مدد کریں گے۔ لیکن محض اپنے پڑوسیوں کے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر میں کچھ کام ٹھیک نہیں کر سکتا۔ اس کی بنیاد پر قرض نہیں لے سکتا۔ اس کے مالکانہ حقوق بیچ کر اچھی قیمت وصول نہیں کر سکتا۔ اور یہ مجھے بہتر گھر لینے میں، اپنا کچن بہتر بنانے میں، پیسے کو کاروبار میں لگانے سے یا ضرورت کے وقت استعمال کر لینے سے روک دیتا ہے۔ مجھے ان کے لئے کسی قابلِ اعتبار دستاویزی ثبوت سے یہ دکھانا ہو گا کہ یہ واقعی میرا ہے۔ اور اس کے بغیر میں یہاں سو تو سکتا ہوں لیکن یہ میرا اثاثہ نہیں بن سکتا۔
جدید دنیا کے مالکانہ حقوق کا ایک تصور ہمیں نپولین کے فرانس میں نظر آتا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نپولین کو جنگیں لڑنے کے شوق کے لئے ٹیکس کی ضرورت تھی اور جائیداد اس کے لئے اچھا ٹارگٹ تھا۔ اس لئے انہوں نے فرمان جاری کیا کہ فرانسیسی زمین کے نقشے بنائے جائیں اور رجسٹروں میں ریکارڈ رکھا جائے۔ اس کقشے کو کاڈاسٹرے کہا جاتا تھا اور نپولین کو یہ بنوانے پر فخر تھا۔ سویٹزرلینڈ، نیدرلینڈز اور بلجیم پر قبضہ کر کے وہاں بھی انہوں نے یہی کام کروایا۔
انیسویں صدی کے شروع میں لینڈ رجسٹری کا یہ تصور برطانیہ تک پھیل چکا تھا۔ ریاستی سروے سے نقشے بنتے تھے اور لینڈ ڈیپارٹمنٹ ان کو ٹائٹل دیتا تھا۔
ہندوستان میں پٹوار کا نظام شیرشاہ سوری نے متعارف کروایا جو اکبر کے دور میں باقاعدہ علمِ پٹوار بنا جس میں کپڑے پر نقشہ بنا کر ریکارڈ کی تکنیک بنائی گئی۔ کالونیل دور میں برطانیہ سے آنے والی جدتوں سے ملاپ کے بعد اس نے موجودہ پٹواری نظام کی شکل اختیار کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہر جگہ پر ایک جیسا مفید نہیں۔ ڈی سوٹو نے نوٹ کیا کہ مصر میں پراپرٹی رجسٹریشن کے لئے 31 ایجنسیاں اور 77 پروسجیر ہیں اور قانونی طور پر رجسٹر کروانا پانچ سے تیرہ سال کے درمیان لیتا ہے۔ فلپائن میں یہ اس سے دگنا ہے۔ ایسا سست رفتار طریقہ کار اس سسٹم کو بڑی حد تک بے کار کر دیتا ہے۔
لیکن اگر اسے ٹھیک طرح سے کیا جائے تو بہترین نتائج نکلتے ہیں۔ گھانا اس کی مثال ہے۔ اگر زمین اثاثہ ہے اور اس کا ریکارڈ شفاف اور جھگڑے سے صاف رہتا ہے تو لوگ اثاثے کو ڈویلپ کرنے میں بھی محنت کرتے ہیں اور نتیجہ بہتر پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ گھانا کی ترقی کی ایک وجہ اس نظام کو بھی کہا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک کی سٹڈی بتاتی ہے کہ باقی فیکٹرز کو کنٹرول کیا جائے تو ایسے ملک جہاں پراپرٹی رجسٹری کا سادہ اور تیز نظام ہے، وہاں کرپشن اور گرے مارکیٹ میں کمی آتی ہے اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر کے نظام اس کو بہتر اور موثر بنانے کا سب سے موثر اور بہترین طریقہ ہیں۔ یہ رجسٹر اب کمپیوٹر میں رکھے جا رہے ہیں۔ پٹوار خانوں کو کمپیوٹر میں تبدیل کرنا ایک طویل کام ہے۔ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ عالمی ادارے کسی ملک کی معاشی اصلاحات کیلئے اس اصلاح کو اہم ترجیح شمار کرتے ہیں۔ ٹم ہارفورڈ نے پراپرٹی رجسٹر کو انسانی تاریخ کی اہم ایجادات میں سے کہا ہے۔
پراپرٹی رجسٹری کے نظام کے مخالف بہت سے رہے ہیں۔ اس پر بات کرنا بھی فیشن میں نہیں، اور بہت سے لوگ اس بارے میں اور اس کی اہمیت کو جانتے بھی نہیں۔ اس کو ایجاد کہنے پر بھی شاید کئی لوگ آپ کی طرف حیرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔ لیکن پراپرٹی رجسٹر کی ایجاد کے بغیر دنیا کے کئی ملکوں کی معیشت کتوں کے حوالے ہی کرنا پڑے۔