زمینی حقائق نہیں سمجھ آ رہے تو قدرتی خاک آئیں گے؟
ہم سب پاکستانی ایک اپنی سمجھ والی اور اپنی بنائ ہوئ خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں اور بہت خوش ہیں ۔ اردگن کے فراڈ والے الیکشن پر جشن منا رہے ہیں ۔ ترکی والے لوگ بیچارے پریشان ۔ کل ایک مولانا صاحب میرے پر برس پڑے اور فرمانے لگے کہ آپ کا رول ماڈل آخر ہے کون ۔ جب میں نے کہا حضرت محمد ص ، تو فرمانے لگے وہ تو پیغمبر تھے ۔ بس پھر میں نے مزید بعحث کرنی مناسب نہیں سمجھی اور ان کو بلاک کر دیا ۔
اتوار والے دن Barnes & Noble میں میری ساتھ والی نشست پر ایک ہندوستان سے ہندو لڑکا بیٹھ گیا اور میرے ہاتھ میں روحانیت کی کتاب دیکھ کر کہتا آپ مجھے گائیڈ کریں روحانیت کیا ہے ۔ میں نے کہا ہر شخص کا اپنا سچ روحانیت ہے اور وہی اس کی جان ، مزہب اور اخلاقیات ۔ کہتا میں ہندو مزہب میں پیدا ہوا اور اب Protestant عیسائ بن گیا ہوں کیونکہ یہ سچا ہے ۔ حضرت عیسی ہی ہمارے نجات دہندہ ہوں گے ۔ اور اللہ نے ہم سب کو اپنے image پر بنایا ۔ آپ بھی عیسائیت کو پڑھیں اور ہمیں شامل کریں ۔ میں نے کہا تم اپنے مزہب سے وفا کر نہ سکے اور مجھے کیا سمجھاؤ گے ۔ میں نے تو ابتدائ تعلیم ہی مشنری اسکول سے حاصل کی ، جہاں روز صبح بائبل پڑھائ جاتی تھی ۔ روحانیت مزاہب سے اگلے اسٹیج کی بات ہے ۔ ہمارے روحانی بابا ، ہمارے پیغمبر محمد ص ، ہیں ۔ وہ بھی تمام مسلمانوں کہ نجات دہندہ ہوں گے ۔
جب میں نے کہا کہ تمہے اس کام کہ کتنے ہیسے ملتے ہیں ؟ تو بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا میرا دل کہتا ہے کہ میں یہ سچ لوگوں کو بتاؤں ۔ میں نے کہا یہ تمہارا اپنا سچ ہے اسے اپنے پاس ہی رکھو بڑی مہربانی ۔ کام کیا کرتے ہو ؟ کہتا میں standards & poor میں financial analyst ہوں ۔ تو میں نے کہا کوشش کرو کہ سرمایا دارانہ نظام سے استحصال ختم کرو ۔ حضرت عیسی نیچے اتر آئیں گے تمہاری مدد کرنے ۔ جتنے لوگ ، اتنے فلسفے ، اتنے مزاہب ، اتنے ہی عقیدے ۔ انسان پاگل ہو جاتا ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں مولویوں سے دوڑ کر پاکستان آیا اور یہاں بھی بھائ لوگ پڑھ گئے ۔
ایک اور مصیبت بھی باہر آ کر دیکھی ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی باہر کہ ملکوں میں دفتر بنائے ہوئے ہیں ۔ غنڈے پالے ہوئے ہیں ۔ شاہیں بٹ ، ڈاکٹر اشرف چوہان اور اقبال لطیف جیسے ۔ پاکستان کے ملٹری اٹیشی اور ISI کے لوگ انہی کہ گھروں میں محفلیں جماتے ہیں ۔ الطاف حسین نے لندن میں سر عام ڈاکٹر عمران فاروق کو انہی کہ ہاتھوں قتل کروایا تھا ۔ اگر اقبال لطیف کا سپانسرڈ سیمینار isi لندن اپنے چیف کو تب بتا دیتی تو درانی کتاب چھاپنے کی جرات نہ کرتا ۔ شاہین بٹ نواز شریف کہ لیے نیو یارک میں بدمعاشی کرتا ہے ۔ انعام میں سینیٹر ، حبیب بینک بھی یہی کرتی ہے ۔ نیا امریکہ میں ایمبیسڈر اور لندن کا ہائ کمشنر ابن عباس دراصل پاکستانی ریاست کہ دشمن ہیں ۔ سیاست دانوں کہ پالتو کتے اور لٹیرے ۔
کبھی کبھی اتنا تنگ پڑتا ہوں ان بدمعاشوں کو دیکھ کر ، سوچتا ہوں کسی جزیرے پر آباد ہو جاؤں ، لیکن ان پر بھی یہ لوگ آفشور کمپنیاں بنا کر قابض ہیں ، ڈرگ مافیا چھوڑا ہوا ہے ہم جیسوں کی جیبیں کاٹنے کے لیے ۔
جو امریکی یا باہر کی نیشنیلیٹی والا پاکستانی ہے وہ پاکستان میں اپنے گھر ریپبلیکن ، ڈیموکریٹ یا لیبر کا جھنڈا نہیں لگاتا ۔ نہ دفتر بناتا ہے ۔ میں سوچتا تھا شاید چوہدری سرور کوئ لیبر پارٹی کا دفتر پاکستان میں بھی بنا دے ۔ اُس کا بیٹا کیونکہ ابھی بھی لیبر پارٹی سے سیاست کر رہا ہے ۔
ہمیں چودراہٹ چاہیے، تھانیداری چاہیے ۔ بدمعاشی کرنی ہے ۔ پیسہ بنانا ہے ۔ احتساب نہیں پسند ۔ بھاڑ میں جائے عوام ۔ یہ لوگ غریب اپنی کرتوتوں سے ہیں ۔ ہم اللہ کہ پہنچے ہوئے لوگ ہیں ۔ مولانا فضل ہمارے ساتھ ہے ، مفتی منیب چار من کی دوربین والا بھی اور اب خادم رضوی گردہ فیل پیر بھی ۔ یہ تینوں کوشش کر رہے ہیں کلثوم کو بچانے کی ۔ ہمارے مال و دولت کو بچانے کی ۔
کل کچھ لوگ مجھ کو فوج کو بدنام کرنے کا الزام لگا رہے تھے ۔ نادان لوگ ۔ میرے میں اتنی جرات ۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا ۔ جناب جو فوج میں لوگ ہماری تقدیروں کا فیصلہ کرنے چڑھ دوڑتے ہیں میں ان کی بات کرتا ہوں ۔ کیوں ہزاروں معصوموں کے قاتل اور اربوں کے ڈکیت راؤ انوار کو vip پروٹوکول دیا جا رہا ہے ؟ چیف جسٹس کیا ڈیل ملک ریاض سے کر رہا ہے ؟ بیٹی بیاہنے والی جو جسٹس افتخار نے ایڈن والوں سے کی تھی ؟ پاکستان میں فوج جائن کرنے لے لیے draft نہیں ۔ کمپلسری نہیں ، بلکہ ہر ISSB میں ۸۰ % فیل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ہی بہن بھائ فوج میں ہیں ، عدلیہ میں اور سیاست میں لہٰزا کوئ احتساب نہ کیا جائے ؟ جو مرضی آئے کریں ؟ صرف غریبوں کہ لیے قانون ؟
زرا ٹھنڈے دماغ سے ان زمینی حقائق کا جائزہ لیں ۔ میں نے کل فرخ سلیم کا معیشت کی تباہی پر مضمون فیس بک پر پوسٹ کیا تھا زرا اس کو پڑھیں اور پھر سوچیں کون مجرم اور کون فرشتہ ؟
آج پھر فیض صاحب کی رُلا دینے والی نظم پر ختم کروں گا ۔
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کا نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئ ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریاکار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹٹریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزومند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہوگئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہوگئے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔