“کسی نئی جدید ٹیکنالوجی اور جادو میں فرق نہیں ہوتا” ۔آرتھر کلارک
آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے سورج کی تمازت آج سے تیس فیصد کم تھی۔ یہ روشن اور گرم تر ہو رہا ہے۔ آج سے دو ارب سال بعد یہ اس قدر گرم ہو چکا ہو گا کہ زمین کے سمندر بھاپ بنا کر اڑا چکا ہو گا۔ اگر اس وقت کوئی کاکروچ وغیرہ بچ بھی گئے تو بھی پانچ ارب سال بعد یہ اس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو گا کہ کاسموس میں رہنے والے ایک آخری بار سبق سیکھیں گے کہ گیس گرم ہو کر پھیلتی ہے۔ سورج ڈیڑھ سو گنا بڑا ہو جائے گا۔ یا یہ زمین کو نگل لے گا یا بھاپ بنا کر اڑا دے گا یا پھر اسے چوم کر انگارہ بنا دے گا۔
انسان اگر لمبے عرصے کے لئے بچے تو ان کو اس سے بہت پہلے ہی زمین سے فرار ہونا پڑے گا۔ یہ فرار کیسے ہو گا؟ اس کیلئے پہلے ان سیاروں کو تلاش کرنا ہو گا جہاں کی فضا میں ہم سانس لے سکیں۔ ہم یہ اپنے ٹیلی سکوپ سے معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں ایک بڑا شپ بنانا پڑے گا۔ خوش قسمتی سے اس کا خام مال خلا میں ہی موجود ہے۔ زمین کے قریب دسیوں ہزار شہابیے ہیں اور ان پر کان کنی کی جا سکتی ہے۔ سادہ پروب بھیجے جا سکتے ہیں جو خچروں کی طرح ان شہابیوں کو کھینچ کر لینگریجین پوائنٹ میں پارک کر دیں جو گریوٹیشنلی سٹیبل ہیں۔ یہاں تک ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
پانچ سو گز کی چوڑائی والا شہابیہ، جو ڈائنوسار مارنے والے شہابیے کا بیسواں حصہ ہے، اس قدر پلاٹینم رکھتا ہے جتنی زمین کی تاریخ میں آج تک نکالی گئی ہے۔ ان سے حاصل کیا ہوا لوہا ایک بہت بڑا خلائی جہاز بنا سکتا ہے۔ یہ جہاز اسی جگہ پر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کو زمین سے نکالنے کیلئے ایندھن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن ان شہابیوں میں سب سے قیمتی چیز پلاٹینم یا لوہا نہیں، برف ہے۔ شہابیوں کی بیلٹ کا سب سے بڑا آبجیکٹ سیریس اتنا پانی رکھتا ہے جو پوری زمین کی جھیلوں اور دریاوٗں سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر شہابیے اتنے بڑے نہیں لیکن پھر بھی یہ بہت سا پانی رکھتے ہیں۔ سفر کرنے والے انسانوں کو پانی کی ضرورت پینے کیلئے ہو گی جبکہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ کر کے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ خلا میں اس بڑے شپ کو زیادہ ایندھن درکار بھی نہیں ہو گا۔ اور یہ راستے میں مزید شہابیے بھی اکٹھے کر سکتے ہیں۔
پانی کے مالیکیول توڑ کر بننے والی آکسیجن کو یہ خلاباز سانس لینے کیلئے استعمال کریں گے۔ زیادہ آکسجن شاید پرانی ٹیکنالوجی کی مدد سے آئے (جس کو ہم پودے کہتے ہیں) جو کیبن میں اگ سکیں۔ ان خلابازوں کو اپنا کیبن نائیٹروجن سے بھرنا ہو گا جو زمین سے ہی لائی جا سکتی ہے۔ اور اس نائیٹروجن کے ساتھ دوسری گیسیں بھی۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک بارہ نوری سال دور ایسا ایک سیارہ مل چکا ہو۔
چلیں، اب کُوچ کریں۔ یہ فاصلہ طے کرنے سے پہلے بھی اس وقت کے مسافروں کو جسم میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ دورانِ سفر ورزش کرتے رہنا پڑے گا تا کہ ہڈیاں اور پٹھے ٹھیک رہیں۔ اگر اس شپ کو گھما کر گریویٹی پیدا کر لی جائے تو رہنے والوں کے لئے آسانی ہو جائے گی۔
اس پر رہنے والے وہی کریں گے جو انسان کرتے آئے ہیں۔ گپ شپ، کھیل کود، فلمیں دیکھنا، لڑائی جھگڑے کرنا، اگلی نسل پیدا کرنا۔ یہ سفر لمبا ہے۔
سفر کے دوران کہکشاوٗں کی نظر آنے والی شکل بدل رہی ہو گی۔ اور شاید کہیں اس جہاز کو گیس کا سامنا ہو، جو نئے نظامِ شمسی کا ابتدائی خام مال ہو گی۔
ایک لمبے سفر کے بعد وہ سیارہ نظر آنا شروع ہو گا جو نیا گھر ہو گا۔ پہلے ایک نقطہ سا، پھر ایک چھوٹا سا دھبہ۔ اس وقت جہاز پر موجود سائنسدان چیک کریں گے کہ کیا یہ واقعی ویسا ہی تھا جیسا زمین پر دیکھا تھا؟ کیا یہاں آکسیجن اور اوزون واقعی موجود ہے؟ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کلورین ضرورت سے زیادہ تو نہیں؟ کہیں ہنسانے والی گیس، نائیٹروجن آکسائیڈ تو زیادہ نہیں؟ ایسا نہ ہو کہ ہم اتر کر بس ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہی ہوتے رہیں۔ اس کے چاندوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ دور سے ہم اس کے چاند اور اس کی فضا کو ملا کر ایک ہی سمجھے تھے؟ ہمیں اس کے چاند نہیں بلکہ سیارے کی فضا میں دلچسپی ہے۔
اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو پھر ہم اس کی طرف بڑھیں گے۔ اس کے کچھ رنگ شاید ہماری زمین کی طرح ہی لگیں۔ نیلے سمندر ہوں اور بھورے صحرا۔ لیکن بہت کچھ اس کے سورج پر منحصر ہو گا۔ شاید “پودے” بھی ہوں جو سرخ یا پھر زرد جنگل سا بنا رہے ہوں۔
اس کے گرد ایک چکر کھا کر ہمیں برِاعظموں کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن ابھی انتظار کرنا ہے۔ سب سے پہلے کچھ بہادر لوگ ایک لینڈنگ کرافٹ لے کر اب اس سیارے پر اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ چند گھنٹوں بعد یہ ایک نئے سیارے پر اپنا پہلا قدم رکھیں گے۔
ہم زندہ بچتے ہیں کہ نہیں۔ اگلا کچھ وقت ہماری نوع کے لئے بہت اہم ہے۔ لینڈ ہونے کے لئے یہاں کا فضائی پریشر دیکھنا ہے۔ پریشر زیادہ لگ رہاہے تو یہاں کے پہاڑوں پر مناسب جگہ دیکھ کر اترا گیا ہے کہ وہاں پر پریشر مناسب ہو گا۔ ادھر ادھر خطرے کے ہونے کا اندازہ کیا گیا۔ باہر محفوظ دیکھ کر پہلے ممبر نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا۔ سر ہلایا اور باہر قدم رکھ دیا۔ اپنا ہلمٹ اتارا اور پہلا سانس لیا۔
ہوا کی یہ پہلی چسکی موت کی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی گیس جس سے ہم واقف نہیں نیورون مفلوج کر سکتی ہے یا پھیپھڑے ناکارہ کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ یہ غیرارضی ہوا عجیب لگے۔ گلے میں خراش پیدا کرے، گیلی ہو یا بو والی۔ اس سے پہلے کچھ کھانسی ہو۔ ویسے جیسے نوزائیدہ بچہ نئی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ لیکن گھبراہٹ کی بات نہیں۔ کچھ گہرے سانس اور گلا صاف ہو گیا ہے۔ ساتھ ایک خوشی کا قہقہہ۔
اور اس کے ساتھ ایک عجیب حیرت انگیز چیز ہوئی ہے۔ وہ نائیٹروجن اور دوسری گیسیں جو پھیپھڑے میں جمع تھیں، وہ فرار ہو گئیں۔ وہ جو گھر سے آئیں تھیں، اس زمین سے جس نے انسان کو اس قابل کیا تھا۔ اتنی دور کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پرانے گھر کی یہ ہوا اس نئے گھر کی ہوا کے ساتھ مل گئی ہے۔ زمین کی فضا اب اس نئے گھر کی فضا کے ساتھ الجھ گئی ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ایک ایک کر کے سب خلاباز اتر رہے ہیں۔ اپنے ہلمٹ اتار رہے ہیں، یہی کام کر رہے ہیں۔ زمین سے لائی ہوا یہاں بکھیر رہے ہیں۔
اس میں وہ ہوا بھی ہے جس نے ہیروشیما پر بم گرتے دیکھا تھا۔ وہ جو کوہِ ہمالیہ کی آغوش میں لیٹے کسی کوہ پیما کے پھیپڑوں میں تھی جب وہ خوبصورت اور صاف آسمان پر کبھی اس ستارے کو تک رہا تھا، جب نئے ملک بن رہے تھے، نئی ایجادات ہو رہیں تھیں۔ وہ جو میرے اس دنیا میں پہلے سانس کا حصہ تھیں، وہ جو میری اس دنیا میں آخری ہچکی تھی۔
ہمارے مٹی میں مل کر مٹی ہونے سے کہیں بعد یہ سرخ ہوتا سورج اس زمین کی ایک ایک چیز کو نگل چکا ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ ان ہوا کے مالیکیولز کو کہیں اور زندگی کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے۔ وہ مالیکیول جنہیں نے کبھی ہم سب کے اندر بھی رقص کیا ہے، اس ہوا میں ملکر ہوا ہو کر ایک نئے سیارے پر زندگی شروع کریں۔
کیا زمین سے فرار کی یہ کہانی ممکن ہو گی؟ شاید نہیں۔ اس کہانی میں ابھی کئی جھول ہیں۔ لیکن خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے؟