(Last Updated On: )
نام کتاب : زمین سے بچھڑے لوگ
مصنف : تنویر احمد تِماپوری
تنویراحمد تِماپوری اردو کے ایک باذوق قاری اور اس کے سچے عاشق ہیں۔ وہ اردو کی ادبی اصناف کو معراجِ کمال پر دیکھنے کے حد درجہ خواہاں ہیں ۔ تخلیقی ادب کے سنجیدہ قاری ہونے کے ناطے ان کا احساس ہے کہ ان کے اندر بھی ایسے بیج انکورِت ہو گئے ہیں ، جن کو پانی دینے سے اردو کے تخلیقی ادب میں وہ بھی کچھ اضافہ کر سکتے ہیں۔’ گلبرگہ کے فرزند‘ کا یہی خیال اردو کے حق میں بہتر ثابت یوں ہوا کہ چودہ افسانوں پر مشتمل ان کا افسانوی مجموعہ’زمین سے بچھڑے لوگ‘ اردو کی ادبی وراثت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ٹی ایس ایلیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ادب کا کام انبساط و لطف اندوزی ہے اور اگر فنی پاسداریوں کے ساتھ اس میں فلسفۂ حیات اور درسِ اخلاق کے عناصر بھی پائے جائیں تو اسے اعلی ادب کہا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس اعلی ادب کو پڑھنے کے بعد کسی قاری کے اندر کا خالق بیدار ہو جائے تو اس ادب کو مقبولیت کی بلندی تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنویر احمد تماپوری جیسے عام قاری کے دل میں بھی جب خالق کی صف میں داخل ہونے کی کلبلاہٹ ہلّوریں مارنے لگی ہیں تو کسی بھی ادب کے معراج کے لئے اسے فالِ نیک سمجھا جانا چاہیے۔
تنویر احمد تِماپوری نے اپنے گہرے مشاہدات و تجربات کو افسانوی قالب میں اس فنکاری کے ساتھ پیش کیاہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک نوآموز قلم کار ہیں۔عصری حسیت اور گہری ریاضت ان کے کہنہ مشق ہونے کا اشاریہ کہی جا سکتی ہے۔اس کا کچھ کچھ اندازہ ان کے افسانوں کے تیکھے عناوین سے بھی ہوتا ہے۔
زیر تبصرہ مجموعے کا پہلا افسانہ ’سوالیہ نشان‘ہے۔ یہ کیمسٹری کی ایک اعلی اقدار کی حامل استانی کی کہانی ہے، جواپنی بیٹی کی بے راہ روی سے پریشان ہو کر حواس باختہ ہوبیٹھی تھی۔ذہنی طور سے مضمحل کر دینے والے حالات میں لڑنے کے بجائے خود بے راہ رو ہونے پر کیسے مجبور ہو جاتی ہے اور کیوں اس گندگی میں اتر جاتی ہے، اسی ’سوالیہ نشان ‘کے اردگرد کہانی بنی گئی ہے۔زبان و بیان کی سطح پر کہانی کو عمدہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو سکتی۔آج کی زبان کا استعمال ہوا ہے اور انگریزی کے سبک الفاظ کے برمحل استعمال نے کہانی کی زبان کو دوآتشہ بنا دیا ہے۔
’لٹکتی تلوار‘بالی ووڈ کے پسِ منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔اس میں ایک عام آدمی کے خاص بننے سے لے کر اس کے بے غیرت بننے تک کے سفر کو لفظوں کی باریک چھڑی کی وار سے ایک کالے سچ کی طرح دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کہانی فلمی دنیا کی ظاہری چکا چوند کے پیچھے چلنے والی رسا کشی ،سیاست اور جنسی بے راہ روی کی منہ بولتی تصویر ہے۔
’کیمیا گر‘ میں ضمیر واحد متکلم کے بیانئے میں خلیج کی ترقی کے راز کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔اس کہانی کو منظر نگاری کے ایک اعلی اور عمدہ نمونے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ حالانکہ تنویر تِماپوری نے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے، اس کی ترسیل قاری تک ہوتی تو ہے لیکن ذرا مدھم انداز میں۔ان کے نکتۂ نظر کو من وعن قبول کر لیا جائے، ایسا ضروری نہیں۔ان کا خیال ہے کہ خلیج کی ترقی اور چکاچوند دراصل ان مزدوروں کے سبب سے ہے جو وہاں دن رات کام کر رہے ہیں۔ تنویر احمد نے اس خیال کو نادرست قرار دیا ہے کہ وہاں کی چکاچوندکا سبب قدرتی وسائل کی فراوانی یا قیادت کی دوراندیشی ہے۔
’زمین سے بچھڑے لوگ ‘ ٹائٹل افسانہ ہے اور رمزیاتی بھی ۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا انسان مشینوں اور آلات ووسائل پر کس قدر منحصر ہوسکتا ہے اس کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔ یہ ایک سائنس فکشن ہے۔ اردو ادب میں سائنس کو لے کر کام کم ہی ہوا ہے اس لئے بھی اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ کیا کبھی سوچا گیا ہے کہ ان مشینوں اور آلات سے رشتہ ٹوٹ جائے تو انسان کہاں جا کر کھڑا ہو جائے گا۔ اسی بابت غور وفکر کی دعوت دیتا یہ افسانہ مجموعے کا سب سے اہم افسانہ ہے۔ آج کا انسان اس زمین سے اپنے تعلق کو بھول چکا ہے جس کے ایک ایک ذرے سے اس کا مستقبل وابستہ ہے ۔
’ریت کا پل ‘ مسلکی عناد پرستی کے بیچ ایمان و اخلاص کا دکھاوا کرنے والے لوگوں کی اصلیت کو ظاہر کرنے والی کہانی ہے۔ مجاہد نام کے ایک سعودی ریٹرن کردا رکے دوہرے اعمال کی نقاب کشائی کی گئی ہے، جس میں وہ افطار کی دعوت میں شریک ہونے سے اس لیے انکار کر دیتا ہے کہ مغرب کی نماز اس کی ترجیحی مسجدمیں نا ہو پائے گی۔ لیکن وہی شخص بجلی کی چوری کے لیے کئی حربے استعمال کرتا ہے۔ اس کے باوجود اسے احساس ِ گناہ نہیں ۔ کہانی کو ۱۸۰ ڈگری کا موڑ دے کر اختتام تک پہنچانے کا انداز قابل تعریف ہے۔ کٹھور لہجے اور اجنبی اسلوب کی یہ کہانی اس کتاب کی ایک اہم کہانی مانی جائے گی۔
’رشتوں کی صلیب ‘ خلیج میں مالی فراوانی اورجنسی بے راہ روی کے شکار لوگوں کی نفسیات بیان کرتی ہے۔ دو نو عمر لڑکیوں کی شادی سے دونوں کے باپ کیوں انکار کررہے ہیں ،کس طرح دونوں لڑکیاںرشتوں کی صلیب پر چڑھا دی جاتی ہیں،یہ پڑھنے سے ہی پتا چل سکتا ہے۔کہانی کا یہی ڈِکشن دل موہ لینے والا ہے، اختتام تک قاری قیاس آرائیوں میں مشغول رہتا ہے اور اس کے سحر میںخود کوگرفتار محسوس کرتا ہے۔
’ہوم ورک ‘ موجودہ سیاست کی پینترے بازیوں اور بم دھماکوں کے بیچ گئو کشی کے نام پر دنگے بھڑکا کر کرسی حاصل کرنے کی کہانی ہے۔کہانی ملک کی سیاست پر گہرے مشاہدات کا پَرتو ہے۔ قاری کسی بھی سیاسی رہنما پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جس باریکی اور جس زبان و بیان میں سفید پوشوں کی ان حکمتِ عملیوں (ہوم ورک )کو واضح کیا گیا ہے وہ قاری کے دماغ پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔
’گاندھی کا چوتھا بندر‘ ممبئی کے ماحول،انڈر ورلڈ اور ’کوٹھے ‘ کے بیچ کے گٹھ جوڑ کے گرد لکھی گئی کہانی ہے۔ اس موضوع پر اور بھی افسانے لکھے گئے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ لیکن تنویر تماپوری کا یہ افسانہ اس لیے منفرد ہے کہ اس میں فکر کا جدا گانہ رخ ہے اور تشبیہات کا استعمال بھی تخلیقی ہنرمندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس جملے سے ہوتاہے’جس طرح ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح ہر مجرم کے پیچھے ایک یا کئی جیلوں کا ہاتھ ہوتا ہے‘ (ص: ۱۰۲)۔ اس جملے کے پیچھے چھپی قوتِ مشاہدہ ، قوتِ تقابل اور قوتِ اظہار کی بھرپوریکجائی کو ایک عام قاری بھی محسوس کر سکتا ہے۔
’نگہبان ‘ کنکریٹ کی جنگلوں کے بیچ شخصی لالچوں کی وجہ سے وقوع پذیر حادثوں کے درمیان جان بچانے کے لیے کس طرح کوئی شخص احترامِ آدمیت کی آخری حدود کو بھی پھلانگ دیتا ہے۔ اسی دردناک تصویر کو کہانی کا روپ دیا گیا ہے۔ منظر نگاری سے لے کر انسانی نفسیات کے پر اثر بیان تک، ہر زاویے سے قاری کا دل و دماغ متاثر ہوتا ہے ۔
’وہ لمحے‘ خود نوشت کے پیرائے میںماں اور بیوی کو فون کرنے کی فریکوئنسی کو لے کر ایک بیمار ماں کے تاثرات کو بیان کرتی کہانی ہے۔کہانی کے اختتام تک ماں سے محبت کرنے والے ہرمہاجر قاری کی آنکھ سے یا تو آنسو ٹپکے گا یا پھر ماں سے بات کرنے کے لیے موبائل فون پر ہاتھ جائے گا۔ کیونکہ’ وہ لمحہ‘ اتنا جذباتی ہوجاتا ہے کہ پتھر دل انسان بھی موم ہوجاتا ہے۔
’اینٹی وائرس ‘ یہ بھی خلیج کے پسِ منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ ایک باپ اپنے نوعمر بیٹوں کی جنسی بے راہ روی کے لیے حفظ ما تقدم کے طور پر کیا کچھ کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ’میاں بیوی‘ کے درمیان کس طرح کے خدشات جنم لیتے ہیں۔اسی کو فنی التزام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
’رئیس‘ ممبئی کی مڈل کلاس فیملی کی کہانی ہے۔ راوی کو کس طرح سے پائی پائی جوڑ کر اپنے بجٹ کو سنبھالنا پڑتا ہے اور اسی کے ساتھ اپنے وقارکے لیے ایثار پر مجبور ہونا پڑتا ہے، اسی کو لطیف مزاح کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے،اس کا پورا لطف افسانے کی قرأت کے بعد ہی ممکن ہے۔
’ادھیکاری‘ مجموعے میں شامل واحد افسانچہ ہے۔اسے پڑھ کر قاری کو وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے جس میں کچھ لوگ بادشاہ سے شکایت کرنے پہنچتے ہیں کہ آپ ہمارے اوپر ہمہ وقت پولیس کی نگرانی کیوں رکھتے ہیں تو بادشاہ سلامت جواب دیتے ہیں کہ اگر پولیس کی نگرانی نہ ہو تو تم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کروگے۔ یہ سن کر لوگ واپس ہوجاتے ہیں لیکن اس کہانی میں ایک نگہبان اپنے سے اعلی نگہبان کو کس طرح چکمہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور پھر وہی اعلی نگہبان اپنے فرائض کو ایمانداری سے انجام دینے کے بجائے کیسے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے۔ آج کی اسی سچائی پر مشتمل یہ افسانچہ لکھا گیا ہے۔لطیف پیرایۂ بیان قاری کے ابتسام میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
’اور پھر یوںہوا۔۔۔‘ جونا گڈھ کے جنگل میں آدم خور شیر کے شکار کی کہانی۔ کہانی کے انجام کو خواب کی جگہ حقیقی رکھا جاتا تو شاید کہانی مزید دلچسپ ہو سکتی تھی۔
کتاب کے بیک ٹائٹل پر دو اساتذۂ ادب جناب سلام بن رزاق اور شموئل احمدکی مختصر ہی سہی لیکن جامع دستاویزات تنویر تماپوری کے افسانوں کو اعتبار بخشتی ہیں۔افسانوی مجموعہ کی ترتیب وتزئین (میر صاحب حسن، ایڈیٹر تریاق) ، ایڈیٹنگ (حنیف قمر) اور پروف ریڈنگ (مسعود علی تماپوری)میں باوقار شخصیات کے منسلک ہونے کے باوجود پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں، جووجدان پر گراں گزرتا ہے ۔وسائل کو وسائیل، مسائل کو مسائیل (ص:۱۱۲) معائنہ کی جگہ معائینہ، لائق کی جگہ لایق (ص:۶۴)او ر آزمائش کی جگہ آزمائیش(ص:۶۶)جیسی املے کی دسیوں غلطیاں تو ہیں ہی لیکن انگریزی الفاظ کا املا اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس میں مقامیت کا رنگ زیادہ ابھر گیا ہے ، مثلاََ: ’ اسکیننگ‘ کی جگہ اسکاننگ، ’میپ‘ کی جگہ میاپ (ص: ۴۶) اور’لانچنگ پیڈ‘ کی جگہ ’پیاڈ‘(ص: ۵۵)وغیرہ ۔
۱۴۴؍ صفحات پر مشتمل کتاب کے ابتدائی ۴۴؍صفحات میں تنقیدی و توضیحی تحریریںہیں، اس کے بعد افسانے شروع ہوتے ہیں۔اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کہاں سے شروع کرنا چاہے گا۔پروفیسر عبدالرب استاد(پیش لفظ)،میرق مرزا(تنویر تماپوری کے افسانوں کے انفراد و اختصاص)، ڈاکٹر سلیم خان(تنویر تماپوری کا منفرد اندازِ بیان)، ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن(تنویر احمد کا افسانوی فن)اور نورالدین غوری (اردو افسانہ کا نیا رئیس اور کیمیا گر تنویر تماپوری)جیسے مقبول صاحبِ قلم کے مضامین کتاب کے اعتبار میں اضافہ تو کر رہے ہیں لیکن اصولی طور پر ایک مضمون کے سوا بقیہ کتاب کے آخری صفحات میں ہوتے تو قاری پر باہری فکر کا دباؤ کم رہتا۔
ان سب کے باوجود افسانہ نگار کی زبان اور قوت بیان کی تعریف کی جائے گی ۔لہجہ با لکل نیا اور جدت لئے ہوئے ہے۔ نثر میں نئے تجربات کو پالتی ہوئی ان کی تحریریں کچھ الگ تاثر دیتی ہیں۔ خاص کر انہوں نے منظر کشی اور حلیہ نگاری میں جو کمال دکھایا ہے، اسے اردو افسانے کی تاریخ میں دیر تک یاد رکھا جائے گا ، حلیہ نگاری کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔’کیمیا گر‘ میں جب وہ ’ایمان سالم‘ کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیںتو لکھتے ہیں:
’چیز تو وہ بھی نظر رکھنے لائق ہی تھی۔ دروازے سے استقبال تک کا راستہ اس لڑکی نے ریمپ پر کیٹ واک کے انداز میں پورا کیا۔
ملائی میں سیندور ملا رنگ، آنکھیں پیشہ ور قاتلوں کی جوڑی، سائز زیرو کے ساتھ لچک کا گٹھ جوڑ، چہرے پر ذہانت کی چمک، سلیقہ اور رکھ رکھاؤ
میں مہارت کا دخل، کل ملاکر وہ شامی نژاد عرب لڑکی اس وقت چاروں طرف سے اٹھنے والی نگاہوں کاایپی سنٹر تھی‘(ص: ۶۴)۔
اس خوبصورت تخلیق کو اردو افسانے کا قاری نہ صرف پڑھے گا بلکہ سنبھال کررکھنا بھی چاہے گا۔ممکن ہے تنویراحمد تماپوری کونظرِ ثانی اور سکنڈ ایڈیشن کے لیے کمربستہ ہونا پڑے۔ امید ہے افسانوی ادب سے محبت کرنے والے اس کتاب کا استقبال کریں گے۔