ارتقائی سائنس دانوں کے مطابق زمین پر زندگی کی ابتداء آج سے قریب ساڑھے تین ارب سال قبل ہوئی۔ اس وقت زمین پر درجہ حرارت بہت زیادہ تھا۔ ہوا میں آکسیجن بہت کم تھی اور زمین پر جا بجا لاوا بہہ رہا تھا۔ اس قدیم زمینی ماحول میں بجلی چمکنے سے سمندروں میں زندگی کیلئے ضروری حیاتیاتی مرکبات کا جنم ہوا۔ اور پھر اچانک کسی طرح ان بے جان مالکیولوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور پہلے خلیے کا جنم ہوا۔
چارلس ڈارون بھی زمین پر زندگی کی ابتداء کے بارے میں خاموش ہے لیکن اس کا یہ خیال تھا کہ قدیم زمینی سمندروں میں کسی طرح ایک خلیے کا جنم ہوا اور زمین پر موجود تمام زندگی اسی خلیے سے ارتقاء کے ذریعے پیدا ہوئی۔ چارلس ڈارون کے انہی خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1920 میں ایک روسی سائنسدان اوپارن اور ایک برطانوی سائنسدان ہالڈین نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ قدیم سمندروں میں بجلی چمکنے سے زندگی کیلئے ضروری حیاتیاتی مرکبات پیدا ہوئے جن سے بعد میں پہلے خلیے کا جنم ہوا۔
اوپارن اور ہالڈین کے مفروضے نے بہت سے ارتقائی سائنسدانوں کا دل موہ لیا لیکن 1950 کی دہائی تک یہ صرف ایک مفروضہ ہی رہا۔ 1953 میں ایک امریکی پی ایچ ڈی طالب علم سٹینلے ملر اور اس کے پی ایچ ڈی سپروائزر ہیرلڈ اورے نے کچھ گیسوں سے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ قدیم زمینی فضا میں پائی جاتی تھیں بجلی گزار کر کچھ نامیاتی مرکبات تیار کر لیے۔ ملر اور اورے کے تجربات نے ارتقائی سائنسدانوں میں خوشی کی نئی لہر پھونک دی۔ جلد ہی یہ تجربات حیاتیات کی تمام درسی کتابوں میں شامل کر لئے گئے اور دنیا کو بتایا گیا کہ سائنسدان زمیں پر زندگی کی ابتداء کے معمے کو حل کرنے میں تقریباً کامیاب ہوگئے ہیں۔
ملر اور اورے کے تجربات کو آج کل بھی آپ کو ارتقائی حیاتیات کی بہت سی کتابوں میں دکھایا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک عشرے سے زائد ہونے کو ہے کہ بہت سے ارضیاتی کیمیادان یہ مان چکے ہیں کہ ملر نے اپنے تجربات میں قدیم زمینی ماحول ٹھیک سے پیدا نہیں کیا۔ ویسا ماحول کسی تجربہ گاہ میں پیدا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس لئے ملر کے تجربات کا زندگی کی ابتداء کے معمے کے حل سے کوئی تعلق نہیں۔
اوپارن اور ہالڈین کے مفروضے کے مطابق زمین پر زندگی کی ابتداء کے وقت آکسیجن نہیں تھی۔ کیونکہ آکسیجن کی موجودگی میں یہ نامیاتی مرکبات تیار نہیں ہوسکتے۔ زندہ اجسام کو آکسیجن میٹابولزم کے لئے درکار ہوتی ہے جس سے وہ اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اسی لئے اوپارن اور ہالڈین نے اپنے مفروضے میں قدیم زمینی ماحول میں آکسیجن کی عدم موجودگی پیش کی اور یہی چیز ملر نے اپنے تجربات میں دکھائی۔
اورے کے مطابق زمین پر زندگی کی ابتداء کے وقت وہی گیسیں موجود تھیں جو کہکشائوں کے درمیان موجود دھوئیں کے بادلوں میں پائی جاتی ہیں۔ جب کوئی نیا سیارہ وجود میں آتا ہے تو اس کی فضا میں یہی گیسیں موجود ہوتی ہیں۔ جس سال ملر نے اپنے تجربات پبلش کئے اس سے ایک سال قبل یعنی 1952 میں یونیورسٹی آف شکاگو کے ایک طالب علم ہیریسن برائون نے اپنے تجربات کے نتیجے میں یہ نقطہ اٹھایا کہ زمین اپنی قدیمی فضا بہت جلد ختم کر چکی تھی۔ اس کے مطابق زمین پر زندگی کے ابتداء کے وقت وہ ماحول نہیں تھا جو اوپارن اور ہالڈین نے اپنے مفروضے میں پیش کیا۔ اگر اس وقت زمین پر وہ ماحول ہوتا تو آج بھی زمینی ماحول میں نوبل گیسوں کی مقدار آج کی مقدار سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہوتی۔
1960 میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک ارضیاتی کیمیادان ہینرچ ہالینڈ نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ زمین کا قدیمی ماحول کہکشائوں کے درمیان پائی جانے والی گیسوں سے نہیں بنا تھا بلکہ زمین کی قدیمی فضا میں وہ گیسیں موجود تھیں جو لاوے سے نکلتی ہیں۔ چونکہ لاوے سے نکلنی والی گیسوں میں سب سے زیادہ مقدار پانی کے بخارات کی ہوتی ہے اس لئے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس وقت زمین کے ماحول میں آکسیجن موجود تھی۔ کیونکہ پانی کے بخارات ایسے ماحول میں فوٹو ڈسوسی ایشن کے ذریعے ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین پر زیادہ تر آکسیجن پودوں کی فوٹوسنتھسز سے پیدا ہوتی ہے لیکن فوٹو ڈسوسی ایشن کی وجہ سے آکسیجن کی کافی مقدار فوٹو سنتھسز کے شروع ہونے سے قبل بھی موجود تھی۔
چونکہ زمین کے قدیمی ماحول میں آکسیجن کی موجودگی کے کافی شواہد موجود ہیں اس لئے اوپارن اور ہالڈین کا مفروضہ ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کے وقت آکسیجن نہیں تھی۔
مزید یہ کہ ملر اور اورے کے تجربات سے بے جان چیزوں سے بے جان مرکبات ہی حاصل ہوئے۔ ان سے زندگی پیدا نہیں ہوئی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کا معمہ ابھی بھی ارتقائی سائنسدانوں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...