بحرہند میں ایک بڑا کشش ثقل کا سوراخ ہے، اور ہم آخر کار جان سکتے ہیں کہ یہ کیوں وہاں پایا جاتا ہے۔
کشش ثقل کی کشش سطح زمین تقریبا ہر جگہ پر ایک ہی مستقل قیمت رکھتی ہے، لیکن ہمارا سیارہ ایک یکساں دائرہ یا کروی نہیں ہے۔ یہ مختلف جگہ گانٹھوں اور ٹکڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ہماری زمین دراصل مختلف کثافت کی ارضیات کے ساتھ قریبی کمیتوں پر طاقت کی مختلف ڈگریوں کے ساتھ ایک غیر منقولہ نقشہ جسے جیوائڈ geoidکہا جاتا ہے ،پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ جیوائڈ دراصل ایک فَرضی سطح ہوتی ہے جو سمندر کے اُوپَر اوسط سطح سمندر اور براعظموں کے نیچے تک اِس کے پھیلاوٴ پَر مُنطبِق ہو ۔ ایسی سطح سے بنی ہوئی ہندسی شکل درصل جیوائڈ کہلاتی ہے۔ اکثر زمین کو ایک پرفیکٹ گول یا کرہ کے بجائے جیوائڈ شکل میں نقشوں میں دکھایا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے حالیہ یہ مشاہدہ کیا کہ بحر ہند کی نیچے اتاہ گہرائی میں، زمین کی یہ کسی چیز کو اپنے مرکز پر کھینچنے کی طاقت انتہائی نچلی سطح تک کمزور ہو جاتی ہے۔ اس عمل کا سبب سطح سمندر سے تقریباً 30 لاکھ مربع کلومیٹر کا ایک بڑا کشش ثقل ‘سوراخ’ سمجھا جاتا ہے جہاں سمندری فرش ایک وسیع دباؤ میں ڈوب سا جاتا ہے۔یہ مظہر زمین پر سب سے گہری اور مستقل کشش ثقل کی بے ضابطگیوں میں سے ایک ہے،اور اس کی موجودگی کو تھوڑی دیر کے لیے یہ حوالہ دیا گیا ہے ہے۔ بحری جہاز پر مبنی سروے اور سیٹلائٹ کی پیمائشوں نے بہت پہلے لیکن یہ انکشاف کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے بالکل قریب سمندر کی سطح ،جو مناسب طور پر بحر ہند کے جیوائڈ پر مشتمل ہے ، ایک کمزور اور آس پاس کی ثقلی کشش کی ‘اونچائیوں’ کے درمیان ایک کشش ثقل کی جنگ کی وجہ سے گر گئی ہے۔
اس نسبتی ثقلی کی کمزوری کی کوئی ظاہری وجہ کبھی اس سے پہلے واضح نہیں ہو سکی۔ اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے دو محققین کا خیال ہے کہ انہیں سیاروں کے مظاہر کی اقسام کا بہتر اندازہ ہے جو اس مظہر میں شامل ہو سکتے ہیں۔
“یہ تمام ماضی کے مطالعات موجودہ دور کی ان بظاہر ثقلی بے ضابطگیوں کو صرف دیکھتےیا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس بات سے سروکار نہیں رکھتےتھے کہ یہ جیوڈ لو کیسے وجود میں آیا،” ماہر ارضیات دیبنجن پال Debanjan Pal اور عطری گھوش Attreyee Ghosh اپنے ایک شائع شدہ مقالے میں وضاحت کرتے ہیں، جو ان کے نئے کام کرنے والے مفروضے کو بیان کرتا ہے۔اسی مفروضے کے تحت یہ دونوں سائنسدان بحر ہند میں واقع اس ثقلی سوراخ ہونے کی وجوہات کی بابت بتاتا ہے۔
ان کے خیال میں اس ثقلی بے ضابطگی کا جواب زمین کی پرت کے نیچے 1,000 کلومیٹر (621 میل) سے زیادہ ایک مقام کی وجہ سے ہے، جہاں ایک قدیم سمندر کی ٹھنڈی، گھنی باقیات تقریباً 30 ملین سال پہلے افریقہ کے نیچے ایک ‘ چٹانی سلیب کے قبرستان’ میں ڈوب گئی تھیں، جو گرم پگھلی ہوئی چٹان کو اسکے اوپر ہلا رہی تھیں۔لیکن ان کے نتائج، جو کہ کچھ کمپیوٹر ماڈلز کی بنیاد پر ہیں،اس کم ترین ثقلی جیوائڈ کی اصلیت کے بارے میں ایک بھڑکتی بحث کو طے کرنے کا کوئی امکان نہیں رکھتیں ہیں – کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ان سائنسدانوں کی طرف سے مزید ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جاتا، جو اس جگہ تحقیقات میں مصروف ہیں۔
2018 میں، ہندوستان کے نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشین ریسرچ کے سائنس دانوں کا ایک جہاز اس علاقے کا ایک سمندری نقشہ بنانے کے لیے، اس ڈیفارمیشن زون کے سمندری فرش کے ساتھ سیسمو میٹر کی ایک تار کو تعینات کرنے کے لیے نکلا۔اب تک سمندر سے دور ہونے کی وجہ سے، اس سے پہلے اس علاقے میں زلزلے سے متعلق بہت کم ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس 2018 کے سروے کے نتائج نے بحر ہند کے نیچے پگھلی ہوئی چٹان کے گرم ایک مرغ کی کلغی کی طرح کے بڑے اسٹرکچر کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا اور کسی نہ کسی طرح اس کے بڑے نشان میں ایک حصہ ڈالا۔
لیکن اس کھوج کے ابتدائی مراحل میں اس کم جیوائڈ کی نقشہ بندی کی تعمیر نو کے لیے ایک طویل مدت کی آبزرویشن کی ضرورت تھی۔ چنانچہ پال اور گھوش نے یہ ماڈلنگ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر جیوائیڈ کی تشکیل کا پتہ لگایا کہ کس طرح ٹیکٹونک پلیٹیں پچھلے 140 ملین سالوں کے دوران زمین کے گرم، نرم و چپچپا پن جیسے ایک مٹیرئیل پر انحصار کرتی ہیں۔اس وقت، یعنی 140 ملین سال پہلے، برصغیر کی ہندوستانی ٹیکٹونک پلیٹ اپنا شمال کی طرف مارچ شروع کرنے کے لیے گونڈوانا (ایک قدیم سپر براعظم )سے الگ ہونا شروع کر رہی تھی۔ جیسے جیسے ہندوستانی پلیٹ آگے بڑھی، ایک قدیم سمندر کا سمندری تہہ جسے Tethys Sea کہا جاتا ہے زمین کے پردے میں دھنس گیا، اور بحر ہند اس کے پیچھے کھل گیا۔
پال اور گھوش نے ٹیکٹونک پلیٹ موشن اور مینٹل موومنٹ کے ایک درجن سے زیادہ کمپیوٹر ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے سمیولیشنز چلائے، سمندری نچلے حصے کی شکل کا موازنہ کرتے ہوئے ان ماڈلز کی پیشین گوئی اس چٹانی ڈینٹ کے مشاہدات سے کی گئی، جو انہیں بحر ہند کے گہرائیوں سے حاصل ہوا تھا۔ان ماڈلز جنہوں نے بحر ہند کے نچلے حصے کو اس کی موجودہ شکل میں دوبارہ پیش کیا ان سب میں ایک چیز مشترک تھی: گرم، کم کثافت والے میگما کے نچلے حصے کے نیچے لہراتے ہوئے یہ plumesیعنی ایک مرغی کی کلغی نما اسٹرکچر، اور کچھ ایک مخصوص مینٹل ڈھانچے کے علاوہ اگر وہ کافی اوپر اپنی ثقلی قدر کو بڑھیں بھی، وہ پیمانے ہیں جس نے اس کمزور جیوائڈ کو تخلیق کیا ہے۔ پال اور گھوش نے اپنے ماڈلز سےیہ اندازہ لگایا۔”مختصر طور پر، ہمارے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ مشاہدہ شدہ کمزور جیوائڈ کی شکل اور طول و عرض سے مماثل ہونے کے لیے، ان کلغی نما اسٹرکچر کو درمیانی مینٹل گہرائی تک آنے کے لیے کافی اچھال کی قوت کا ہونا ضروری ہے،” سائنسدانوں کا یہ جوڑا اپنے پیپر میں لکھتا ہے۔
ان میں سے پہلا اسٹرکچر تقریباً 20 ملین سال پہلے بحر ہند کے ایک کمزور جیوائیڈ کے جنوب میں نمودار ہوا اور پرانے ٹیتھیس Tethys سمندر کے نچلے مینٹل میں ڈوبنے کے تقریباً 10 ملین سال بعد، جیسے جیسے یہ اسٹرکچرز لیتھوسفیئر کے نیچے پھیلے اور جزیرہ نما ہند کی طرف بڑھے، کم شدت اختیار کرتا گیا۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے اس حالیہ تحقیق کی نتائج، گھوش کے 2017 کے ماڈلنگ کے پچھلے کام کے عناصر سے مطابقت رکھتے ہیں، سائنسدانوں کی یہ جوڑی بتاتی ہے کہ Tethys سمندری فرش کے نچلے مینٹل میں ڈوبنے کے بعد مشہور ‘افریقی ابھار (ایک مشہور جیولاجیکل ساخت جو براعظم افریقہ کے قریب ہے’ کو مزید بگاڑنے کے بعد ان قدرتی کارواوئیوں کی چغلی کھاتے اسٹرکچرز کو بڑھا دیا گیا تھا، اور یہ اسطرح واضح اور نمایا ں ہوگیا ۔
تاہم، کچھ محققین جو اس کام میں شامل نہیں ہیں، اس بات پر قائل نہیں ہیں جو ان سائنسدانوں کی جوڑی نے اپنے مقالے میں پیش کی۔ نیو سائنٹسٹ جریدہ کویہ محققین بتاتے ہیں کہ ابھی تک کوئی واضح سیسموگرافک ثبوت نہیں ملا ہے کہ یہ مصنوعی پلمز دراصل بحر ہند کے نیچے موجود ہیں جو اس کمزور جیوائیڈ کے بننے کی ممکنہ وجوہات ہیں۔اس طرح کے جدید اعداد و شمار جلد ہی منظر عام پر آ سکتے ہیں، اور واقعی ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں کوئی جلدی نہیں ہے – توقع ہے کہ اس کمزور ثقلی جیوائیڈ کا یہ سوراخ مزید لاکھوں سالوں تک برقرار رہے گا۔ اور اس پر تحقیق پر ہم اپنے سیارے کے مزید راز کھولیں گے۔
The study has been published in Geophysical Research Letters.
سورس آرٹیکل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...