آج جب میں رُوزویلٹ پارک کی شبنم سے لدی ہوئ گھاس پر ننگے پاؤں چل رہا تھا تو ایسا محسوس ہوا کہ چودہ طبق مجھ پر روشن ہو گئے ۔ اکثر پر تو سات طبق عیاں ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں پر چودہ بھی ۔ مشہور جرمن فلاسفر Nietzsche جب Alps پر نکلا تھا اور اکثر بھوکا رہتا تھا اور اس suffering کو خوشی گردانتا تھا ، دراصل اس کی وہ خوشی ان طبق روشن ہونے کی ہوتی تھی ۔ وہی بُدھا کا نروانہ تھا ، بابزید بسطامی کا جلال اور رومی کا عشق ۔
پچھلے ہی مہینے John Kaag امریکہ کی میساچُوسٹ یونیورسٹی کہ فلاسفی کہ پروفیسر نے Nietzsche پر کتاب لکھی ہے جو کہ اس کہ اس Alps کہ سفر کا فلسفہ بیان کرتی ہے ۔ کاگ بھی Alps پر گیا ، اسی سفر پر جو نٹزشے نے کیا ، اسی لیے کتاب کا نام
Hiking with Nietzsche
رکھا ۔ کاگ نے یہ سفر دو دفعہ کیا ایک جب وہ انیس سال کا تھا اور دوسرا سترہ سال بعد اپنی بیوی اور بچہ کا ساتھ ۔ یہ کتاب مجھے اس حساب سے بہت دلچسپ لگی کہ یہ سارا معاملہ تشریح یا interpretation اور خاص زاویوں سے چیزیں دیکھنے کا ہے ۔ جو اس نے ۱۹ سال کی عمر میں نٹزشے کہ بارے میں ادھر جا کر محسوس کیا وہ ۳۶ سال کی عمر میں بیوی اور بچہ کہ ساتھ جا کر مختلف لگا ۔ دونوں سفروں میں نٹزشے نے جو سچ تلاش کیا کاگ کہ سفر بھی اسی کہ لیے تھے اور دونوں کا مقصد یہ تھا کہ کیا نٹزشے کی فلاسفی اور سچ آج کہ اکیسویں صدی کہ انسان کہ لیے بھی اتنا ہی valid ہے جتنا سو سال پہلے؟ انہیں بنیادوں پر میں ان لوگوں پر بہت تنقید کرتا ہوں جو محمد صلی و علیہ وصلم کے دور کہ اعمال کو محض اس لیے ناقابل عمل کہ دیتے ہیں کہ یہ ۱۴۰۰ سال پہلے کیے گئے اعمال ہیں ۔ اسُ وقت حالات مختلف تھے آج مختلف ۔میرا تجربہ ، مطالعہ اور سوچ ہمیشہ ہے کہ human consciousness
وہی رہی ہے ۔ وہ نہیں بدلی اور نہ بدل سکتی ہے ۔ آپ نے زندگی گزارنے کہ طور طریقے بدل لیے، جسے کاگ کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ۔
“Nietzsche knew that if philosophy can serve as therapy , it’s by delivering an electric jolt to the soul
جسے رومن سینیٹر بورائیس کہتا ہے
“Aim of philosophy
is not to seek the truth but rather to provide relief “to show the fly the way out of the fly bottle”
کیا خوبصورت تجزیہ ہے ۔ اسی لیے اسلام کو دین فطرت کہا گیا اور اسی کو علامہ اقبال نے خودی کی کن فیکون کہا ۔ اور اسی کو ، کاگ نے دوسرے سفر کی واپسی کہ بعد امریکہ آ کر ان لفظوں میں بیان کیا ۔
“How , exactly , we should go about steeling ourselves in the face of decadent imperatives of a consumerist , conformist world”
دراصل نٹزشے کا مقصد سرینڈر ضرور تھا مادہ پرستی کہ وجود سے ، لیکن منفی انداز کا نہیں ایک مثبت نفی ۔ وہ ایک ایسی suffering کی بات کرتا ہے جس اصل منزل ، نروانہ اور ecstasy ہے ۔ اس کی زندگی کی پہلی کتاب
Birth of tragedy
بھی اسی کہ اردگرد گھومتی ہے ۔ جسے کاگ کچھ یوں بیان کرتا ہے ۔
“Nietzsche counsels us to celebrate our suffering because he concludes that a celebration of life needn’t entail self-immolation , but it necessarily entails difficulty. The self does not lie passively in wait for us to discover it . Self hood is made in the active , ongoing process”
جس کہ لیے کاگ ایک جرمن proverb کا حوالہ دیتا ہے جس کی انگریزی to become ہے ۔ اور کاگ اپنا بیانیہ اس طرح مکمل کرتا ہے
Things must suffer , fo dark , perish before they live again. This is not an escape or respite from life but rather it’s realisation ..
یہی سچ ہے universal truth بھی ، اور اسی سچ پر دنیا قائم ہے ۔ یہی evolution ہے جو اس دائرے کو مکمل کرتا ہے اور بہت سارے دائروں اور cycles کہ ساتھ ملا دیتا ہے ۔ اور زندگی اصل میں ختم نہیں ہو گی بلکہ ایک اور دائرہ میں چلی جائے گی ۔
جیسے کہ William T Vollmannاسے اپنی کتاب carbon ideologies
میں بیان کرتا ہے کہ ماحول کی آلودگی سے آپ بعض نہیں آ سکتے لہٰزا فکر نہ کریں ۔ یہ ایک اور existence کو جنم دے گی ۔ والمین بہت مشہور امریکی ناولسٹ ، جرنلسٹ اور کہانی نویس رہا ہے ۔ اس کی جنگوں پر رپورٹس بہت مشہور ہوئیں ۔ یہ ایک پہلہ موقع ہے کہ ٹرمپ کی طرح ایکnon scientist
نے ماحول کی آلودگی کو necessary evil کہ کر بیان کیا ہے ۔ کوئ اس کی کتاب چھاپ نہیں رہا تھا ۔ دو volumes میں ہے ، پہلے volume کا تو نام ہی no immediate danger رکھا اور دوسرے کا
No good alternative
والمین کیا خوبصورتی سے کہتا ہے کہ
“Planet’s atmosphere will change but not human nature”
اور مزید کہتا ہے
the demand problem , the growth problem, the complexity problem , the industry problem, the political problem , the generational – delay problem , the denial problem will continue ..
یہ بہت تلخ حقیقت ہے ماحول کی آلودگی کہ بارے میں ، کل لاہور کا گورنر ہاؤس پبلک کہ لیے کھولا گیا اور جب بند کیا گیا تو جگہ جگہ کیاریوں میں باغ میں کچرا ہی کچرا جسے والمین کہتا ہے ۔
“The story of climate change hangs on human behaviour, not geo physics.“
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے ۔ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ چیزیں طے ضرور ہیں لیکن ہم اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں اگر چاہیں
جیتے رہیں بہت خوش رہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...