یہ زمین کتنی پرانی ہے؟ اس کا کسی بھی طریقے سے سب سے پہلا اندازہ جیمز اوشر نے لگایا۔ انہوں نے اولڈ ٹیسٹامنٹ سے اہم واقعات نکالے۔ ان کی کڑیاں ملاتے ہوئے وہ دنیا کے آغاز تک پہنچ گئے۔ بڑی محنت سے کی گئی تحقیق سے انہوں نے دنیا کے آغاز کی تاریخ نکال لی۔ یہ بروزِ اتوار 25 اکتوبر 4004 قبلِ مسیح کی شام قرار نکلی۔ یہ سترہویں صدی تھی۔ پوپ نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی اور دنیا کی عمر چھ ہزار سال قرار پائی۔ اوشر کے پاس کوئی اور طریقہ تھا ہی نہیں۔
دنیا میں ایک گروہ ابھی بھی زمین کی یہی عمر مانتا ہے (پوپ نہیں)۔ ان کو ینگ ارتھ کری ایشنسٹ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی کو یہ سننے میں مضحکہ خیز لگے اور وہ ینگ ارتھ کری انشنسٹس کو بتانا چاہے کہ اس کا تعلق تو خود بائبل سے نہیں تو ذرا سخت الفاظ سننے کے لئے تیار رہیے گا)۔
لارڈ کیلون نے یہ عمر درجہ حرارت کے حساب سے نکالی۔ یہ فزیکل قوانین سے نکالے جانا والا پہلا اندازہ تھا۔ زمین کی عمر دو کروڑ سال نکلی۔ یہ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل تھا۔ یہ خیال بھی درست نہیں تھا کیونکہ اس وقت ہمیں ریڈیو ایکٹیویٹی کا علم نہیں تھا۔
پہلے ڈارون اور جان جالی نے اس پر اعتراض اٹھایا کہ زمین اتنی کم عمر نہیں ہو سکتی۔ بیکٹیریا سے آج تک کا سفر اتنی مختصر مدت میں ہونا ناممکن ہے۔ اس کے بعد ہٹن نے جیولوجی کے نقطہ نگاہ سے۔ اتنی کم عمر میں یہ پہاڑ اور وادیاں نہیں بن سکتیں۔
ریڈیو ایکٹیویٹی پر علم آگے بڑھ جانے کے بعد رتھرفورڈ نے الفا ڈیکے کی تفصیل معلوم کی۔ الفا ڈیکے میں ہیلئم بنتا ہے۔ چٹانوں میں پھنسا ہیلئم صرف ریڈیو ایکٹیویٹی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ رتھرفورڈ نے ہیلئم کے بلبلوں کی مدد سے یہ عمر نکالی۔ جب اس کا اعلان انہوں کے کیا، اس وقت لارڈ کیلون ان کے سامعین میں بیٹھے تھے۔ نئی عمر پچاس کروڑ سال نکلی۔ یہ پہلے سے پچیس گنا زیادہ تھی۔ یہ بھی درست نہیں تھی۔
اس کے بعد بیٹرام بولٹ وڈ، آرتھر ہومز اور گرلنگ نے مختلف چٹانوں کے تجزیوں سے اس کی عمر کے اندازے لگائے۔ اس وقت تک سپیکٹرومیٹری کی تکنیک بھی ایجاد ہو چکی تھی۔ لیکن اس پر انتہائی باریک بینی اور تفصیل سے کام کلئیر پیٹرسن نے کیا اور زمین اور شہابیوں کی مدد لیتے ہوئے اس کی عمر چار ارب پچپن کروڑ سال کیلکولیٹ کی۔ (تفصیل نیچے لنک میں)
ستر کی اپالو مشنز سے لائی گئی چٹانوں کی ڈیٹنگ سے ان کی عمر بھی ساڑھے چار ارب سال نکلی۔
اب تک بہت سے شہابیوں کا تجزیہ ہو چکا ہے اور پیترسن کے اندازے کی غلطی کی رینج کم ہو چکی ہے۔ پیٹرسن کے اندازے میں غلطی کی رینج تیس کروڑ سال تھی، اب یہ دو کروڑ سال تک آ چکی ہے۔ ان کئی شواہد کی آپس میں ایک دوسرے سے تصدیق سے اب ماہرینِ ارضیات زمین کی عمر کے تخمینوں کے بارے میں زیادہ پراعتماد ہیں۔
کیا یہ اندازہ غلط ہو سکتا ہے یا ہمیں اس پر سو فیصد بھروسہ ہے؟ کئی طریقوں سے تصدیق کے بعد اعتماد تو زیادہ ہے لیکن سو فیصد نہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ کوئی اہم چیز ہم مس کر رہے ہوں۔ ہمیں مستقل میں پتہ لگے کہ ہم چند کروڑ برس آگے یا پیچھے ہیں، ہاں، ہمیں اس پر سو فیصد اعتماد ہے کہ غلطی جو بھی ہو، لارڈ کیلون یا رتھرفورڈ کے تخمینے غلط تھے اور ہاں، یہ بھی کہ زمین چھ ہزار سال پہلے بروزِ اتوار نہیں بنی۔ کیونکہ علم کا سفر صحیح تر کی جانب ہوتا ہے۔
اوشر کرونولوجی پر