زمین جس پر ہم رہتے ہیں دراصل ایک گھومتا انگارہ ہے۔ کیسے؟
زمین کی کئی تہیں ہیں۔ ہم جس اوپری تہہ پر چلتے ہیں، جہاں زندگی ہے، جہاں عمارات ہیں، گھر ہیں، سمندر ہیں اس تہہ کو کرسٹ کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مٹی، ریت، پانی، پہاڑ، چٹانوں سے بنی ہے۔ اس اوپری تہہ کو کرسٹ کہتے ہیں۔ کرسٹ کی اوسط موٹائی 40 کلومیٹر ہے۔۔کہیں کہیں یہ 5 کلومیٹر ہے تو کہیں 70 کلومیٹر ۔کرسٹ دو طرح کی ہے۔ براعظمی کرسٹ اور بحری کرسٹ۔ برا اعظمی کرسٹ براعظموں کے اوپر ہے اور بحری کرسٹ سمندروں کے نیچے۔
کرسٹ ٹیکٹانک پلیٹس میں تقسیم ہے جو پگھلی چٹانوں پر تیر رہی ہے۔ زمین پر زلزلے اور زمین کے بر اعظم ان پلیٹس پر ہیں اور مسلسل حرکت میں ہیں، ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور زلزلے بھی اسی وجہ سے آتے ہیں۔
پگھلی چٹانیں جن پر یہ پلیٹس تیرتی ہیں دراصل زمین کی دوسری تہہ یعنی مینٹل کا اوپری حصہ ہیں۔ مینٹل کی اوپری تہہ یعنی اپر مینٹل 670 کلومیٹر موٹی ہے۔ جبکہ مکمل مینٹل کی تہہ کی موٹائی 2890 کلومیٹر ہے۔ یہ زمین کا تقریباً 84 فیصد حصہ بناتی ہے۔ مینٹل کی نچلی تہہ کی موٹائی 670 کلومیٹر سے لیکر 2900 کلومیٹر تک نیچے ہے۔
مینٹل سے گرم اور پگھلا مادہ اوپر کی طرف جبکہ ٹھنڈا مادہ نیچے کیطرف جاتا ہے۔ یہ لاوا اور پگھلی چٹانیں ہوتی ہیں۔ اور اسکا درجہ حرارت 2630 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔یہاں آپکو زیادہ تر میگنشیم اور آئرن سے بھرے سیلیکیٹس ملیں گے۔
مینٹل کے نیچے زمین کو کور ہے- کور کی اوپری تہہ جسے آوٹر کور کہتے ہیں یہ مائع حالت میں ہے اور اسکی موٹائی 2092 کلومیٹر ہے۔ کور کی اوپری اور نچلی تہہ لوہے اور نِکل کی بنی ہے ۔ اسکا درجہ حرارت 5 ہزار ڈگری تک ہوتا ہے۔ زمین کی مقناطیسیت دراصل اس کور میں اُبلتے لوہے اور نِکل کے کرنٹ کے باعث ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...