آج سے دو ارب سال پہلے، زمین بہت مختلف جگہ تھی۔ اس وقت کے سمندر آج کی زیادہ تر زندگی کے لئے ناموزوں تھے۔ کیونکہ ان میں آکسیجن بہت ہی کم تھی جبکہ سلفر بہت زیادہ تھی۔ خشکی پر زیادہ زندگی نہیں تھی۔ صرف خوردبینی مائیکروب تھے جیسا کہ سائینوبیکٹیریا اور شاید لائیکن۔ زمین کے اندر درجہ حرارت زیادہ تھا۔
اور اس وقت کے جانداروں کے لئے بھی یہ کچھ بورنگ جگہ تھی۔ موسم بہت مستحکم تھا۔ گلیشیر کی حرکات نہیں تھیں۔ سورج آج کے مقابلے میں پانچ سے اٹھارہ فیصد مدہم تھا۔ ان مائیکروب کے نیچے چٹانیں بھی خاصی مستحکم تھیں۔ جدید پلیٹ ٹیکٹانکس (بالائی تہہ کی پلیٹوں زمین کے مینٹل پر حرکت) کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
مینٹل اس عمل کے لئے بہت گرم تھا۔ اس نے برِاعظمی پلیٹوں کو ایک سپربرِاعظم کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ پلیٹیں پتلی تھیں۔
زمین کا یہ وقت اس قدر مستحکم تھا کہ ایک وقت میں ماہرینِ ارضیات اسے “بورنگ بلین” (بور کر دینے والے ایک ارب سال) کہتے تھے۔ یہ وقت ایک ارب اسی کروڑ سال قبل سے لے کر اسی کروڑ سال قبل کے درمیان کا تھا۔ لیکن اسے بورنگ سمجھنا ٹھیک نہیں۔ اسی نے جدید پلیٹ ٹیکٹانکس کی بنیاد رکھی اور پلیٹ ٹیکٹانکس نے زندگی کے عروج کی اس صورت کی، جس سے ہم واقف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پلیٹ ٹیکٹانکس کا سائیکل متحرک ہے۔ زمین کی بالائی تہہ کی پلیٹیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔ ان کے ٹکرانے سے پہاڑ بنتے ہیں۔ جب یہ الگ ہوتی ہیں تو اتھلے سمندر وجود میں آتے ہیں۔ جب ایک پلیٹ دوسرے کے نیچے پھسل جاتی ہے تو آتش فشاں۔ یہ عمل زمین کے سب سے نمایاں فیچرز کا ذمہ دار ہے، جس میں کوہِ ہمالیہ کا سلسلہ، افریقہ کی رِفٹ وادی، بحرالکاہل کا رِنگ آف فائر۔ یہ عمل اتنا اہم ہے کہ ہمارے لئے تصور کرنا محال ہے کہ اس سے پہلے ہمارا سیارہ کیسا ہوتا ہو گا۔
اس کو معلوم کرنے کے لئے ہمیں اس وقت میں جانا پڑے گا جب زمین اپنی تشکیل کے بعد سیٹل ہو رہی تھی۔ یہ تین ارب سال پہلے کا آرکین دور تھا۔ ماہرینِ ارضیات کے لئے بدقسمتی یہ ہے کہ پتھروں کا ریکارڈ subduction کی وجہ سے مسلسل ری سائیکل ہوتا رہتا ہے۔ اس عمل میں چٹانوں کی ایک تہہ دوسرے کے نیچے چلی جاتی ہے اور مینٹل میں جا کر پگھل جاتی ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت قدیم چٹانیں نایاب ہیں۔ کیونکہ توڑ پھوڑ، ٹکراوٗ اور کٹاوٗ جاری رہتا ہے۔ تاہم آرکین دور کی چٹانیں بھی موجود ہیں جو زمین کی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں۔ شمالی امریکہ، مشرقی یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا کے کئی مقامات پر تین ارب سال سے زیادہ قدیم چٹانیں باقی ہیں۔ ان کی مدد سے اس معمے کو حل کیا جا سکتا ہے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس کا آغاز کب ہوا۔
اس کے لئے قدیم چٹانوں میں سب ڈکشن کے عمل کی علامات دیکھنا تھیں۔ اور اس تجزیے کی مدد سے آہستہ آہستہ سائنسدان شواہد کے ٹکڑے جوڑ کر کمپیوٹر ماڈلنگ کے ذریعے اس کی تصویر بناتے گئے جن سے آرکین دور کو سمجھنے میں مدد ملی۔
جیولوجسٹ چٹان کی معدنیات کے تجزیے سے بتا سکتے ہیں کہ یہ زمین کے کتنا نیچے تک گئی تھی اور کتنا گرم ہوئی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ 2.78 ارب سال پہلے یعنی آرکین دور کے آخری حصے میں، زمین کا لیتھوسفئیر (بالائی سو کلومیٹر کا حصہ) مصروف تھا۔ سپربرِاعظم ٹوٹ اور بن رہے تھے۔ پہاڑوں کے بننے کے عمل کے واقعات تھے اور میٹامورفزم (پتھروں کا حرارت اور پریشر سے تبدیل ہونا) جاری تھا۔
یہ پلیٹ ٹیکٹانکس کی طرح ہی لگتا ہے لیکن کیا یہ پلیٹ ٹیکٹانکس ہی تھا؟ یہ جدید پلیٹ ٹیکٹانکس سے مختلف تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کے مینٹل کا درجہ حرارت آج کے مقابلے میں 250 درجے زیادہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ زمین کی کرسٹ (بالائی تہہ) پتلی اور کمزور تھی اور اوون سے تازہ تازہ نکلے بسکٹ کی طرح جلد شکل خراب ہو جاتی تھی۔ سبڈکشن کا عمل زیادہ گہرائی تک نہیں جاتا تھا۔ اس وجہ سے اس کو پلیٹ ٹیکٹانکس نہیں کہا جاتا۔ لیکن ان ابتدائی حرکات نے لیتھوسفئیر میں پلیٹیں بنائیں۔ یہ پلیٹیں ایک جگہ پر اکٹھی ہو گئیں جس سے ایک بڑا سپربراعظم تشکیل پایا۔ یہ ایک 1.8 ارب سال پہلے بننے والا برِاعظم نونا تھا۔ اب بورنگ بلین کا آغاز تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندر میں آکسیجن کی کمی اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کی بہتات تھی۔ اور 1.6 ارب سال پہلے اس حالت کو یوزینیا کہتے ہیں جو زیادہ تر یوکاریوٹ (ایسے جاندار جن کے خلیوں میں نیوکلیس ہوتا ہے) کے لئے زہریلی تھی۔ خوردبینی زندگی، جیسا کہ آرکیا اور سائینوبیکٹیریا اس میں خوش تھے۔ سائینوبیکٹیریا فوٹوسنتھیسز کر سکتے تھے اور سمندر کی سلفر کو فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ جامنی اور سبز سلفر بیکٹیریا تھے جو چمکدار اور روشن رنگ کے تھے اور فوٹوسنتھیسز کرتے تھے۔ پانی میں ان کی آبادیاں قالین کی صورت میں بن جاتی تھیں۔ (ایسے بیکٹیریا اب بھی موجود ہیں)۔ اس دور میں زیادہ تر زندگی انہی آرکیا اور بیکٹیریا پر مشتمل تھی۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ زمین پر سب سے بدبودار وقت تھا۔ جیوبائیولوجسٹ (وہ سائنسدان جو بائیوسفئیر اور زمین کی فزیکل پراسسز کا مطالعہ کرتے ہیں) کا خیال ہے کہ اگرچہ یوکاریوٹ تعداد میں کم تھے لیکن ان میں پیچیدگی آنے کا بھی یہی وقت تھا۔ چین میں رویانگ گروپ کی چٹانوں میں یوکاریوٹ کے فاسل 1.7 ارب سے 1.4 ارب سال قدیم کے ہیں۔ یہ پانی میں رہتے تھے۔ زندگی جاری تھی اور پھل پھول رہی تھی لیکن سلفر والے پانی میں جراثیموں کے قالین اور دوسرے مائیکروب پر مشتمل تھی۔ زندگی کو زیادہ دلچسپ روپ دھارنے کے لئے ضرورت تھی کہ زمین پر کوئی بڑی ہلچل ہو۔ لیکن بورنگ بلین میں اتنی بڑی ہلچل نہیں ہوئی جو بڑا فرق لا سکے۔ پلیٹ ٹیکٹانکس کا پرانا طریقہ، جس میں معمولی سبڈکشن ہوتی تھی، جاری تھا۔ نونا کا برِاعظم روڈینیا بن چکا تھا۔ اس کی باہری پلیٹیں بڑی حد تک ساکن تھیں لیکن انہوں نے سرد ہوتے مینٹل میں غرق ہونا شروع کر دیا۔ 75 کروڑ سال پہلے روڈینیا نے ٹوٹنا شروع کر دیا۔ سرد مینٹل کا مطلب یہ تھا کہ پلیٹیں مسلسل پگھل کر واپس ایک دوسرے سے چپک نہیں رہی تھیں۔ اب وادیاں اور سبڈکشن زون بن سکتے تھے۔ گہری سبڈکشن شروع ہونے والے اس دور کو کئی جیولوجسٹ پلیٹ ٹیکٹانکس کا باقاعدہ آغاز کہتے ہیں۔
اس وقت کی چٹانوں میں وہ میٹامورفک معدنیات ملتے ہیں جو صرف بہت زیادہ پریشر پر بن سکتے تھے۔ اور یہ قدیم سبڈکشن کے عمل سے ممکن نہیں تھا۔
ٹیکٹانک موومنٹ تو شاید چار ارب سال کے قریب پرانی ہے لیکن گہری سبڈکشن مقابلتاً خاصی نئی ہے اور یہ وہ عمل ہے جس نے آج کی قابلِ رہائش زمین تخلیق کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روڈینیا جب الگ پلیٹوں میں ٹوٹا تو ایک دوسرے سے ٹکرائیں یا دور ہٹیں۔ جب دو پلیٹیں الگ ہوتی ہیں تو پھر سمندری رِج بنتی ہے۔ سمندر کے نیچے پہاڑی سلسلے جن سے لاوا نکلتا ہے اور سرد ہوتا ہے اور پلیٹوں کا حصہ بنتا ہے۔ اس عمل کو “سمندر کی تہہ کا پھیلنا” کہا جاتا ہے۔ آج یہ عمل دنیا کے کئی سمندروں میں جاری ہے۔ اور یہ ہائیڈروتھرمل ایکٹیویٹی تلاش کرنے کی بہترین جگہیں ہیں۔ جہاں پر پانی گرم اور تازہ سمندری تہہ سے ملتا ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کے اچھے مقامات ہیں۔ یہاں لوہے اور سلیکا کی بہتات ہوتی ہے جو زندگی کی کئی اقسام کے لئے اچھی کھاد ہیں۔ گھومتی پھرتی پلیٹیں کئی نئے habitat تخلیق کرتی ہیں اور کئی کو تباہ کر دیتی ہیں۔ اور زندگی کے تنوع کو تیزی سے بڑھاتی رہتی ہیں۔
محققین یہ دکھا چکے ہیں کہ اگر برِ اعظمی توڑ پھوڑ تیز ہو تو زندگی کے تنوع میں اضافہ تیزتر ہوتا ہے۔ برِاعظموں کی جگہوں سمندری پانی کی سرکولیشن، موسموں، کاربن سائیکل اور زمین کے دوسرے پراسسز پر اثرانداز ہوتی ہیں جن ہماری زمین کو شکل دیتے ہیں۔
اس بورنگ بلین میں زمین اپنی تشکیل کے بعد سیٹل ہو کر اگلی بڑی حرکت کے لئے تیار ہو رہی تھی۔
اور آج زمین واحد سیارہ ہے جہاں پر ہمیں اس طرز کے پلیٹ ٹیکٹانکس کے پراسس کی موجودگی کا علم ہے۔
یہ حرکت تباہ کن بھی ہوتی ہے لیکن اسی نے زندگی کو جراثیموں کی سٹیج سے آگے دھکیل کر آج کا سرسبز اور دلچسپ زندگی سے لبریز سیارہ تخلیق کیا ہے۔
یہ ویڈیو دیکھئے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...