"یہ ستاروں کا کھیل ہے، ہماری حالت ہمارے اوپر ستارے طے کرتے ہیں"
–شیکسپئیر، کنگ لئیر ایکٹ 4، سین 3
"بروٹس، خرابی ستاروں میں نہیں، خود ہم میں ہے"
–شیکسپئیر، جولیس سیزر، ایکٹ 1، سین 2
شیکسپئیر کی ان دو متضاد باتوں میں سے کونسی درست ہے؟ دونوں۔ ہماری حالت ستاروں کی طے کردہ ہے لیکن ستارے ہماری حالت طے نہیں کرتے۔ زمین و آسمان اور ہم خود ہمیشہ سے ایسے نہیں جیسے آج نظر آتے ہیں۔ اس نکتے تک پہنچتے اور اس کو ٹھیک طرح سمجھتے ہمیں بڑا وقت لگا۔ یہ مادہ اور ایٹم کہاں سے آئے؟ آج سے سو سال پہلے یہ سوال ہی سائنس کے دائرہ کار سے باہر تھا۔ 1930 کی دہائی میں بگ بینگ اور پھر چودہ ارب سال تک پہنچے لیکن اس وقت کی تفہیم نامکمل تھی۔ ایک سائنس دان کی کیلکولیشن کے مطابق بگ بینگ کے دس منٹ کے اندر تمام سب عناصر وجود میں آ چکے تھے۔ یعنی جتنی دیر میں آلو گوشت پکتا ہے، اتنی دیر میں کائنات کے عناصر تیار تھے۔ یہ تصویر غلط تھی۔ ان رازوں سے پردہ اگلی کچھ دہائیوں میں اٹھا۔
جرمن اور امریکی سائنسدانوں نے 1939 میں ثابت کیا کہ سورج میں ہائیڈروجن کے ایٹم ملکر ہیلیئم بنا رہے ہیں جس سے سورج گرم اور ہماری زمین زندہ ہے۔ ایک عنصر کے دوسرے میں بدل جانے کا یہ پہلا مشاہدہ تھا لیکن باقی عناصر کہاں سے آتے ہیں؟ اس کا پتہ اچھے ٹیلی سکوپ، آسٹرونومی کے ماڈلز اور سر کھجاتے سائنسدانوں نے لگایا۔
بہتر آلات سے ہونے والے بہتر مشاہدے سے پتہ لگا کہ نوجوان ستارے صرف ہائیڈروجن اور ہیلئیم سے بنے ہیں لیکن بوڑھے ستاروں میں درجنوں عناصر بھی ہیں۔ ٹیکنیشیم جو زمین پر قدرتی حالت میں نہیں پایا جاتا کیونکہ جلد ختم ہو جاتا ہے وہ بھی ان ستاروں میں تھا۔ اس مشاہدے سے پتہ لگا کہ عناصر ابھی کسی طریقے سے بن رہے ہیں اور تمام عناصر کائنات کے آغاز سے نہیں تھے۔
اس کی وضاحت 1957 کے مشہور پیپر سے ہوئی جو نیوکلئیوسنتھیسز پر تھا۔
ہائیڈروجن سادہ عنصر ہے۔ کائنات کے آغاز میں جب کوارکس سے پروٹون اور نیوٹرون بنے اور مادہ وجود میں آٰیا تو تقریبا سارا ہائیڈروجن کی صورت میں۔ ہر طرف ہائیڈروجن تھی۔ ہائیڈروجن ملتی گئی، ستارے بنتے گئے۔ بہت سا ماس اکٹھا ہو جانے سے گریویٹی کے انتہائی زیادہ پریشر کی وجہ سے فیوژن شروع ہوئی۔ وہ ری ایکشن جس سے آسمان میں ستارے روشن ہیں۔ ہائیڈروجن ہیلئیم میں بدلی۔ کاسمولوجی کے لئے یہ عمل اہم تھا۔ عناصر کے لحاظ سے نہیں۔ لیکن جب ہائیڈروجن جل جاتی ہے تو پھر اصل دلچسپ عمل شروع ہوتا ہے۔ ستارے زمانوں تک کسی ہائیڈروجن کا چارہ کھاتے رہے لیکن یہ چارہ ختم ہو جانے کے بعد تبدیل ہو گئے۔
اپنا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لئے اب ہیلیئم کے ایٹم ملنا شروع ہو گئے۔ لیتھیم، بورون، بیریلیم اور خاص طور پر کاربن ان کے اندر والے حصے میں بنے۔ ہیلئم کے جلنے سے اتنی توانائی نہیں ملتی اور ستارے اس نئے طریقے سے ایندھن جلد ختم کر دیتے ہیں یعنی اگے چند سو ملین سالوں میں ہی۔ چھوٹے ستارے اس وقت مر جاتے ہیں۔ کاربن کے بڑے ماس جو سفید بونے کہلاتے ہیں۔ بھاری ستارے (جو ہمارے سورج سے آٹھ گنا بھاری ہوں) لڑائی جاری رکھتے ہیں، کاربن کو چھ مزید عناصر میں بدل کر۔ یعنی میگنیشم تک کے عناصر پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس میں انہیں چند سو سال کی مزید زندگی مل جاتی ہے۔ لیکن ان سے بھی بڑے اور گرم ستارے، جن کے اندر کا درجہ حرارت پانچ ارب ڈگری ہوتا ہے، وہ ان عناصر کو بھی جلا سکتے ہیں اور چند ملین سال کی زندگی مزید جی لیتے ہیں۔ ان سے مزید عناصر پیدا ہوتے ہیں جو لوہے تک کے ہیں۔ اگر ایک ستارے میں لوہا مل جائے تو سائنسدان دوسرے عناصر دیکھنے کی اب ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لوہا ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس سے ہلکے تمام عناصر اس ستارے میں موجود ہوں گے۔
کیا لوہے کے ساتھ بھی اسی طرح کا عمل کر کے بھاری عناصر بنائے جا سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ لوہے تک کا انرجی کرو ہمیں بتاتا ہے کہ یہاں تک ایٹم ملانے سے توانائی پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے بعد ان نیوکلئیس کو ملانے کے لئے مزید توانائی درکار ہو گی۔ اس سے بھاری عنصر بنانا توانائی کے بھوکے ستارے کے کسی کام کا نہیں۔ لوہا ستارے کی قدرتی عمر کی آخری سٹیج ہے۔ لوہے کا ایٹامک نمبر 26 ہے تو پھر اس سے بھاری عناصر، یعنی کوبالٹ سے لے کر یورینیم، کہاں سے آئے؟ بڑی ستاروں کے موت کی آخری ہچکی سے۔ ایسے ستارے جن کا سائز سورج سے بارہ گنا زیادہ ہو، جاتے جاتے ان کا آخری دن یہ کام کرتا ہے۔
فیوژن کا عمل ختم ہو جانے سے ستارہ اپنا درجہ حرارت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ جیسے ٹھنڈا ہوتا گیس کا غبارہ سکڑتا ہے، یہ بھی سکڑنا شروع کر دیتا ہے۔ جتنا سکڑتا ہے، گریویٹی کا پریشر اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ چند سیکنڈ میں ہی ہزاروں میل سکڑ جاتا ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس کی کور میں مادہ اپنی حالت برقرار نہیں رکھ پاتا۔ الیکٹرون اور پروٹون دب کر نیوٹرون بنا دیتے ہیں۔ پھر یہ اس کولیپس سے ایک ری باؤنڈ لیتا ہے اور پھٹ جاتا ہے۔ یہ سپر نووا ہے جو اگلے ایک ماہ میں کئی ملین میل تک پھیل جاتا ہے اور اربوں ستاروں جتنی روشنی رکھتا ہے۔ اس دوران ان گنت پارٹیکل بے تحاشہ مومینٹم سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور لوہے سے آگے کی رکاوٹ عبور کر لیتے ہیں۔ اس طوفان میں عناصر جتنی شکلیں لے سکتے ہیں، لے لیتے ہیں، تمام عناصر اور ان کے تمام آئسوٹوپ بن جاتے ہیں۔ جو غیرمستحکم ہیں، وہ مستحکم میں بدل جاتے ہیں۔ ان کی موت سے بننے والے عناصر کے چڑیا گھر سے نئے روپ نکلتے ہیں۔ کائنات کے تمام عناصر اسی طرح بنے ہیں۔
ہماری کہکشاں اس کائنات کی ان گنت کہکشاؤں میں سے بس ایک ہے۔ سپرنووا شاذ ہی ہونے والا واقعہ لیکن اس کائنات کی عمر اور وسعت اتنی زیادہ ہے کہ صرف اس کہکشاں میں ستاروں کی موت کے یہ چکر کئی سو ملین بار ہو چکے ہیں۔ آج سے چار ارب ساٹھ کروڑ سال پہلے بھی ایک ایسا سپرنووا ہوا تھا۔ اس دھماکے نے پندرہ ارب میل دور تک اپنا مادہ بکھیر دیا تھا۔ اس جگہ پر خلائی دھول موجود تھی جو کم سے کم دو پچھلے ستاروں کی موت کا نتیجہ تھی۔ اس دھول اور اس سپرنووا سے ملنے والے عناصر نے ملنا شروع کیا تھا۔ ان بے ترتیب بادلوں نے بھنور کی سی صورت اختیار کی تھی۔ جیسے کسی ایک بڑے سے تالاب کی بے چین سطح ہو۔ درمیان میں ایک کثیف بادل کا مرکز سورج کہلایا۔ دوسرے بڑے اجسام سیارے، چاند، شہابیے، دمدار ستارے۔ شمسی طوفانوں نے ہلکے عناصر کو دور دھکیل دیا تھا۔ ان سے اس نظام کے کنارے پر گیس کے دیو بنے جو مشتری، زحل، نیپچون، یورینس کہلائے۔ گیس کا سب سے عظیم دیو مشتری ہے جس میں یہ عناصر اس حالت میں ہیں جن کا ہم زمین پر عام مشاہدے میں تصور نہیں کر سکتے لیکن مشتری اتنا مادہ اکٹھا کرنے میں کامیاب نہ ہوا کہ خود ستارہ بن سکے اور دوہرے ستارے کا نظام وجود میں آئے۔
اس سب ہنگامے میں اس کثیف مرکز سے پندرہ کروڑ میل دور مادہ اکٹھا ہو رہا تھا۔ ہلکے عناصر دور ہٹ جانے کی وجہ سے اس میں بھاری عناصر کا تناسب زیادہ تھا۔ یہ ہمارے گھر یعنی اس زمین کا جنم تھا۔
ہماری قسمت ستاروں نے لکھی ہے۔ ہماری قسمت ستارے نہیں لکھتے۔