ایک طویل عرصے تک انسان یہ سمجھتا رہا کہ زمین ایک طشتری کی طرح چپٹی ہے۔ لیکن لگ بھگ چار صدیاں قبل گییلیلو نے دور بین سے مشاہدہ کرکے معلوم کرلیا کہ زمین ایک کرے کی طرح ہے نہ کہ طشتری کی طرح۔ آج سیٹلائٹس کی مدد سے لی جانے والی تصویریں اور خلاؤں میں صفر کے بعد اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ قدرے چپٹے قطبی کے ساتھ زمین تقریبا ایک گیند کی طرح ہی گول ہے۔
1) پہلا عمومی مشاہدہ چاند کی ساخت دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ایک پورے چاند کا چہرہ بالکل گول دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ ڈسک یا طشتری کی ہوتا تو ہمیشہ اسکی شکل خمیدہ دکھائی نہ دیتی۔ کبھی کبھار یہ بالکل سیدھی لکیر کی صورت میں بھی دکھائی دیتا، جیسے کسی ڈسک کی موٹائی کے رخ دیکھیں تو وہ ایک لکیر کی طرح دکھائی دیتی ہے۔
2) جب زمین اور سورج کے مابین چاند حائل ہوجاتا ہے تو سورج گرہن لگتا ہے۔ سورج گرہن کے وقت دیکھا جاسکتا ہے کہ سورج پر چاند کا سایہ بالکل گولائی میں دکھائی دیتا ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ زمین بھی گیند کی طرح گول ہوگی۔
3) جب سورج اور چاند کے مابین زمین کے آجانے سے چاند گرہن لگتا ہےتو چاند پر دکھائی دینے والا سایہ زمین کا ہی ہوتا ہے۔ اس سائے سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ زمین بھی چاند کی طرح گول ہے۔
4) کسی بھی سمت میں زمین کے جھکاؤ کا مشاہدہ دور ہوکر نظروں سے اوجھل ہوتی ہوئی چیزوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ زمین پر رہتے ہوئے یہ مشاہدہ کرکے آپ یقینی طور پر معلوم کرسکتے ہیں کہ ہماری زمین گیند کی طرح کی گولائی رکھتی ہے۔ خشکی پر اسطرح کا تجربہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ راستے میں درخت، عمارتیں، پہاڑ یا ٹیلے وغیرہ آجاتے ہیں اور کسی چیز کے نظروں سے اوجھل ہونے کا مشاہدہ اتنے فاصلے تک نہیں کیا جاسکتا۔ جس سے زمین کے جھکاؤ مشاہدے میں آسکے۔ یہ مشاہد اسی صورت میں ممکن ہے جب میلوں تک پھیلا ہوا کوئی چٹیل میدان ہو اور آپ کسی گاڑی وغیرہ کو اس میدان میں نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھیں۔ تاہم سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر اسکی وسعتوں میں “غائب” ہوتے ہوئے جہاز کو دیکھ کر زمین کی گولائی کا مشاہدہ کرنا سب سے آسان ہے۔ مثال کے طور پر ایک 100 فٹ اونچا جہاز جب 15 میل کی دوری پر پہنچے گا تو مکمل طور پر نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ یہ زمین کے جھکاؤ کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاز ہماری “لائن آف سائٹ” سے نیچے چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جب دور سے کوئی جہاز دکھائی دینا شروع ہوتا ہے تو وہ “طلوع” ہونے کے انداز میں دکھائی دیتا ہے۔ یعنی پہلے اسکے مستول کا سب سے بالائی حصہ دکھائی دیتا ہے اور پھر جیسے جیسے جہاز قریب آتا جاتا ہے، اسی طرح بتدریج اسکا نچلا حصہ بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...