زمین ہمارا گھر ہے جہاں میں اور آپ اور یہاں موجود بے شمار قسم کے انواع رہتے ہیں۔ یہی زمین ہمیں لاکھوں سالوں سے ہوا اور پانی مہیاں کرتا آرہا ہے جسکی وجہ سے ہم تمام انسان اور دیگر جاندار زندہ ہیں لیکن کیا آپ نے کھبی سوچا ہے کہ جس زمین پر ہم رہ رہے ہیں اسکی شروعات کیسے ہوئی اور یہ کیسے بنی تھی؟
یہ آج سے تقریبا 5 ارب سال پہلے کی بات ہے جب ہماری کہکشاں میں موجود گراوٹی نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور خلائی دھول ایک جگہ اکھٹی ہوئی اور ایک ڈیسک کی شکل اختیار کرلی جسے ہم پلینیٹری ڈیسک بھی کہتے ہیں۔ اس ڈیسک کا بننا ایک نئے ستارے کے بننے کا اشارہ کرتی ہے لہاذا جب یہ ڈیسک بنا تو سورج کا جنم ہوا جس نے اس وقت اس ڈیسک میں موجود 99.9 فیصد گیس اور دھول اپنے اندر سمولئے اور باقی بچے کچے گیسوں سے ہمارے نظام شمسی کے آٹھ سیارے اور نظام شمسی میں موجود ہر شے بنی جن میں سے ایک ہماری زمین بھی ہے۔ ہماری زمین اس وقت سورج سے کافی دوری پر تھی لیکن باوجود اس کے بھی زمین کافی گرم تھی جو اس وقت زندگی کے لائق نہیں تھی۔ اس وقت زمین کا کوئی چاند بھی نہیں بنا تھا جسکی وجہ سے زمین کے مدار میں ٹھراوں بھی نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ زمین پر موسموں کا بھی ٹہراوں نہیں تھا لیکن آج سے 4 ارب سال پہلے ایک واقعہ پیش آیا۔
آج سے 4 ارب سال پہلے مریخ جتنا ایک بڑا سیارہ زمین سے آکر ٹکرا گیا جسکی وجہ سے زمین مکمل تباہ ہوگئی لیکن اپنے ملبے کو سمیٹنے کیلئے زمین نے پھر سے ایک ڈیسک کی شکل لے لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس ڈیسک میں زمین نے واپس جنم لیا اور جو سیارہ زمین سے ٹکرا گیا تھا اسکا ملبہ اکھٹا ہونے لگا اور پھر اس سے ہمارا چاند بنا اور زمین کا اور زمین پر موسموں کا ٹھراوں بھی پیدا ہوگیا۔
اس وقت بھی یہ زمین کافی گرم تھی اور اسے ٹھنڈا ہونے میں بہت وقت لگا۔ ٹھنڈا ہونے کے بعد بھی زمین کچھ چیزوں کے گھیرے میں تھی جس میں نائٹروجن اور کاربن ڈائی اکسائیڈ شامل ہیں۔ اس وقت نا تو پانی کا اور نا اکسیجن کا نام و نشان تھا لیکن زمین کے بننے کے 50 کروڑ سال بعد زمین پر شہابیوں کی بارش ہونے لگی اور قدرت کا کھیل تھا کہ یہ شہابیے اپنے ساتھ پانی لاتے رہے اور یہ عمل کروڑوں سالوں تک جاری رہا۔
اب زمین پر کافی پانی اکھٹا ہوگیا تھا لیکن زندگی کیلئے اب بھی ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھی اکسیجن.
ہماری زمین پر زندگی کی شروعات کب ہوئی اسکے بارے میں ہمیں ٹھیک طرح سے علم نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق آج سے 350 یا 370 کروڑ سال پہلے ایک خلیے والے بیکٹیریاز کا جنم ہوا جو اس وقت پانی کی گہرائیوں میں اکھٹے موجود تھے اور پھر ان بیکٹیریاز میں سے ایک نسل پیدا ہوئی جس نے سورج کی شعاوں کو نگل کر فضلے کی شکل میں اکسیجن خارج کرنا شروع کردیا۔ اس وقت یہ مقدار کافی کم تھی لیکن دھیرے دھیرے یہ مقدار بڑھتی گئی اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کھربوں بیکٹیریاز نے زمین کو اکسیجن سے بھر دیا۔ یہ زمین میں ایک تبدیلی تھی جس نے اس وقت زمین کو زندگی کے قابل بنادیا۔
اب کروڑو سال گزر چکے تھے اور زمین پر ڈائینو سارز جیسے مخلوق کا راج تھا۔ یہ مخلوق اپنے راستے میں آنے والے ہر ایک چیز کو نگل لیتے تھے اور یوں 15 کروڑ سالوں تک ان ڈائنوسارز نے زمین پر حکمرانی کی لیکن قریب 6 کروڑ سال پہلے شہابیوں کی زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے ان جانداروں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگیا اور یہ نسل اس دنیا سے ختم ہوگئی۔ شہابیوں کی زمین سے ٹکر کی وجہ سے اب زمین کا درجہ حرارت بہت بڑھ گیا تھا اور ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ وقت گزرتا گیا اور زمین واپس ٹھنڈی ہونے لگی۔ اس تباہی کے کروڑوں سال بعد جب زمین اپنے رنگ روپ میں واپس آگئی تو سب سے پہلے دودھ پلانے والے جانداروں نے جنم لیا۔ وہ ہجم میں چھوٹے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں آتی رہی اور ارتقاء کا یہ سلسلہ جاری رہا اور قدرت مختلف انواع کو ماحول کے مطابق تبدیل کرتا رہا یا یوں سمجھے کہ جانداروں نے ماحول کے مطابق خود کو تبدیل کیا جن میں سے ایک انسان بھی ہے جس نے لاکھوں سالوں کا ارتقاء طے کیا اور آج ہم اسے موجودہ شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔
ارتقاء کا نظریہ سائنس کا ایک بنیادی نظریہ ہے اور تقریبا دنیا کے 99 فیصد لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں۔۔۔انسان دو لاکھ سال سے اس دنیا پر آباد ہے اور اس میں آج بھی تبدیلیاں آرہی ہے نا صرف انسان میں بلکہ دنیا کے ہر ایک جاندار میں ارتقاء ہورہا ہے لیکن یہ پراسیس یہ عمل اتنا سلو ہے کہ اس میں لاکھوں سال کا وقت لگتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...