وقت کی ابتدا کو سوا نو ارب سال بیت چکے تھے۔ کائنات کے کسی گوشے میں ہونے والے سپرنووا نے کسی بوڑھے ستارے کی باقیات کو بکھیر دیا تھا۔ اس سے بننے والی شاک ویوز نے اپنے آفاقی پڑوس میں ہلچل مچا دی تھی۔ گویا یہاں پائے جانے والے ہائیڈروجن کے سمندر میں جان ڈال دی تھی۔ یہ سممندر متلاطم ہونا شروع ہوا تھا اور ایک مرکز کے گرد مجتمع ہونا شروع ہوا تھا۔ گریویٹی نے ان سب کو جوڑنا شروع کر دیا تھا۔ اس میں سے 99.9 فیصد مادے کو ایک ہی جگہ، ایک ہی جسم کی صورت میں۔ یہ ایک نوزائیدہ ستارے کی پیدائش تھی جس کو سورج کا نام ملا۔ جو گیس بچی تھی، وہ اس سے دور جا کر اکٹھی ہونے لگی جس سے گیس کے دیوہیکل سیارے تشکیل پائے جیسا کہ مشتری اور زحل۔
اس دوران میں تھوڑی سی جو بچی کھچی گیس جو ان کے درمیان تنہا رہ گئی تھی، وہ ان کے درمیان اکٹھی ہونا شروع ہوئی۔ آکسیجن، کاربن، سلیکون، لوہا اور دوسرے عناصر۔ پہلے مائیکروسکوپک ذروں کی صورت میں، پھر یہ ذرے مل کر پتھروں اور شہابیوں کی صورت میں۔ پھر یہ مل کر برِاعظموں کے سائز کی چٹانوں کی شکل میں۔ گریویٹی کسی اچھے خاکروب کا کام کر رہی تھی۔ چھوٹی ٹکڑیوں سے بڑے جسم بننے کا کام جلد ہوا تھا۔ صرف دس لاکھ سال کے اندر اندر۔ یہ بڑے ٹکڑے سیارے کہلائے جن میں سے ایک زمین تھی۔ آپ کے گرد جو کچھ بھی ہے، جتنا بھی ٹھوس لگتا ہے، پاوٗں کے نیچے فرش یا وہ سکرین جس پر نظریں اس وقت جمی ہیں اور آپ کا خود اپنا جسم۔ یہ سب گیس سے شروع ہوا تھا۔
یہ نوزائیدہ زمین آج کی زمین سے بالکل مختلف تھی۔ جب یہ خلائی چٹانیں ملنا شروع ہوئیں تو گریویٹی کے پریشر نے ان سب کو مائع بنا دیا۔ کثیف مائع جیسا کہ پگھلا لوہا اس کے مرکز کی طرف چلے گئے۔ ہلکے سطح کی طرف آ گئے۔ سطح پر آنے کے بعد اس سرد خلا کے ملاپ کے بعد یہ سطحی مادے ٹھوس ہو گئے۔ یہ زمین ایک انڈے کی طرح تھی جس کے بیچ میں لوہے کی زردی، اس کے گرد ایک موٹی سی سیال تہہ اور ان کے اوپر پتلی سی ٹھوس سیاہ پتھر کا سخت چھلکا۔ لیکن یہ چھلکا ٹکڑے ٹکڑے تھا۔ کئی ملین ٹکڑے جن کے درمیان میں سے لاوا نکل رہا تھا۔
اس زمین پر رات کی تاریکی نہ آتی تھی۔ کیونکہ یہ اس لاوا کی نارنجی روشنی سے ہر وقت روشن تھی۔ اور پھر وقفے وقفے سے لاوے کا وہ اونچا فوارہ اچھلتا تھا۔ یہ کسی جہنم کا منظر تھا جس کی وجہ سے اس کو ہیڈین کے دور کا نام ملا۔ اس زمین کے گرد فضاٗئی غلاف تھا۔ یا پھر اسے فضا کا پہلا غلاف کہہ لیں۔ یہ ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل تھا۔ یہ گیسوں کی وہ باقیات تھیں جو زمین اور مشتری کے بیچ پھنسی رہ گئی تھیں لیکن زمین ان کو سنبھال نہ سکی۔ سورج سے آنے والی شمسی ہواوٗں یعنی کہ چارجڈ پارٹیکلز کے آگے یہ ٹھہر نہ سکا۔ شمسی طوفان اس کو ساتھ لے اڑے۔ زمین کی گریویٹی بھی ان مہین اور ہلکی گیسوں کو روکنے کیلئے کافی نہ تھی۔ ایک دوسرے سے ٹکراتے مالیکیول اسکیپ ولاسٹی حاصل کر لیتے اور جدا ہو جاتے تھے۔ چھوٹے مالییکیولز کے لئے فرار آسان ہے۔
زمین کے اس دور میں اس فضائی غلاف کا ایک اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ یہ ہوا زمین سے نکلی تھی۔ جس طرح سیون اپ سے گیس نکلتی ہے۔ زمین کے لاوے میں گیسیں حل شدہ تھیں۔ جب زمین سے لاوا نکلتا تو ساتھ گیسیں بھی۔ ویسے جیسے بوتل کھولنے سے نکلتی ہیں۔ یہ زمین کا “بڑا ڈکار” تھا۔ اس میں نکلنے والے سب سے زیادہ گیس پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ تھی۔ رفتہ رفتہ نکلنے والی اس گیس نے زمین کو مہربان جگہ نہیں بنایا تھا۔ اگر ہم وہاں ہوتے تو یہ بھاپ ہماری جلد پر آبلے ڈال دیتی۔ نکلنے والی سلفر کی بدبو ناک کو بھسم کر دیتی۔ امونیا اور تیزاب پھیپھڑوں کو تار تار کر دیتے۔ روز اربوں ٹن نکلنے والی گیس کا پریشر آج کے فضائی پریشر کے مقابلے میں سو گنا زیادہ تھا۔ یہ پریشر کھوپڑی چٹخا دیتا۔ ہمیں پچکا دیتا اور اس قدر کثیف ہوا کا ہلکا سے جھونکا اس ابلتے لاوا کی تالاب میں لڑھکا دیتا۔
اس بھاپ کے ٹھنڈا ہونے سے بننے والے سمندر اور جھیلوں نے اپنے ساتھ کارن ڈائی آکسائیڈ کو بھی جذب کر لیا اور فضا سے نکال دیا۔ ساتھ زمین پر شہابیوں کے بمباری جاری تھی۔ کچھ ہوا یہ خلا میں نکال دیتا جبکہ چھوٹے شہابیے اپنے ساتھ نیا مادو اور گیسیں لے کر آتے۔ ہر گرنے والا شہابیہ موتے فضائی غلاف سے گزرتے اس ہوا کو گرم کر دیتا۔ اضافی حرکی توانائی والے مالیکیول کے لئے نکلنا آسان ہو جاتا۔ ایک طرف زمین سے نکلتی نئی گیس۔ دوسری طرف زمین کا ساتھ چھوڑتی گیس۔ زمین کا فضائی غلاف کم اور زیادہ ہونے کی منازل طے کرتا رہا۔
ان چھوٹے شہابیوں سے لگنے والی ٹکروں کے دور میں ایک بڑی اور اہم ٹکر ہوئی۔ نظامِ شمسی کے دوسرے اجسام کے پاس اتنے بڑے چاند نہیں۔ ہمارا چاند زمین سے ایک چوتھائی سائز کا ہے۔ ایسے کیوں؟ اس کیلئے بیسیویں صدی کے سائنس دان کئے تھیوریاں پیش کرتے رہے۔ کسی کا خیال تھا کہ یہ ایک الگ سیارے کے طور پر الگ جسم بنا تھا۔ یہ دبے پاوٗں زمین کے پاس سے گزر رہا تھا کہ گریویٹی کی گرفت میں آ گیا۔ آسٹرونومر جارج ڈارون (جو مشہور بائیولوجسٹ چارلس ڈارون کے فرزند تھے) کا خیال تھا کہ یہ ہماری زمین سے الگ ہوا ٹکڑا ہے۔ یہ کسی وجہ سے ایسے الگ ہوا جیسا کہ ایک خلیہ دو میں تقسیم ہوتا ہے۔
اپالو 11 چاند پر 1969 میں لینڈ ہوا۔ اس سے زمین پر لائے گئے پتھروں نے چاند کی پیدائش کی اصل کہانی اگل دی۔ یہ کہانی پہلے سے پیش کردہ خیالات کا مجموعہ تھا۔ چاند کے پتھروں میں پھنسی گیسوں کی مقدار زمین سے کم تھی۔ اس سے پتہ لگتا تھا کہ چاند کی چٹانوں سے گیس ابل کر باہر نکلی ہے۔ چاند جیسے بڑے جسم کو ابالنے کے لئے بہت ہی زیادہ توانائی درکار ہے اور اس کا ایک ہی سورس ہو سکتا ہے۔ جب ماہرینِ فلکیات نے اس سب ڈیٹا کو ماڈلز میں ڈال کر نتیجہ نکالا تو ہمیں تھیا کا پتہ لگا۔
تھیا مریخ جتنا بڑے سیارہ تھا جو زمین کے مدار میں آ گیا تھا اور زمین کے مدار میں آ گیا تھا۔ اس سے زمین کو ہونے والی ٹکر کو “عظیم تصادم” کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ اس قسم کی ٹکر ہے جس نے ڈائنوساروں کا دور ختم کیا تو نہیں۔ ٹھہریں، اور پھر غور کریں۔ ڈائنوسار ختم کرنے والے شہابئے کی ٹکر نے آگ کے اونچے ستون بنا دئے تھے اور کئی سال تک زمین کو خاک سے ڈھک کر روشنی مدہم کر دی تھی۔ لیکن اس سے زمین کے سٹرکچر پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ عظیم تصادم واقعی عظیم تھا۔ اس نے زمین کے سمندر ابال دئے۔ برِاعظموں جتنی بڑی چٹانوں کو دھواں کر دیا۔ زمین کو ہوا سے خالی کر دیا۔ تھیا، وہ جسم جو زمین سے ٹکرایا تھا، خود دھواں ہو گیا اور زمین کی شکل بدل ڈالی۔ دھواں ہونے والا مادے نے زمین کے گرد ہالے بنا دئے۔ یہ مادہ پھر زمین سے کچھ دور اکٹھے ہونا شروع ہو گیا اور چاند کہلایا۔
اس تصادم کے طویل مدتی اثرات میں سے ایک چاند کا جنم ہے اور بہار اور خزاں کا بھی۔ کیونکہ اس نے زمین کا ایکسز اس طرح ٹیڑھا کر دیا جس سے موسم بنتے ہیں۔ لیکن قلیل مدتی اثرات اچھے نہ تھے۔ اگر زمین نامہربان تھی تو یہ مزید نامہربان ہو گئی تھی۔ اب فضا زیادہ گرم تھی ۔ اس میں جلا دینے والی سلیکون (یا دھواں ہوئی ریت) شامل تھی۔ یہ ایک ہزار سال تک رہی۔ اس دھواں ہوئی ریت میں لوہے کی بارش ہوا کرتی تھی اور ہوا نمکین ہو چکی تھی کیونکہ اب اس میں سوڈیم کلورائیڈ بھی تھا۔
اس وقت کا چاند سورج سے بارہ گنا زیادہ سائز کا نظر آتا کیونکہ یہ زمین سے صرف پندرہ ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ اپنے پگھلی حالت میں یہ ایک سرخ آنکھ کی طرح لگتا ہو گا۔ اگر اس وقت کوئی شعر کہنے والا ہوتا تو اس آسمان کے سرخ روشن بڑے گولے کا ذکر کرتا۔
شہابیے کم ہونا شروع ہو گئے تھے۔ زمین کی فضا کی اگلی قسط کو ٹھہرنے کیلئے وقت مل گیا تھا کیونکہ شہابیے اسے تنگ نہیں کرتے تھے۔ اتنا ہی اہم یہ تھا کہ اب باقاعدہ آتش فشاں ابھر آئے جو شروع کی زمین پر نہ تھے۔ کیونکہ اس سے پہلے لاوا سطح کے شگافوں سے پگھلی حالت میں نکلتا رہتا تھا۔ جب خلائی پتھر زمین پر آنا بند ہوئے تو ٹھنڈا ہوتی سطح نے سخت باہری خول کی صورت میں ڈھلنا شروع ہوئی۔ زمین کے شگاف بند ہونا شروع ہوئے۔ پگھلی مائع حالت کا لاوا زمین کے نیچے ہی تالابوں میں مقید رہ گیا۔
اس قید ہوئے لاوے میں گیسیں ابھی موجود تھیں۔ انہوں نے زمین کی تاریخ میں ابھی کردار ادا کرنا تھا۔ اگرچہ اس میں سے گیسیں کم ہو چکی تھیں لیکن اربوں سال کے سائیکل سے بننے والے چکر نے ابھی بہت جگہ پر لاوا اگلنا تھا، زمین کو ہلانا تھا۔
تو پھر اس ہوا کو، اس چاند کو، اس زمین کو اور اس کے موسموں کو ایک بار پھر محسوس کریں۔ آج کی زمین اور آسمان پر چمکتا چاند ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ اس نارنجی، غصیلے آگے بھرے بچپن سے آج کی مہربان بالغ زمین تک سفر مختصر نہیں تھا۔