زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال سے زیادہ اور زندگی کی داستان چار ارب سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے آس پاس جو نظر آتا ہے، وہ اس کتاب کے آخری باب کا آخری صفحہ ہے لیکن کہانی جاری ہے۔ وقت کی یہ کتاب اتنی ضخیم ہے کہ ہمارے لئے کئی بار اس کی گہرائی کو اپنے ذہن میں تصور کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اتنا لمبا عرصہ تو درکنار، کئی بار چند سو یا چند ہزار سال کی تاریخ ہی ہمارے دماغ کا دہی کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے کئی لوگ وقت اور اعداد کی صحیح تفہیم نہ ہونے کے باعث گڑبڑا جاتے ہیں۔ ایک نظر اس کی بڑی تصویر پر۔
وقت کی اس بے کراں وسعت کو سمجھنے کے لئے سائنسدان پتھروں کو دیکھتے ہیں جہاں ہمارے قدموں تلے یہ سلسلہ قسط وار موجود ہے۔ کبھی زندگی اچانک نئے دلچسپ مرحلے میں داخل ہو کر پھیلتی تو کبھی کسی سانحے کا شکار ہوتی۔ یہ اہم واقعات اور اتار چڑھاؤ اس کہانی کے باب ہیں۔ ان ابواب کو عنوان دینے کے لئے ہم جو سسٹم استعمال کرتے ہیں وہ ارضیاتی ٹائم سکیل ہے۔ ارضیاتی ٹائم سکیل کے لئے زندگی کی تاریخ کیوں؟ اس کی وجہ یہ کہ پتھروں سے ہم زندگی کو سمجھتے ہیں اور زندگی سے پتھروں کو۔
پتھروں کی زبان سے زمین کی تاریخ پڑھنا آسان نہ تھا۔ انسانی تاریخ کے بڑے عرصے میں ہمیں علم نہیں تھا کہ زمین کتنی پرانی ہے یا وقت کی ان وسعتوں میں ہوا کیا تھا یا کس ترتیب سے ہوا تھا۔ 1669 میں ڈنمارک کے سائنس دان نکولس سٹینو نے سٹریٹیگرافی کے پہلے قوانین شائع کئے۔ یہ پتھروں کی تہوں کا مطلب سمجھنے کی سائنس تھی۔ اس کا بنیادی قانون یہ تھا کہ جہاں پتھر تہوں کی شکل میں ہیں، وہاں پر نیچے کی تہہ اوپر کی تہہ کے مقابلے میں زیادہ پرانی ہو گی۔ جتنا ہم زمین میں گہرائی میں جائیں گے، اتنا وقت میں ماضی میں۔ اب تو یہ عام سی بات لگے لیکن سٹینو کے وقت میں یہ انقلابی خیال تھا۔
سٹینو کے خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے اطالوی جیولوجسٹ جیووانی آرڈوینو نے ان تہوں کو نام دینے شروع کئے۔ 1760 کی دہائی میں آرڈوینو نے کوہِ ایلپس کا مطالعہ کرتے ہوئے نچلی تہوں کو پہلی بار شناخت کر کے نام دینا شروع کئے۔ دنیا میں زمین کی ساخت مختلف ہے۔ ایک علاقے کی چٹانوں کا دوسرے سے کیسے موازنہ کیا جائے؟ اگر یہ موازنہ نہ کیا جا سکے تو کوئی یونیورسل ٹائم سکیل نہیں بنایا جا سکتا۔
اس مسئلے کو 1819 میں انگلش جیولوجسٹ ولیم سمتھ نے فاسلز کے ذریعے حل کیا۔ چٹانوں کی کونسی فارمیشن میں کس قسم کے قدیم فاسل ملتے ہیں؟ ان کو دیکھ کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس قسم کی چٹان میں کتنی گہرائی میں کتنی پرانی تاریخ دفن ہے۔
ٹریلوبائٹ کی ابتدائی انواع کے فاسل ایمونائیٹ فاسل کے نیچے ہوتے ہیں۔ ایمونائیٹ کے فاسل شیل فش کی کچھ انواع کے نیچے۔ جہاں پر بھی ہم ٹریلوبائیٹ دیکھ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ کہ یہ چٹان ایمونائیٹ سے زیادہ پرانی ہے۔ جہاں پر زندگی کے آثار کم ہوں یا نہ ملیں ، وہاں پر بھی ابتدائی اہم واقعت کے نشان مل جاتے ہیں۔ مثلا، جب براعظم بنے اور زمین سرد ہو کر ٹھوس حالت میں آئی۔
اس طرح کے ابتدائی ماہرینِ ارضیات کے کام کی وجہ سے اگلے دور کے ماہرینِ ارضیات اپنا کام آگے بڑھا کر جیولوجیکل ٹائم سکیل تک پہنچ سکے۔
اس سکیل میں کئی بار اپنے نئے سیکھے علم کے مطابق اضافے اور ترامیم کر کے بہتر بنایا جا چکا ہے۔ ان کے پانچ سب گروپ ہیں۔ ایون (Eon)، ایرا(Era)، پیرئیڈ (Period)، ایپوک (Epoch) اور ایج (Age)۔ اردو میں ان کو زمانے، دور، مدت، عہد اور عمر کہہ لیں۔ (کسی کا بہتر ترجمہ تجویز کرنے کا انتظار)۔ وقت کو اس طرح تقسیم کرنے سے ہم تاریخ کی ایک مشترک زبان اپنا سکتے ہیں۔ زمانوں یا ادوار میں ہم بڑی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ مثلا، کیا اس وقت زندگی تھی اور اگر ہاں تو کہاں، خشکی پر یا زمین پر۔ جب مدت یا عہد کی بات ہو تو سوال ذرا زیادہ باریک ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ان چند ملین سالوں میں زمین کا موسم کیسا تھا اور اس سے اثر کیا ہوا؟
بڑی تصویر دیکھنے کے لئے تعارف صرف زمانوں اور ادوار کا۔ زمانے (eon) وقت کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ سب سے پہلا زمانہ ہیڈین تھا جو زمین بننے سے لے کر چار ارب سال قبل تک کا ہے۔ یہ وہ واحد زمانہ ہے جس کا کوئی فاسل موجود نہیں۔ زمین پر آتش فشاں ابل رہے تھے۔ آسمان سے شہابیوں کے بمباری ہو رہی تھی، زبردست طوفان جاری تھے۔ درجہ حرارت بہت زیادہ تھا۔ اس زمانے کی چٹانوں میں نامیاتی کاربن ملا ہے جس سے ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی زندگی کی آمد اس زمانے کے آخر میں ہو چکی تھی۔ یہ نامیاتی کاربن اس زمانے کا سب سے اہم سنگِ میل ہے۔ اس زمانے کا وقت ساٹھ کروڑ سال کا ہے۔
سرد ہوتی زمین سے زمین کی کرسٹ بنی جس سے برِاعظم بننے کی سٹیج سیٹ ہوئی اور آرکین زمانے کا آغاز ہوا۔ چار ارب سال پہلے شروع ہونے والا یہ زمانہ ڈھائی ارب سال پہلے تک رہا۔ ابتدائی زندگی اس زمانے میں پھیلی اور اس نے قدیم سمندر میں جراثیم کے قالین بچھا دئے۔ ان مائیکروبز کے فاسل سٹروماٹولتھ کہلاتے ہیں۔ ان کے بہت سے عمدہ ذخائر مغربی آسٹریلیا سے ملے ہیں۔ اس وقت فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ تھی۔
ڈھائی ارب سال پہلے پروٹیروزوئک زمانہ شروع ہوا جو چون کروڑ سال پہلے ختم ہوا۔ تقربیا دو ارب سال جاری رہنے والا یہ زمانہ ابتدائی زندگی کا زمانہ ہے۔ اس وقت فوٹوسنتھیسز کرنے والے بیکٹیریا اور کثیر خلوی زندگی نے بڑی مقدار میں آکسیجن سے فضا کو بھر دیا۔ اس دوران اینایروبک زندگی زمین سے بڑی حد تک ختم ہو گئی۔ یوکاریوٹ کی ابتدا ہوئی جو نیوکلئیس رکھتے تھے۔ یوکاریوٹ سے بڑی، پیچیدہ اور کئی بار عجیب زندگی نکلی۔ یہ نئے اور بڑے جاندادر جلد ہی نئی شکلیں دھار گئی۔ چون کروڑ سال قبل ہم ایک نئے زمانے کے دروازے پر تھی۔
فینروزوئک زمانہ جو چون کروڑ سال قبل شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اس وقت زندگی نمایاں ہوئی۔ درخت، ڈائنوسار، چھپکلیاں، چوپائے، درندے۔
اب اس فینروزوئک زمانے کی اندر کے ادوار دیکھتے ہیں، جو وقت کی اگلی تقسیم ہے۔
اس کا پہلا دور پیلوزوئک دور تھا جس کی ابتدا چون کروڑ سال پہلے ہوتی ہے اور اختتام پچیس کروڑ سال پہلے۔ اس کا آغاز ایک دھماکے سے ہوا۔ نہیں، بارود کا دھماکہ نہیں، کیمبرین دھماکہ جس میں زندگی میں تیزی سے تنوع آیا۔ اس سے پہلے کی تمام زندگی صرف پانی میں تھی۔ پیلوزوئک دور میں ہمیں پیچیدہ جانوروں کی شکلیں ملتی ہیں۔ ان کے سخت اعضاء جیسا کہ خول اور ہڈیاں۔ ان میں سے جو جانور سب سے تیزی سے پھیلے وہ ٹریلوبائٹ تھے۔ ان کی تعداد تمام دنیا میں اس قدر زیادہ ہے کہ ولیم سمتھ کے وقت سے ان کو انڈیکس فوسل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ٹریلوبائٹ کو جلد ہی مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ مچھلیوں نے دانتوں اور جبڑوں کی وجہ سے جلد سمندر کو فتح کر لیا۔ شارک سے بڑی اور بکتربند قسم کی مچھلیاں جن کو پلیکوڈرم کہا جاتا ہے۔ زمین برِ اعظم بننے سے لے کر ابھی بنجر رہی تھی۔ اب یہاں پر آبادی شروع ہوئی۔ پودے اور پھر حشرات۔ سینتیس کروڑ سال پہلے تک قدیم برِاعظموں پر ایکوسسٹم بن چکا تھا۔ جلد ہی ابتدائی جل تھیلیے آئے اور کیچڑ پر ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے قدموں کے پہلے نشان۔ تیس کروڑ برس پہلے عظیم برِاعظم پینگیا بن چکا تھا جس کے درمیان میں وسیع و عریض صحرا تھا۔ یہ صحرا جلد ہی ابتدائی رینگنے والے جانوروں سے آباد ہو گیا جو جلد تھیلیوں کے برعکس خشک جگہوں پر رہ سکتے تھے۔ لیکن زندگی کا یہ زبردست پھیلاؤ جاری نہ رہ سکا۔ آج سے پچیس کروڑ بیس لاکھ سال پہلے، خشکی پر ریڑھ کی ہڈی والی ستر فیصد اور سمندر کی چھیانوے فیصد انواع غائب ہو گئیں۔ یہ عظیم موت کا واقعہ کہلاتا ہے اور زمین کی تاریخ میں موت کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ یہاں سے زمین کے ریکارڈ سے ٹریلوبائٹ سمیت بہت سے فاسل ختم ہو جاتے ہیں۔
اس سے اگلا میسوزوئک دور تھا۔ زندگی کی بحالی میں کچھ وقت لگا اور پھر ایک نئی دنیا تھی۔ یہ ریپٹائلز (reptiles) کا دور تھا۔ پچیس کروڑ سال پہلے شروع ہو کر چھ کروڑ ساٹھ لاکھ سال پہلے تک جاری رہنے والا۔ رینگنے والے جانور اس کی ابتدا سے ہی بہت کامیاب تھے۔ انہوں نے بہت سے روپ اپنائے۔ ڈائنوسار، ٹیروسار، کئی طرح کی آبی انواع۔ وہ تمام ڈائنوسار جو اڑ نہیں سکتے تھے، سب اسے دور میں پائے جاتے ہیں اور اس دور کے انڈیکس فاسل ہیں۔ جانداروں کے کئی جدید گروپس کی آمد بھی ان ریپٹائلز کے سائے میں ہوئی جیسے مینڈک، شہد کی مکھیاں، پھولدار پودے، ممالیہ۔ اس دور کا اختتام آسمان سے آئے پتھر سے ہونے والی تباہی سے ہوا، جس کے واضح آثار میکسیکو کے چکشکلب کریٹر میں اریڈیم سے ہوئے دستخط کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
اس سے اگلا دور سینوزوئک کا تھا جو آج تک کا دور ہے۔ تمام بڑے ریپٹائلز کے رخصت ہو جانے کے بعد چھوٹے جانداروں کے لئے بڑھنے کا موقع تھا۔ یہ ممالیہ کے عروج کا دور ہے۔ موسم گرم ہوا، جنگل پوری دنیا میں پھیل گئے۔ چار کروڑ سال پہلے تک جن ممالیہ کے گروپ کو ہم جانتے ہیں جیسا کہ وہیل، چمگادڑ، روڈنٹ اور پرائمیٹ سبھی آ چکے تھے۔ ساڑھے تین کروڑ سال پہلے زمین کا موسم پھر بدلنا شروع ہوا۔ برف نے پھیلنا شروع کیا جس سے زمین میں پانی کا لیول نیچے گرنا شروع ہو گیا۔ ان خشک حالات سے میدان بننا شروع ہوئے جہاں پر ابتدائی گھوڑوں اور ہرنوں کا شکار اس وقت کے کتے (canid) اور بلیاں (felinae) کرتے تھے۔ گھاس کے یہی میدان تھے جہاں پر ستر لاکھ سال قبل ایپ کی ایک نئی نوع کا آغاز ہوا جو ساحل اینتھروپس (Sahelanthropus) تھا۔ یہ دو ٹانگوں پر چل سکنے والا پہلا ایپ تھا۔ چھبیس لاکھ سال سال پہلے برف مزید پھیلی اور زمین ایک برفانی دور میں داخل ہو گئی۔ پچھلے چند ملین سال میں جتنی زندگی سے ہم واقف ہیں، وہ ڈویلپ ہوئی اور پھلی پھولی۔ ساتھ میں میمتھ، لمبے دانتوں والے شیر، وغیرہ۔ زندگی کے اس دور میں بھی پندرہ ہزار سال قبل ایک بڑی تبدیلی کی وجہ سے ایک افسوسناک انجام ہوا۔ موسم گرم ہونا شروع ہو گیا اور اگلے چند ہزار سال میں بہت سے بڑے جانوروں کا خاتمہ ہوا۔ گیارہ ہزار سات سو سال قبل برف کا آخری بڑا دور ختم ہو چکا تھا۔ جدید انسان دنیا میں ہر طرف پھیل چکے تھے۔ ان بڑے جانوروں کے خاتمے میں انسانوں نے کتنا کردار ادا کیا؟ اس پر گرما گرم مباحث ہوتے رہے ہیں لیکن اس سے مفر نہیں کہ اب انسان نے زمین کو اور اس کے بائیوسفئیر کو اور اس میں رہنے زندگی کو بڑی حد تک اب اپنی مرضی سے شکل دی ہے۔ انتہائی مختصر عرصے میں اور بہت بڑے پیمانے پر۔
ہمارا وقت اس بہت موٹی کتاب کے آخری باب کا آخری صفحہ ہے لیکن اس سے آگے اس کتاب پر کیا لکھا جائے گا، اس کا انحصار اس پر کہ اس صفحے پر آج کیا لکھتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔