ہماری زمین جہاں اس وقت8ارب سے زیادہ انسانی آبادی اور مختلف حیات اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے زندہ ہے ، ہمارا اکلوتا اور واحد گھر ہے۔ اور شائد کئی صدیوں تک ہمارا یہ سیارہ ہمارا مسکن ہی رہے گا،جب تک خلائی تحقیق اور مشن کے تحت اتنی سائنسی ترقی نہ ہوجائے کہ خلائے بسیط میں انسانی یا کسی اور حیوانی زندگی بسر کرنے کے قابل نہ ہوجائیں ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم اپنے اکلوتے اور واحد گھر کی ساخت کے بارے میں ہی اتنا کچھ کم جانتے ہیں کہ سمجھیں کہ ابھی تو ہم جاننے کے مرحلہ کے آغاز میں ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل لگ بھگ سو سال ہوئے ، کوئی زمین کی قدیم ہونے (قریبا 4 ارب سال پرانے) ہونے پر یقین نہیں کرتا تھا، پہاڑوں کے ہونے اور انکی تشکیل پانے کے بارے میں کوئی واضح تھیوری کسی کے پاس نہیں تھی۔
اسی طرح ہماری زمین کے مرکز میں کیا ہے، اور اسکی ساخت و بناوٹ کیا ہے، اسکے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی دھرتی کے ساتھ بھی واقفیت بڑھتی گئی اور ہمیں آج پتہ چلا کہ زمین کی گہرائیوں میں بھی ایک گول کرہ یا اسفیئر نما قلب (core) موجود ہے جو مختلف دھاتی میٹرئیل کا بنا ہوتا ہے۔ یہ دریافت محض آج سے قریبا 100 سال ہی پرانی ہے، اور اس دریافت کو معلوم کرنے والے کوئی بہت ہی تگڑے اور جانے مانے مشہور سائنسدان نہیں تھے ، بلکہ ایک عام ، غیر مشہور اور سادہ سی لیکن انتہائی قابل و محنتی خاتون ارضیاتی سائنسدان تھیں، جنکا تعلق ڈنمارک سے تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مردوں کو ہی سائنس اور دیگر معاملات زندگی میں برتی حاصل ہوتی ہے اور خواتین سائنس کے میدان میں پیچھے رہتی ہیں، لیکن اس آرٹیکل کو پڑھ کر آپکو اندازہ ہوگا کہ خواتین بھی سائنس کے میدان میں کسی سے کم نہیں بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ (شائد ان سے کبھی آگے آگے) کارنامے انجام دیں رہی ہیں
1930 کی دہائی میں، کوئی بھی ماہر ارضیات اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا تھاکہ کیوں زلزلے کے جھٹکوں کی لہریں غیر متوقع طریقوں سے زمین کے گرد اچھالتی اور دوسری طرف سے منعکس ہوتی نظر آتی ہیں – لیکن ستمبر 1936 کو، جب سیسمولوجسٹ انگے لیمن Inge Lehmann نے محسوس کیا کہ زمین کا اندرونی قلبی حصہ ہے، تو تب جاکر یہ مسٹری حل ہوئی، جس نے ایک عرصہ تک سائنسدانوں کو پریشان کیے رکھے تھا۔ یہ دریافت اس وقت کی ایک ڈینش ماہر ارضیات خاتون ،جنکے نام کو اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا، بلکہ آج بھی بہت کم لوگ انکے نام اور انکے کارناموں سے ناواقف ہیں، انگے لیمن نے اسی مہینے یعنی ستمبر 1936 میں کی تھی، جس نے اس وقت کے ایک سب سے بڑی ارضیاتی سائنس کے مسئلہ کو حل کیا تھا۔ بعد کے آنے والے سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ہماری زمین کی اتاہ گہرائیوں میں دراصل ایک ٹھوس دھاتی کرہ نما قلب یا کور coreموجود ہے، جو ہماری زمین کی بہت سی نمایاں خصوصیات کا حصہ بھی ہے۔
زلزلے کے جھٹکوں کی لہروں کا بغور مطالعہ کرنے سے، لیہمن نے محسوس کیا کہ زمین کی ساخت کا مروجہ منظر اور اسکے بارے میں پرانا نظریہ نامکمل تھا۔1900 کی دہائی کے اوائل میں، ارضیاتی سائنس دان ایک مشکل سوال پر غور کر رہے تھے، جو یہ تھا کہ ہمارے پیروں کے نیچے بہت گہرائی میں کیا ہے؟ سیسموگرافس پر انحصار کرتے ہوئے، جو زلزلوں کی جھٹکوں کی لہروں کی پیمائش کرتے ہیں، جیو فزکس دانوں نے فرض کیا تھا کہ زمین کا مرکز ایک گرم، پگھلا ہوا کرہ ہے۔ لیکن اس نظریہ میں کمزوری اور خامیاں تھیں، جو غیر متوقع جگہوں پر ناپی جانے والی آوارہ زلزلے لہروں کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا تھا۔یہ آوارہ لہریں، دراصل زلزلے کی وہ لہریں ہوتی ہیں جو کسی زلزلے کے مرکز کے مقام سے پیدا ہوتی ہیں اور بار بار زمین کے اندر سے سفر کرتے ہوئے سطح سے منعکس ہوتی رہتی ہیں۔ پھر، ستمبر 1936 میں، انگے لیہمن نامی ایک ڈنمارک کی جیو فزیسٹ خاتون نے ایک مقالہ شائع کیا، جسے مختصراً “P′” کہا جاتا ہے، جس میں اس بات پر بحث کی گئی کہ سائنس دان اب کیا سمجھتے ہیں۔ زمین کی پگھلی ہوئی پرت کے اندر دفن ایک ٹھوس دھاتی کور موجود ہے۔
1888 میں پیدا ہونے والی، لیہمن نے ڈنمارک میں بچوں کے لیے پہلے مخلوط تعلیمی اسکول میں تعلیم حاصل کی، جسے ماہر طبیعیات نیلز بوہر کی خالہ ہنایڈلر Hanna Adler چلاتی تھیں۔ ڈنمارک کے شہر Fællesskolenمیں، لڑکوں اور لڑکیوں نے یکساں طور پر روایتی مضامین سیکھے، جیسے ریاضی اور سائنس کے ساتھ ساتھ لکڑی کے کام اور سوئی پوائنٹ جیسے دستکاری، دونوں کو یکساں ہنر کےطور پر سکھائے جاتےتھے ۔ ہنا نے بعد میں اپنی ڈائری میں لکھا کہ “لڑکوں اور لڑکیوں کی عقل میں کوئی فرق نہیں پہچانا گیا،” اس نے بعد میں لکھا، “ایک حقیقت جس نے بعد کی زندگی میں میرے لیے]کچھ مایوسی لائی جب مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ لیکن یہ لوگوں کا عمومی رویہ نہیں تھا”۔اور کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج سو سال بعد بھی لوگوں کی یہ عمومی سوچ میں زیادہ کچھ بدلاؤ نہ آسکا۔(Lehmannکے دور میں سائنس میں بہت کم خواتین ہوا کرتی تھیں، جسکی مختلف وجوہات ہوا کرتی تھیں)
1920 میں کوپن ہیگن یونیورسٹی میں ریاضی کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد، لیہمن نے چند سال ایکچوریئل سائنس کے پروفیسر کے معاون کے طور پر کام کرنے میں گزارے۔ لیکن انہوں نے اسکول کے دوران کیمسٹری، فزکس، اور فلکیات کے کورسز بھی لیے تھے، اور اس کے موضوعات انکو دلچسپ لگے تھے۔اس وقت، بہت سے ماہرین ارضیات، جیوڈیسٹسٹ geodesists (جو زمین کی ساخت کی جیومیٹری کا مطالعہ کرتے ہیں)، اور ماہرین زلزلہ زمین کی ارضیاتی تاریخ اور ساخت کے سوالات کے جوابات جاننے کے سحر میں تھے۔ ان سائنسدانوں میں سے ایک ڈینش جیوڈیٹک انسٹی ٹیوٹ ڈین ڈانسکے گرادمالنگ کے ڈائریکٹر نیلز ایرک نورلنڈ Niels Erik Nörlund تھے۔ 1925 میں، اس نے لیہمن کو اپنے معاون کے طور پر کام کرنے کی دعوت دی۔ Nörlund زلزلوں کا مطالعہ کرنے کے لیے ڈنمارک اور گرین لینڈ بھر میں ایک معلوماتی نیٹ ورک کی تعمیر، دنیا کے سب سے جدید اور درست ترین سیسموگراف اسٹیشنوں کی تعمیر کے مشن پر تھا۔
اس وقت، لیہمن زلزلوں کے بارے میں بہت کم جانتی تھیں۔ “میں شاید 15 یا 16 سال کی ہوں گی جب، ایک اتوار کی صبح، میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ گھر میں بیٹھی تھی، اور فرش ہمارے نیچے سے سرکنے لگا،یعنی ایک ہلکا زلزلہ آرہا تھا” اس نے 1987 کے ایک مضمون میں لکھا۔ “یہ زلزلے کے ساتھ میرا واحد تجربہ تھا جب تک کہ میں 20 سال بعد ایک ماہر زلزلہ سائنسدان نہیں بن گئی تھی ۔”نیلز ایرک نورلنڈ کے ساتھ کام کرے ہوئے، Lehmannنے سیکھا کہ سیسموگرافس، جو زلزلے کی شاک ویوز کو ریکارڈ کرتے ہیں، سائنسدانوں کو زلزلے کی اصل، یا مرکز کا تعین کرنے کے قابل بناتے ہیں جسکو ہم اپیک سینٹر epicenter کہتے ہیں۔ اور چونکہ لہریں مختلف مادوں کے ذریعے مختلف انداز میں حرکت کرتی ہیں، اس لیے “زمین کی اندرونی ساخت کا علم سیسموگرافس کے مشاہدات سے حاصل کیا جا سکتا ہے،” اس نے لکھا – یہ ہمارے سیارے کے اندر جھانکنے کا ایک چکر کا راستہ ہے، کیونکہ اب تک نیچے کی سطح سے براہ راست نمونے نہیں لیے جا سکتے ہیں۔
ایک غیر معمولی ریاضی دان، لیہمن نے تیزی سے زلزلے کا حساب کتاب کیا۔ 1920 کی دہائی کے آخر تک، سیسموگرافک تشریح میں لیہمن کی مہارت نے اسے سیدھے جیو فزکس میں ایک کافی عرصے سے غیر حل شدہ مسئلہ کی طرف لے جایا تھا۔زلزلہ کے اعداد و شمار نے طویل عرصے سے دو قسم کی لہروں کو ریکارڈ کیا تھا۔ پی لہریں P waves، یا دباؤ کی لہریں، مادے کو کمپریس اور پھیلنے کا سبب بنتی ہیں جس سمت میں لہریں سفر کر رہی ہیں۔ پی لہریں ٹھوس، مائعات یا گیسوں میں سے گزر سکتی ہیں۔ ایس لہریں S Waves ، یا عمودی Shear لہریں، مختلف ہوتی ہیں – وہ مادے کو اپنے آپ پر پھسلنے کا سبب بنتی ہیں، لہر کی حرکت کی سمت کے لیے عمودی کھڑے ہوتے ہیں۔ اور وہ صرف ٹھوس مادے یا کچھ انتہائی چپ چپے گاڑھے مائعات کے ذریعے سفر کر سکتی ہیں، لیکن گیسوں میں سفر نہیں کرسکتیں۔
چونکہ دباؤ کی لہریں یا “پی ویوز” مائعات کی نسبت ٹھوس میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں، اس لیے زلزلے کی P-wave اپنے مرکز کی سمت “مڑتی” ہے جب یہ زمین کے ٹھوس پردے سے اپنے مائع کور میں منتقل ہوتی ہے، جیسا کہ روشنی کسی منشور سے گزرتی ہوئی اس کے ذریعے جھکتی ہے۔
1880 کی دہائی کے آخر سے، ماہرین زلزلہ نے مشاہدہ کیا تھا کہ، P-wavesکے برعکس، S-wavesکی حرکت کا دنیا کے دوسری طرف زلزلے کے مرکز سے پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔ زمین کے اندر کوئی چیز انہیں ان کے ممکنہ راستوں میں انکو روک رہی تھی۔ 1926 میں، برطانوی جیو فزیکسٹ ہیرالڈ جیفریز Harold Jeffreys نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کا ایک مائع کور ہونا چاہیے، جو ایس لہروں کو وہاں سے گزرنے سے روکتا ہے۔ جیفریز کے ماڈل کا یہ مطلب بھی تھا کہ پی لہروں کو دنیا کے دوسری طرف کچھ جگہوں پر نہیں جانا چاہئے۔ لہریں، مائع کور سے سفر کرتے ہوئے مڑ جاتی ہیں، اور ایک “شیڈو زون” پیدا کرتی ہیں – لیکن وہ لہروں کے مرکز سے بہت دور ایک دھبہ جیسی جگہ پر نہیں پہنچ پاتیں؟
لیکن اس وضاحت میں ایک مسئلہ تھا: نئے، بہتر سیسموگرافس شیڈو زون میں پی لہروں کا پتہ لگا رہے تھے۔ وہ کم اور نہایت ہی مدھم تھیں، لیکن وہاں موجود ضرور تھیں، اور اس وقت جیو فزیسسٹ ان کی غلط شناخت کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جرمنی کے ماہر زلزلہ، بینو گٹن برگ Beno Gutenberg نے انہیں ” ڈیفریکٹڈ لہروں diffracted wavesکا نام دیا، جس کی لیکن انہوں نےکوئی وضاحت نہیں دی تھی،” لیہمن نے لکھا۔پھر، 1929 میں، نیوزی لینڈ میں آنے والے ایک بڑے زلزلے نے مزید ٹھوس ثبوت فراہم کیے: زمین کے اندر، زلزلے کے سائے والے علاقوں میں P-wavesکا بلاشبہ پتہ چلا تھا۔ Lehmann، نئے زلزلے کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے، پریشان تھا۔ اگر واقعی زمین میں صرف ایک مینٹل اور مائع کور تھا، تو پی لہریں ان علاقوں تک کیوں اور کیسے پہنچیں تھیں؟
پھر اسے اچانک ایک خیال آیا۔ شاید زمین کے مرکز میں ایک اور تہہ لہروں کے ساتھ تعامل کر رہی تھی – ایکطرح کا علیحدہ کور، ایک دوسرےکور کے اندر گھرا ہوا ہے۔ اس نے سیسمولوجسٹ کے زمین کے کام کرنے والے ماڈل پر نظر ثانی کی اور ستمبر 1936 میں اپنا نظریہ محض “P′” کے عنوان سے ایک مقالے میں شائع کیا (پرائمری ،منسوب لہریں جو مینٹل سے کور میں گزری تھیں)۔ اس آرٹیکل میں، اس نے لکھا، “ہم یہ سمجھتے ہیں کہ، پہلے کی طرح، زمین ایک مائع کی طرح کے کور (قلب) اور ایک مینٹل (زمین کی سب سے اوپری سطح)پر مشتمل ہے، لیکن یہ کہ کور کے اندر ایک اوراندرونی کور ہے جس کے گھومنے کی رفتار بیرونی کور سے زیادہ ہے۔”
اس نئی دریافت شدہ تھیوری نے P-wavesکا ایک دیرنہ لاینحل مسئلہ حل کر دیا کہ”فاصلے پر ابھرتی ہوئی یہ لہریں ، جہاں ان کی موجودگی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا،وہ کیوں پھر ظاہر ہوتی ہیں؟” اس نے بعد میں لکھا۔گٹن برگ کے لیے، لیہمن کے زریعے اسکی نو دریافت کردہ اس پہیلی کا گم شدہ ٹکڑا مل گیا تھا۔ پر جیفریز کو 1939 تک اس بات پر یقین نہیں آیا تھا، جب دوسرے ماہرین زلزلہ نے زیادہ درست اعداد و شمار کے ساتھ حساب کتاب کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ Lehmannکا ماڈل ان کے تجرباتی مشاہدات سے سو فیصدی مماثل ہے۔
1940 کی دہائی میں، دوسرے جیو فزکس دانوں نے تجویز پیش کی کہ زمیں کا سب سے باطنی اور اندرونی مرکز ٹھوس ہے، جیسا کہ لیہمن کے مقالے نے ظاہر کیا تھا۔ اور 1952 میں، جیو فزیسسٹ فرانسس برچ Francis Birch نے ایک تفصیلی مطالعہ شائع کیا جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کا اندرونی حصہ ٹھوس ہونا چاہیے – شاید ایک کرسٹلائن یا قلمی آئرن کور کا بنا ہوا ہو۔ لیہمن نے 1953 میں اپنے ریٹائر ہونے تک Gradmaaling کے سیسمولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی چیف کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان سالوں کے دوران، انہوں نے 35 تحقیقی مقالے شائع کیے تھے۔ یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی، انہوں نے اپنی تحقیق جاری رکھی،اور وہ اپنی دلچسپیوں کو زمین کی مینٹل کی طرف لے گئیں۔
بالآخر، یہ جیفریز ہی تھے جنہوں نے 1962 میں نیلز بوہر کو لکھے گئے خط میں تجویز کیا کہ لیہمن کی زمین کے اندرونی حصے کی دریافت اس کے آبائی ملک ڈنمارک میں اعزاز پانے کی مستحق ہے۔ پھر 1965 میں لیہمن کو ڈینش اکیڈمی آف سائنسز اینڈ لیٹرز کے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔1971 میں، برچ نے لیہمن کو امریکن جیو فزیکل یونین کے اعلیٰ ترین اعزاز، بووی میڈل Bowie Medal سے نوازا۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ لیہمن کا 1936 کا انکشاف “سیسمک ریکارڈز کی جانچ پڑتال کے ذریعے بلیک آرٹ کے ایک ماہر کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا جس کے لیے کمپیوٹرائزیشن کی کوئی بھی رقم مکمل متبادل نہیں ہوسکتی ہے” – اپنے ہاتھ کے حساب کی ناقابل یقین تعداد کا حوالہ جو لیہمن نے نصف صدی قبل انجام دیا تھا، جب لوگ کسی مشینی کیلیولیشن کو جانتے بھی نہیں تھے۔
ان کے اعزاز میں، جیولوجی کمیونٹی نے زمین کے اندرونی کور اور بیرونی کور کے درمیان کی حد کو “لیہمن ڈس کنٹینیوٹی the Lehmann discontinuity” کا نام دیا، جو اج تک جیالوجی میں رائج ہے۔لیہمن کا انتقال 1993 میں، 104 سال کی عمر میں ہوا، جس سے وہ معلوم انسانی تاریخ کی سب سے طویل عرصے تک رہنے والے سائنسدانوں میں سے ایک بن گئیں۔ ان کی آخری تحریر، ایک مخطوطہ تھی جس کا نام “Seismology in days of old” ہے، ان کی موت سے چھ سال پہلے 1987 میں شائع ہوا تھا۔ یہ ان الفاظ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا جو آج بھی سچ ہے۔”اندرونی کور کی خصوصیات کے لئے پہلے ملنے والے نتائج قدرتی طور پر تخمینی تھے،” اس نے لکھا۔ “اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن آخری لفظ شاید نہیں کہا گیا ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نے وہ مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل کردیا جو مدتوں ارضیات دانوں کے لیے ایک پریشان مسئلہ کے طور پر رہا تھا”
تحریر، ترجمہ و اضافہ جات
#حمیر_یوسف
سورس آرٹیکل
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...