زمین کا یہ خوبصورت ماحول کس طرح بنا؟ جس کی کھلی فضا میں ہم آزادانہ، گہری اور اطمنان بھری سانسیں جی بھر کے لے سکتے ہیں۔۔۔۔
کم از کم نظامِ شمسی میں ایسا کوئی سیارہ یا کوئی چاند نہیں ہے جہاں یوں آزادانہ سانسوں کا سلسلہ قائم رکھ سکیں۔۔۔
نظام شمسی میں 8 سیارے اور 160 سے زیادہ چاند ہیں۔ ان میں سے سات سیارے زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کے سیاروں کا اپنا ایک نمایاں ماحول ہے۔
مگر وہاں کی کھلی فضا پھر بھی زمینی فضا جیسی نہیں مثلاً زہرہ سیارے کی اپنی فضا تو ہے مگر وہ بہت گھنی ہے اور مریخ کی بھی اپنی فضا ہے مگر کم گھنی۔۔ اور ان میں کسی پر بھی اتنی اکسیجن موجود نہیں۔۔۔۔
اکسیجن وُہ بیش قیمت گیس ہے جو ہماری سانسوں کے ذریعے ہمارے جسم میں گردش کرتی ہے۔۔۔ زمین پر رہنے والے جانور اور انسان اس کے بغیر چند منٹوں کے اندر دم گھٹنے کے سبب زندگی کی بازی ہارنے لگیں گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ماہرین زمین کے ماحول کی ارتقاء کو تین مراحل میں بیان کرتے ہیں۔۔۔۔
ایٹموسفیر#1:
زمین کی تشکیل کے وقت زمین کی سطح کی طرح زمین کا بنیادی ماحول بھی شدید ترین گرم تھا۔۔
زمین کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والی گیسیں ہائیڈروجن ( H²)اور ہیلیم (He) شدید گرم حالت میں تھیں۔۔۔ جس کے سبب ان کے مالیکیولز بہت تیزی سے حرکت کرتے تھے۔۔۔
یہ اتنے تیز تھے کہ یہ زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہو کر آخر کار خلاؤں میں بکھر گئے
زمین کا بنیادی ماحول انہی دو گیسوں کی بھاری مقدار کا مجموعہ تھا کیونکہ سورج کی تشکیل بھی انہی گیسوں سے ہوئی اور باقی بچ جانے والا مادہ بھی زیادہ تر انہی گیسوں کا مجموعہ تھا جو سورج کے گرد تیزی سے ڈسک نما شکل میں گھوم رہا تھا اور اس مادے سے تمام سیارگان اور دیگر نظامِ شمسی کے اجسام کی تشکیل ہوئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایٹموسفیر#2
ایک طویل وقت کے بعد زمینی ماحول اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا۔۔۔ اس وقت زمین پر آتش فشاں پہاڑوں کی کثرت تھی۔۔۔ اس وقت زمین کی پرتیں بھی ارتقائی مراحل میں تھیں یعنی زمین کی سطح مکمل طور پر ابھی ٹھوس نہیں ہوئی تھی۔۔۔
آتش فشاں پہاڑوں نے لاوا اگل اگل کر بہت سے پانی (H²O) کو بھاپ میں تبدیل کرنے کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ ( C O ²) اور امونیا (NH³) جیسی گیسوں کو بھی پیدا کیا۔۔۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندروں میں تحلیل ہو گئی جس نے سورج کی توانائی سے ملکر سادہ بیکٹیریا کی پرورش میں بنیادی کردار ادا کیا
اور ان بیکٹیریا نے بطور فضلہ اکسیجن کا اخراج کیا۔۔۔ اسطرح زمین کی فضا میں اکسیجن کی مقدار بڑھنے لگی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہونے لگی۔۔۔
(بھاپ H²O میں دو ہائیڈروجن ایٹم اور ایک اکسیجن ایٹم ہوتا ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ CO² میں ایک کاربن ایٹم اور دو اکسیجن ایٹم ہوتے ہیں جبکہ امونیا NH³ میں ایک نائٹروجن ایٹم اور تین ہائیڈروجن ایٹم ہوتے ہیں)
ایک طرف تو فضا میں اکسیجن بڑھ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہو رہی تھی تو دوسری جانب
سورج کی حرارت سے امونیا کے مالیکیول ٹوٹ کر نائٹروجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل ہورہے تھے۔۔۔
سب سے ہلکا عنصر ہونے کے سبب ہائیڈروجن زمین کی سب سے بالائی فضا میں جانے لگی اور وہیں سے خلا میں منتقل ہونے لگی
ایٹموسفیر#3
آخر کار ساری ہائیڈروجن بھی خلا میں کھو گئی۔۔۔ اب زمین کی فضا میں 78فیصد نائٹروجن، 21فیصد اکسیجن اور دیگر گیسیں 1فیصد جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا انتہائی چھوٹا سا حصہ یعنی صرف385۔0فیصد حصہ فضا میں موجود تھا۔۔۔
اب زمین کے ماحول میں زندگی کے لائق فضا بن چکی تھی۔۔۔ اور کروڑوں سالوں سے زندگی اسی خوبصورت فضا میں پروان چڑھتی رہی۔۔۔ اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے
اسکی اس فضا میں زندگی بڑے خوبصورت توازن سے ارتقاء پذیر ہے یعنی پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور اکسیجن خارج کرتے ہیں اور ان کے مقابلہ میں جانور اور انسان اکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں، آگ کے جلنے میں بھی اکسیجن صرف اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے
اس بہترین چکر سے زمین کی فضا میں گیسوں کا تناسب برقرار رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمحہء فکریہ:
کروڑوں سالوں سے زمین پر زندگی بڑے خوبصورت توازن کے ساتھ پھلتی پھولتی، اچھلتی کودتی اور اپنے رنگ بکھیرتی رہی۔۔۔۔ کوئی چند لاکھ سال قبل ہی حضرت انسان نے سینہء ارض پر قدم رنجا فرمایا۔۔۔
پہلے پہل تو وہ زمین کے تمام جانداروں کے ساتھ گھل مل کے زمین کے حسین و جمیل ماحول سے خوب لطف اندوز ہوا مگر پھر۔۔۔۔۔۔۔
اُسے اس گھمنڈ نے آ گھیرا کہ وہ زمین پر موجود تمام جانداروں سے افضل ہے۔۔۔ اسی گھمنڈ میں اس نے دیگر جانداروں کا جینا محال کردیا۔۔۔ شکار کر کر کے کئی زمینی جانداروں کی نسلیں تک مٹا ڈالیں۔۔۔ وقت کے ساتھ انسان کی بربریت اور حوس بڑھتی گئی۔۔۔ اپنی آبادی کو بےتحاشا بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی فہرست کو طویل سے طویل تر کر دیا۔۔۔
جدت پسندی سے زیادہ شدت پسندی سے کام لیتے ہوئے (فطرت نے جس حسین ماحول کو بنانے میں کروڑوں سال لگائے۔۔۔) حضرت انسان نے چند سو سالوں کے اندر ہی اسے بگاڑ کے رکھ دیا
اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ جان کے لالے پڑنے لگے ہیں۔۔۔۔
فطرت نے جیسے انتقام لینا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔ اگر اب بھی ہم نہ سدھرے اور زمینی ماحول کے خوبصورت توازن کو دوبارہ سے قائم کرنے کی کوشش (جو ہمارے بس میں ہے) نہ کی تو فطرت ہمیں مٹا کر پھر سے اس خوبصورت ماحول کو قائم کرے گی۔۔۔۔ ایسا کرنا اُسے خوب آتا ہے اور ازل سے کرتی آ رہی ہے۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...