جیسے جیسے خلا کی تسخیر کی ٹیکنالوجی بہتر ہو رہی ہے یہ امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم عنقریب زمین کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر زندگی کے آثار ڈھونڈ لیں گے۔ یہ زندگی مائیکروب جیسی سادہ شکل میں بھی ہو سکتی ہے اور کوئی ایڈوانس ایلین سویلائزیشن بھی جو زمین جیسے کسی سیارے پر نوری سالوں کی مسافت پر بستی ہو۔
تاہم میرا خیال ہے کہ ہم نظامِ شمسی کے ہی کسی سیارے یا اسکے چاند پر متوقع طور پر سادہ زندگی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے پانچ اہم اُمیدوار جگہیں ہیں جہاں زندگی ہو سکتی ہے۔
1. زہرہ
سیارہ زہرہ کی فضا جہاں ممکنہ طور پر اسکی فضا کے اوپری حصے میں ایسے حالات ہیں جہاں درجہ حرارت معتدل اور زندگی کے تمام بنیادی اجزا جیسے کہ نامیاتی مالیکولز ، پانی کے بخارات) معمولی مقدار میں) اور حرارت موجود ہے۔
اس حوالے سے مختلف سپیس ایجنسیوں کے کئی مشن اس دہائی میں زہرہ کی فضا کے جائزے کے لیے بھیجے جائیں گے۔
2. مریخ
مریخ پر ماضی میں پانی کے سمندر اور جھیلیں موجود تھیں۔ مریخ پر پانی اسکے قطبین پر اور اسکی سطح میں اب بھی موجود ہے۔ اسکے علاوہ اسکی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی موجود ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہاں ماضی میں زندگی موجود تھی اور شاید یہاں زمین پر زندگی سے بھی پہلے زندگی کی ابتدا ہوئی۔ مریخ کی تسخیر کے لیے یہاں کئی مشن بھیجے جا چکے ہیں جن میں حالیہ مشن ناسا کا پریزورنس روور ہے جو اسکی مٹی کا تفصیلی تجزیہ کر رہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مریخ پر اب بھی ماضی کی زندگی کے سادہ مائیکروب اسکی سطح کے نیچے زندہ ہوں اور انہوں نے مریخ کے شدید ماحول میں خود کو ڈھال لیا ہو۔ تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
3. یوروپا
مشتری کا چوتھا بڑا چاند یوروپا جسکی سطح پر برف ہے۔ اس برف میں دراڑیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ برف کے نیچے پانی کے سمندر ہیں جو مائع حالت میں موجود ہیں۔ اور انہیں مائع حالت میں رکھنے کے لیے توانائی یوروپا اور مشتری کی باہمی کششِ ثقل کے کچھاؤ سے ممکن ہے۔ اسکے علاوہ بھی یہاں توانائی کے دوسرے ذرائع ہو سکتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ اس حوالے سے ناسا اکتوبر 2024 میں اس چاند کی طرف ایک سپیسکرافٹ بھیجے گا جو اسکے مدار میں گردش کرتے ہوئے اس سے اُٹھنے والے پانی کے بخارات کا جائزہ لے گا اور معلوم کر پائے گا کہ یہاں کیا سادہ شکل میں زندگی موجود ہے یا نہیں۔
4. ٹائٹن
زحل کے سب سے بڑا چاند ٹائٹن پر سادہ مگر زمین سے مختلف طرز کی زندگی ہو سکتی ہے۔ یہاں کی فضا میں نامیاتی اجزا موجود ہیں اور اسکی سطح پر میتھین اور ایتھین کی جھیلیں اور برف پائی گئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اسکی برفیلے تہہ کے نیچے پانی موجود ہو۔ 2010 میں اسکی فضا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ اس میں میتھین گیس کی مقدار تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ یہ میتھین کیا کوئی سادہ زندگی جیسے کہ مائیکروب خارج کرتے ہیں؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم اس حوالے سے ناسا 2027 میں ڈریگن فلائی نامی سپیسکرافٹ کو اس اس چاند کے تجزیے کے لیے بھیجے گا جو اسکی سطح پر اُتر کر اسکا تفصیلی جائزہ لے گا۔
5. اینسیلیڈس
زحل کا چھٹا بڑا چاند جہاں آتش فشاں ہیں۔ اسکی سطح بھی برف سے ڈھکی ہے اور اس کے جنوبی قطب پر پانی کے فوارے سے نکلتے ہیں جو کئی کلو میٹر بلندی تک جاتے ہیں۔ اس چاند پر زندگی ممکن ہے جیسے زمین پر اسکے ابتدائی دنوں میں زیرِ زمین یا سمندروں میں جیولاجیکل ایکٹویٹی کے باعث سادہ زندگی وجود رکھتی ہے۔ اس حوالے سے مستقبل کے مشنز ہی حتمی طور پر بتا سکتے ہیں جو اسکی سطح سے نیچے سمندروں میں جا کر اسکا تجزیہ کر سکیں۔جرمن سپیس ایجنسی اور ناسا مستقبل میں یہاں مشنز بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ممکنات کی دنیا میں مشتری یا زحل کی فضا میں بھی سادہ زندگی ہو سکتی ہے تاہم اسکے امکانات کم ہیں۔
اس سب کے علاوہ نظامِ شمسی سے باہر بھی کئی ایسے سیارے موجود ہیں جہاں ہم مستقبل میں شاید زندگی ڈھونڈ سکیں۔ جیمز ویب ٹیلسکوپ اور دیگر خلائی اور زمینی دوربینیں اور مشنز ہمیں مستقبل میں ان سوالات کے جواب دے سکتے ہیں۔ کائنات کی تسخیر ایک پیچیدہ اور صبر آزما عمل ہے جس میں لاکھوں سائنسدانوں کی محنت، پیسہ اور جستجو کا تسلسل شامل ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ناسا یا کوئی اور سپیس ایجنسی یہ اعلان کر رہی ہو کہ ہم نے بلاآخر کائنات میں زمین کے علاوہ کہیں زندگی ڈھونڈ لی ہے۔ ممکن ہے ہماری نسل یہ خبر سنے اور ممکن ہے کہ ہمارے بعد کی نسل۔ تاہم خلا کی ٹیکنالوجی میں بہتری اور سستا ہونے کے سبب اس صدی کے آخر تک ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ چکے ہونگے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا یہاں کوئی اور بھی ہے۔
خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...