زمیں ہلی ،نہ آسمان پھٹا ۔۔۔۔
زندہ دلوں کے شہر لاہور کے قریب ایک اور چھوٹا سا شہر ہے ،جس کا نام قصور ہے ،جی ہاں وہی قصور جہاں بابا بلھے شاہ کا مزار بھی ہے،قصور کے گاوں حسین والا میں دو برس پہلے ایک اندوہناک اور دلخراش واقعہ پیش آیا تھا ۔یقین میرے سمیت الباکستان کے کسی باسی کو وہ واقعہ بھول چکا ہو گا ۔جی ہاں دو برس پہلے قصور کے گاوں میں سینکڑوں بچوں کی جنسی ویڈیوز بنائی گئی تھی ،یہ جنسی بیلک میلنگ اس گاوں میں کئی سالوں سے جاری و ساری تھی ۔بچوں کے ساتھ شرمناک جنسی زیادتیوں کا یہ کاروبار وہاں کے طاقتور شخصیات کی زیر نگرانی ہورہا تھا ۔یہ بہت بڑا اسکیںڈل تھا ،سب کہہ رہے تھے اب زمین ہل جائے گی اور آسمان پھٹ جائے گا ،نہ زمین ہلی اور نہ آسمان پھٹا ۔اب الباکستان میں کیا ہونا تھا ۔اب اسی واقعے کا سیکوئل آگیا ہے ۔ایک معروف انگریزی اخبار ہے جس کا نام ہے ڈان ،اس میں ایک اور دلخراش رپورٹ چھپی ہے ۔اس رپورٹ کے مطابق بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں پچھلے چھ ماہ کے دوران پانچ سے دس سال کی عمر کے دس بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل کئے گئے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق پہلے درندوں نے ان معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ،اور اس کے بعد ان فرشتوں کو قتل کردیا ۔جنسی زیادتی کے بعد قتل کئے جانے والوں میں سات معصوم بچیاں اور تین بچے تھے ۔ان تمام بچوں کی لاشیں قصور میں زیر تعمر عمارتوں سے مختلف اوقات میں ملی ہیں ۔اس سیریل کلنگ کی پہلی لاش جنوری میں ملی تھی اور آخری لاش آٹھ جولائی کو ایک آٹھ سالہ بچی کی ملی ہے ،یہ بچی تیسری جماعت کی طالبہ تھی ۔معصوم بچی کی ماں ایک گھریلو ملازمہ ہیں ۔بیچاری ٹیوشن پڑھنے گئی ،کسی درندے کے ہاتھ چڑھ گئی ،جس نے اس معصوم کے ساتھ ریپ کیا اور پھر اس بچی کو قتل کردیا ۔کتنی المناک بات ہے ۔کیا کسی میڈیا چینل میں ایسی خبریں آپ نے دیکھی ہیں ،یقینا نہیں دیکھی ہو ں گی ،بھائی قصور میں ریٹنگ میٹر جو نہیں ہے ۔کیا ایسی خبر کو رد کرنا چاہیئے ؟لیکن پاناما سے فرصت ملے تو ایسی خبریں چلیں ۔یہ دس کے دس بچے قصور کے دس کلو میٹر کے علاقے میں ہوئے ۔سنا ہے اب اس دس کلومیٹر کے علاقے میں والدین نے بچوں کو کہا ہے کہ وہ اسکول نہ جائیں ،گھر میں رہیں ،ٹیوشن پر نہ جائیں ۔سنا ہے قصور کی پولیس نے ایک سو پچاس افراد کو گرفتار کیا تھا ،آہستہ آہستہ سب کو چھوڑ دیا ہے ۔پولیس کے مطابق شدید قسم کی تشویش جاری ہے ،جیسے ہی مجرموں کے بارے میں علم ہوا ،ان کو عبرتاک انجام تک پہنچایا جائے گا ۔پنجاب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پیش رفت ہورہی ہے ،ارے گھٹیا لوگو،کہاں پیش رفت ہو رہی ہے ،پانچ سے دس سال کی بچیاں جنسی حوس کا نشانہ بن رہی ہیں ،ملزموں کو تم چھوڑ رہے ہو ،پھر بکواس یہ کرتے ہو کہ پیش رفت ہو رہی ہے ،خادم اعلی کو معصوم بچوں کی کیا پروا ،اس کی تمام توجہ میٹرو ، اورینج ٹرین اور شادیاں کرنے پر ہے ۔حسین والا گاوں میں سالوں سے یہ کام ہو رہا تھا ،سچ دنیا کے سامنے آگیا ،ویڈیوز سامنے آگئیں ،مجرموں کی نشاندہی ہو گئی ،کیوں اقدامات نہ اٹھائے گئے ؟کہاں تھا یہ خادم اعلی جو کہتا ہے پاکستان کو پیرس بنادوں گا ،جو کہتا ہے ترقی سے مخالفین کانپ رہے ہیں ،یہ ہے ترقی کہ معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔قصور کا یہی ایک قصور ہے کہ یہ مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے ۔ان کے بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں ،وہ پھر بھی ووٹ شہباز شریف کو دیتے ہیں ،ایسے میں شہباز شریف کو ٹینشن لینے کی کیا ضروت ہے ؟کیا پاکستان ہے جہاں معصوم بچوں کے ساتھ ریپ ہو رہا ہے اور یہ خبر ،خبر ہی نہیں ۔کیا ملک ہے جہاں ایسے ایشوز پر کہا جاتا ہے مٹی پاو جی ،کیا معاشرہ ہے ،کیا بے حسی اور بے غیرتی ہے ؟میٖڈیا خاموش ،مشرقیت اور مذہب کی تبلیغ کرنے والے خاموش ،خادم اعلی خاموش ،والدین بدنامی کے ڈر سے خاموش ،کیا شرمناک اور بدبودار کلچر ہے جس میں ہم زندہ ہیں ۔اگر کہیں کہ بچوں کو جنسی تعلیم دی جائے تو کہا جاتا ہے یہ بات مذہب کے خلاف ہے ،یہ تو بچوں کو سکھاتے ہو کہ وہ بڑوں کا احترام کریں ،یہ بھی سکھاو کہ بچوں کے ساتھ کوئی گھٹیا رویہ اختیار کرے تو بچے ماں باپ کو بتائیں ،اس کے لئے جنسی تعلیم چاہیئے ،جو آپ کے نزدیک بے شرمی اور بے غیرتی ہے ،بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہو کر تڑپ تڑپ کر مر جائے ،کیا یہ بے غیرتی نہیں ؟اب آگے پشاور چلیئے جہاں پرائیویٹ اسکول کے ایک پرنسپل کو گرفتار کیا گیا ہے ،اس درندے کا نام عطااللہ خان ہے ،چہرے پر داڑھی ہے ،پانچ وقت کا نمازی ہے ،تبلیغ پر جاتا ہے ،یہ درندہ جو صورت سے فرشتہ لگتا ہے اسی بچیوں کا ریپ کر چکا ہے ۔ان اسی بچیوں سے جنسی زیادتی کی ،پھر ان کی ویڈیوز بنائیں اور دھمکایا کہ کسی کو بتایا تو یہ ویڈیوز سامنے لے آئے گا ۔اس درندے نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بچیوں کا ریپ کرتا تھا ۔اس کے لیپ ٹاپ سے سینکڑوں فحش ویڈیوز سامنے آئیں ہیں ۔کیا یہ ہیں مشرقی روایات جس کا ڈھونڈورا چوبیس گھنٹے پیٹا جاتا ہے ،کیا یہ ہیں اخلاقیات ؟ماں باپ کہتے ہیں بات چھپا دو ناک کٹ جائے گا ،بچی کا رشتہ نہیں ہو گا ،بچے کا کیرئیر تباہ ہو جائے گا ۔پولیس کہتی ہے معاملہ دبادیا جائے ،بڑی بدنامی ہوگی ،وکیل کہتا ہے معاملہ عدالت میں گیا تو عدالت کے کٹہرے میں زلالت ،کیا یہ معاشرہ ہے ،یہ معاشرہ ہے تو اس پر میری طرف سے لاکھوں بار لعنت ،ایسی تہذیب کر لعنت بیشمار ۔ہمارا معاشرہ درندوں کا معاشرہ ہے ،یہ ایسا بیحودہ معاشرہ ہے جو اپنے ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے ۔ہم سب معصوم بچوں کے قتل کے زمہ دار ہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔