’’کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
بہت سی باتیں پاکستانی عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر نے جو بیرون ملک قیام پذیر ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ پر اپنے پیغام میں اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کسی فرد یا ادارے کو اقتدار پر قابض نہیں ہونے دیں گے۔ باہر بیٹھ کر وہ اتنا بڑا کام کیسے کر لیں گے؟ یہ بات عوام کی سمجھ سے باہر ہے! ’’شریک چیئرمین‘‘ کی اصطلاح بھی عوام کے لیے نئی ہے۔ اس سے پہلے سیاست میں یہ استعمال نہیں ہوئی۔ ہمارے کلچر میں ’’شریک‘‘ اتنا با عزت لفظ نہیں۔ خاندان برادری میں شریکوں کا کام عام طور پر حسد کرنا، کیڑے نکالنا، غیبت کرنا اور شادی کے کھانے پر اعتراضات کرنا ہے۔ ظفر اقبال کا پنجابی شعر ہے ؎
اُسّی دے سب شہر شریکے، نالے پِنڈ گراں
ساڈا کی اے، اسی مرن نوں لبھدے پھردے تھاں
یہ اور بات کہ شریک چیئرمین، ’’تھاں لبھدے پھردے نہیں‘‘ وہ تو مشرق وسطیٰ کے قلب میں بیٹھے ہیں اور محل میں بیٹھے ہیں۔ معلوم نہیں کیا یہ وہی محل ہے جو مبینہ طور پر اُن کی بیگم صاحبہ نے خریدا تھا اور جس کے آنکھوں کو چندھیا دینے والے فوٹو سوشل میڈیا پر عام ہیں!
ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو اِس وقت دنیا کے بڑے بڑے شہروں پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ دبئی میں ہماری ایک بڑی سیاسی پارٹی کے شریک سربراہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ لندن ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ الطاف بھائی اس شہر کو عالمی شہرت بخشے ہوئے ہیں۔ کینیڈا(غالباً ٹورنٹو) میں ڈاکٹر طاہرالقادری مسلمانوں کی بیک وقت روحانی اور سیاسی قیادت کا حق ادا کر رہے ہیں! اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر اسفند یارولی خان کابل جا بیٹھیں، مولانا فضل الرحمن لیبیا یا عراق چلے جائیں اور ہمارے وزیر اعظم پورا دارالحکومت ہی جدہ منتقل کر دیں تو مزہ آ جائے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
لیبیا اور عراق گزرے ہوئے سنہری دنوں میں ہمارے مذہبی رہنمائوں کے نام منسوب تھے۔ مومنؔ یاد آ گیا ؎
یادِ ایّام عشرتِ فانی
نہ وہ ہم ہیں نہ وہ تن آسانی
اپنے بیان میں جناب زرداری نے ایک بات کمال کی کی ہے! بات کیا کی ہے، بھارت کے چھکے چھڑا دیئے ہیں! فرمایا ہے کہ مقدس گائے کا نظریہ بھی بدترین کرپشن ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گائے کو مقدس کہاں سمجھا جاتا ہے۔ جو بھی بھارت سے ہو کر آتا ہے، شکایت کرتا ہے کہ گلیوں بازاروں میں ہر جگہ گئو ماتا کھلی پھر رہی ہے۔ اس کے گوبر اور پیشاب کو بھی تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ مسلمان ہمیشہ گائے کو ذبح کرنے کے جھوٹے یا سچے الزام پر زیر عتاب رہتے ہیں۔ اب تو یکے بعد دیگرے متعدد بھارتی ریاستیں گائے کو ذبح کرنے پر پابندیاں عاید کیے جا رہی ہیں۔ بھارت میں کرپشن عام ہے۔ تھانوں، کچہریوں، دفتروں میں ’’پرشاد‘‘ بانٹے بغیر کام نہیں ہوتا مگر جناب زرداری نے یہ کہہ کر کہ مقدس گائے کا نظریہ بدترین کرپشن ہے، بھارتیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
ہماری جناب سابق صدر سے گزارش ہے کہ یہ جو بھارت میں بندروں کو تقدیس عطا کی جاتی ہے، اس پر بھی اظہار خیال کریں اور ہندو مسلمان کی ثقافتی جنگ میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ کالم نگار جب آگرہ کے نواح میں اکبر بادشاہ کے مزار پر گیا تو بندروں کی فوج ظفر موج دیکھ کر حیران ہوا۔ ہمارے پسندیدہ شاعر جناب ظفر اقبال نے اس موضوع پر ’’ہے ہنومان‘‘ کے عنوان سے پورا شعری مجموعہ مختص کیا ہے۔ ان کے بے شمار شعر یاد ہیں مگر افسوس! اس مجموعے کا کوئی ایک شعر بھی اس وقت یادداشت کا ساتھ نہیں دے رہا۔
جہاں تک عوام کے نہ سمجھ سکنے کا تعلق ہے تو اس میں جناب آصف زرداری ہی نہیں، ہمارے دیگر رہنمائوں کے اسمائے گرامی بھی درمیان میں پڑتے ہیں۔ مثلاً عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اقتصادی راہداری کے مشرقی اور مغربی رُوٹ کو متنازع بنانے میں کون سی حکمت عملی کارفرما ہے؟ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ راہداری پر ایک آواز ہو کر وفاق سے بات کریں گے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اسے گورکھ دھندہ بنایا گیا تو ایک اور کالا باغ ڈیم بن جائے گا۔ یعنی اصل کالا باغ ڈیم تو بن نہ پایا، ہاں اقتصادی راہداری ایک اور کالا باغ ڈیم بن جائے گی۔ کئی معروف کالم نگاروں کے بعد اب کے پی کے وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک نے بھی اعتراض کیا ہے کہ وزیر اعظم نے ژوب میں جس شاہراہ کا افتتاح کیا وہ راہداری منصوبے کا حصہ ہی نہیں! عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت آبیل مجھے مار اور ضرور مار کے مصداق، اس معاملے کو سنگین اور پیچیدہ کیوں بنا رہی ہے۔ جناب احسن اقبال نے کہ وزیر باتدبیر ہیں، یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ راہداری منصوبے کی اہمیت نیوکلیئر پروگرام جیسی ہے۔ گویا لطیف پیرائے میں انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح نیوکلیئر منصوبے کی تفصیلات منظرِ عام پر نہیں لائی جا سکتیں، اسی طرح راہداری کی تفصیلات بھی خفیہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تک سب سر مارتے رہیں کہ ژوب میں کس شاہراہ کا افتتاح ہوا، اور مغربی رُوٹ کتنی لائنوں پر مشتمل ہو گا۔ اصل صورتِ حال خفیہ ہی رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی جناب اعتزاز احسن کے اس بیان پر غور فرمائیے کہ وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی ہی غلطیوں سے نقصان اٹھاتے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ کب اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اگر کوئی سرکاری مصور ہوتا تو تصویر بناتا جس میں وزیر اعظم کلہاڑی پکڑے کھڑے ہیں اور پوری قوم سانس روکے دیکھ رہی ہے کہ کس پائوں پر وار کرتے ہیں! آخر اس تاثر کو کیوں نہیں زائل کیا جا رہا کہ مغربی رُوٹ کی قربانی دے کر پنجاب کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صحافیوں اور سیاست دانوں کو بلا کر، ایک بار ہی یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کیا بدقسمتی ہے کہ جب بھی دودھ سامنے آتا ہے، اس میں مینگنیاں نظر آتی ہیں۔ ہم کسی بھی معاملے کو بخیروخوبی سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔ بھارت بھی ابتدائی شورو غوغا کے بعد راہداری کے سلسلے میں خاموش ہے اور اطمینان سے بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ اگر پاکستانی خود ہی اس سارے منصوبے کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو بھارت کو ایران کے ساتھ یا کسی اور ملک کے ساتھ مل کر، کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے! ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہو تو یہ روزِ سیاہ
خود مرے گھر کے چراغاں نے دکھایا ہے مجھے
سیدھی سی بات ہے۔ چین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، وہ اگر پوری قوم کے سامنے نہیں رکھا جا سکتا تو کم از کم تشویش ظاہر کرنے والے سیاست دانوں اور صوبوں کے حکمرانوں کو تو دکھایا جا سکتا ہے۔ اسے اتنا خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے؟
جیسے یہ سارے مسائل کم نہ تھے کہ ایک اور وحشت اثر خبر قوم کو سنائی گئی۔ ڈاکٹر عاصم میں خودکشی کے رجحانات پائے گئے ہیں اور یہ کہ وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ گویا جس وقت وہ کروڑوں روپے روزانہ کا حساب کتاب کر رہے تھے، اس وقت نفسیاتی مریض نہیں تھے! اور کیا ڈاکٹر عاصم اس ملک کے پہلے نفسیاتی مریض ہیں؟ کبھی کبھار اس قسم کی خبریں چھپتی ہیں کہ ایک گداگر مرا تو اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر سے لاکھوں روپے ملے۔ وہ بھی تو نفسیاتی مریض ہی تھا۔ اگر جائیدادیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہوں، ان میں رہنے کا وقت ہو نہ موقع ملے، تجوریاں اور بینک اکائونٹ بھرے کے بھرے رہ جائیں اور مالک، ساری بدنامیاں سمیٹ کر صرف چند گز کفن اوڑھے قبر میں جا لیٹے تو ماہرینِ نفسیات اسے کیا نام دیں گے؟ ؎
زمیں گردش میں ہے اس پر مکاں رہتا نہیں ہے
مگر اس سے نہیں آگاہ وارث آہ میرے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“