یہ کائنات ایک ایسا پیچیدہ شاہکار ہے کہ بڑے سے بڑا، ریاضی دان، طبیعات دان، فلکیات دان ( سائینسی کے کسی بھی شعبے کا ماہر) اسے دیکھ کر بھونچکا رہ جاتا ہے……
اس کائنات کے ریاضیاتی حساب، طبیعاتی قوانین اور انتظامات میں ذرا سا نقص نظر نہیں آتا…
کائنات کا ہر مظہر، ہر واقعہ کسی بہت بڑے فول پروف منصوبے کی کڑی نظر آتا ہے۔۔۔۔
کائناتی سرگرمیاں بلا مقصد اور حادثاتی طور پر رونما نہیں ہو رہیں چاہے
ستاروں کا سپرنووا ہونا، سرخ دیو بننا، بلیک ہول اور نیوٹران ستارے بننا ہو یا کہ کہکشاؤں کے تصادم ہُوں۔۔۔ یا پھر ستاروں اور سیاروں کا اپنے مداروں اور محور پر خوار و زبوں ہونا ہو۔۔۔۔
دور جانے کی بجائے آپ
زمین کے اپنے محور پر گھومنے کو ہی لے لیجئے اور تحقیق کیجئے کیا یہ بلا وجہ لٹو بنی ہوئی ہے۔۔۔؟؟؟؟
اگر یہ محور پر گھومنا بند کر دے تو کچھ بھی اثرات مرتب نہ ہوں گے؟
جب آپ اس پر تحقیق کریں گے تو دنگ رہ جائیں گے کہ زمین اپنے محور پر گھومتے ہوئے کسقدر اہم زمہ داریاں نبھا رہی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین اگر اپنے محور پر گھومنا بند کر دے تو کیا ہوگا؟؟
یہ تجزیہ صرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آپکو اندازہ ہو سکے کہ یہ گھومنا بھی بلا وجہ اور ہے سبب نہیں ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1951کی ایک فلم “دی ڈے دی ارتھ سٹوڈ سٹل” جس میں جدید اور طاقتور ایلین ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین پر موجود تمام الیکٹرونکس اشیاء کو روک دیا جاتا ہے۔۔۔
گاڑیاں، فیکٹریاں، ٹیلیویژن، ریڈیو الغرض سبھی کچھ اچانک رک جاتا ہے۔۔۔ اور سیارہ زمین ایک پراسرار اور خوفناک جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔۔۔
لیکن کیا ہوگا اگر اسی فلمی موضوع کو زیادہ بہتر بلکہ خوفناک انداز میں پیش کیا جائے جس میں ایلین ٹیکنالوجی کے ایک طاقتور ٹول کے ذریعے زمین کی محوری گردش روک دی جائے۔۔۔
“دی ارتھ سٹاپ سپننگ” جیسی کوئی فلم بنائی جائے تو یہ فلم اس پُرانی فلم سے کہیں زیادہ خوفناک اور سسپنس سے بھرپور مناظر پر مشتمل ہوگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ بات کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ اگر زمین اپنے محور پر نہ گھومتی تو زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔۔۔
اگرچہ ہمیں نہ زمین کی محوری گردش کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی مداروی گردش کو ہم زمین پر رہتے ہوئے محسوس کر پاتے ہیں۔۔۔ مگر حقیقت میں اس کی یہ دونوں گردشیں حیرت انگیز رفتار سے جاری ہیں
خط استوا پر اس کی محوری گردش 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔۔۔۔
اس ہوشربا رفتار سے گھومتے ہوئے اچانک رکتی ہے تو سیارہ زمین پر قیامت سے پہلے قیامت کا ایک خوفناک منظر اُبھرے گا۔۔ ایک شدید ترین جھٹکے سے سطح زمین پر موجود ہر چیز مشرق کی جانب فضا میں اُڑ جائے گی
تصور کیجئے !!!! جانور، لوگ، گاڑیاں مکان، چٹانیں، پہاڑ، شجر، حجر، ریت اور پانی ( الغرض سبھی کچھ جو سطح زمین پر موجود ہے) کسی ان دیکھی فورس کے ذریعے سائڈ وے لانچ ہو رہی ہے۔۔۔
جتنی گہرائی سے آپ یہ تصور باندھیں گے اتنی ہی سنسی کی طاقتور لہر کو اپنے جسم میں دوڑتا ہوا محسوس کریں گے۔۔۔
محوری گردش کے رکنے سے ایک بار تیز ترین ہوائیں چلیں گی جو زمین کو ایک بے آب و گیاہ چٹیل میدان بنا دیں گی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر محوری گردش کو آہستہ آہستہ روکا جائے؟
تو بھی تبدیلیاں ڈرامائی اور خوفناک ہُوں گی۔۔
جو وقفوں کے ساتھ ظاہر ہوں گی
زمین کی کوئی چیز یکدم فضا میں نہیں بکھرے گی مگر۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج زمین کے لحاظ سے ساکن ہے اور روزانہ اسکا ایک اُفق سے اُبھر کر دوسرے اُفق میں ڈوبتا نظر آنا زمین کی محوری گردش کا نتیجہ ہے
زمین اپنے محور پر ایک چکر 24گھنٹوں میں مکمل کرتی ہے یہی اسکا ایک دن کہلاتا ہے
اگر زمین اپنے محور پر ٹھہرنے لگے تو دن کا دورانیہ طویل سے طویل تر اور پھر طویل ترین ہوجائے گا
دن کے موجودہ دورانیہ کا عادی ہمارے جسم کا “بیالوجیکل سر کیڈين ردھم” عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہوجائے گا
ہمارے جسم کے ” ردھمک سیلولر پراسیس” سورج کی روشنی میں ہونے والی تبدیلیوں کے ذریعے ہمارے جسم کو بتاتے ہیں کہ کب سونا اور کب جاگنا ہے۔
زمین پر رہنے والی مخلوقات میں شہد کی مکھی سے لیکر درختوں تک اکثر ہی اپنی زندگی کے معمولات کیلئے “بيالوجیکل سرکیڈین ردھم” پر انحصار کرتے ہیں
اور دن کی یہ طوالت اُن کے معمولات کو شدید بگاڑ کا شکار کر کے انہیں ابنارمل کر دے گی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کا ماحولیاتی اور موسمیاتی پیٹرن بھی محوری گردش سے مربوط ہے۔۔۔ اگر یہ رک جاتی ہے تو ہوائیں ایک بار 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی شدید رفتار سے چلتے ہوئے ہمیشہ کیلئے رک جائیں گی۔۔۔
ہوا کا چلنا بارش اور درجہ حرارت کے نظام کو چلانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔۔۔
ہوا کے موجودہ پیٹرن میں غیر معمولی تبدیلی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔
اس کے علاوہ زمین کے محور پر رکنے سے سمندر بالکل پرسکون ہوجائیں گے۔۔۔ ان میں اٹھنے والے طوفانوں کا تصور بھی ختم ہوجائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کا محوری ٹھہراؤ “مقناطیسی میدان کے خاتمے” کا سندیسہ بھی لائے گا
زمین کا مقناطیسی میدان زمین کے مرکز میں موجود دھاتی سیال کے متحرک رہنے کی وجہ سے بنتا ہے۔۔۔
جو صرف زمین کی محوری گردش کی صورت میں ہی تحریک پاتا ہے
دھاتی سیال کی اس تحریک کو سائنسدان ڈائنمو کہتے ہیں۔۔۔
مقناطیسی میدان زمین کو کائناتی شعاؤں اور برقی مقناطیسی طوفانوں سے بچاتا ہے
اب تک کی تحقیقات کے مطابق کائنات میں کوئی بھی سیارہ یا ستارہ ایسا نہیں ملا جو اپنے محور پر ساکن ہو
مگر بعض سیاروں کی محوری گردش محسوس نہیں ہوتی۔۔۔ ایسی صورتحال کو ماہرین “ٹائیڈل لاکنگ”کا نام دیتے ہیں۔۔۔
ایسے سیارے اپنے ستارے کو ہمیشہ اپنا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں
ایسے سیاروں اور اُن کے ستاروں کے مابین کشش ثقل کے تعاملات سیارے کی محوری گردش کی رفتار کی شرح کو بتدریج کم کرتے ہوئے مداروی گردش کے اوقات کے مماثل کر دیتے ہیں
چاند اس کی ایک بہترین مثال ہے زمین سے ہمیشہ اسکا ایک ہی رخ نظر آتا ہے
بہت سے ایکسو پلانٹس پر بھی یہی صورتحال ہوتی ہے خاص طور پر ان سیاروں پر جن پر اُن کے ستاروں کی کشش ثقل کا اثر شدید ہوتا ہے
اگرچہ ایسے سیارے خوفناک لگتے ہیں جن کے ایک طرف دائمی ایک شدید سرد رات تو دوسری طرف تندور کی گرمی جیسا ماحول لیے ہمیشہ کا ایک دن طاری ہو۔۔۔
مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے سیاروں کے دِن اور رات والے حصوں کے درمیانی علاقوں میں رہ کر ایک خوشگوار زندگی گزاری جا سکتی ہے جہاں جھٹپٹے (Twilight) کا سماں طاری ہوتا ہے۔۔۔
دیگر ماہرین اور بہت سی تجویز پیش کرتے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ایسے سیارگان پر ایک نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ہم کیوں ان جھمیلوں میں پڑیں زمین کی محوری گردش کے رکنے کے آثار تو قیامت تک نظر نہیں آتے۔۔۔ اگرچہ زمین کی محوری گردش سُست ہو رہی ہے جس سے ایک دن 7۔1 ملی سیکنڈ فی صدی کے حساب سے لمبا ہورہاہے۔ ۔۔
آپکو ڈرانا مقصود نہیں بتانا مقصود تھا کہ زمین کی محوری گردش بھی فضول نہیں بلکہ انتہائی اہم ہے۔۔۔۔
قدرت کے کارخانے میں کوئی بھی عمل بیکار میں وقوع پذیر نہیں ھورھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔