آج کل جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا شدید گرمیوں کی لہر میں لپٹی ہوئی ہے۔ سبھی لوگ گرمیوں کی اس شدید لہر آنے سے شدید پریشان ہیں۔ آئے دن یہ خبر کہیں نہ کہیں دنیا کے کسی گوشے سے آرہی ہوتی ہے کہ فلاں مقام پر اتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگیا جسکی وجہ سے کافی لوگ ہلاک وغیرہ بھی ہوگئے اور مختلف انکے مضر صحت اثرات رونما بھی ہوئے ہیں۔ سیارہ زمین پر گرمی کا دورانیہ بڑھ ہی رہا ہے اور اسطرح یہ رجحان اسطرح کافی خطرہ کی گھنٹی بجانے والا ہوگیا۔ ہمارا سیارہ زمین، جو ہمارا اصلی گھر ہے، وہ 16 سال قبل 2005 کے مقابلے میں آج کل دوگنی مقدار میں حرارت کی مقدار اپنے اندر قید کررہا ہے، جو ہمارے آب و ہوا کے تیز ترین تبدیلیوں کے جنم دے رہا ہے۔ یہ بات ایک تازہ ترین تحقیق کے سامنے آئی۔
اس تحقیق کے لیے محقیقن نے اس ڈیٹا کو دیکھا جو انہیں CERES (Clouds and Earth’s Radiant Energy System) کے آلات اکھٹا کررہے تھے، جو ناسا کے زمین کے مشاہدات اکٹھی کرنے والی بہت ساری سیٹیلائٹس پر لگے ہوئے ہیں۔ ان آلات کا کام زمین سے خارج ہونے والی توانائی کی مقدار کو ناپنا ہے جو زمین سورج کی روشنی کی صورت میں اپنے اندر جذب کررہی ہوتی ہے اور پھر واپس زیریں سرخ (انفرا ریڈ۔ حرارت کی لہر) کی صورت میں یہ حرارت، زمین واپس خلاء میں منعکس کررہی ہوتی ہے۔
سورج سے آنے والی انرجی اور واپس زمین سے ٹکرا کر لوٹنے والی انرجی کا فرق "توانائی کا عدم توازن" ہونا کہلاتا ہے اور کیے گئی اس تحقیق کے مطابق اس 16 سال کے عرصہ (2005-2021) کا ڈیٹا بتارہا ہے کہ ایسا "عدم توازن"،قریبا دوگنا ہوگیا ہے۔ مطلب زمین زیادہ حرارت اپنے اندر جذب کررہی ہے اور کم حرارت کی واپس مقدار خلاء میں منعکس کررہی ہے۔
سائنسدانوں نے آرگو ARGO سے آنے والے اضافی ڈیٹا کو بھی استعمال کیا، آرگو دراصل ایک ایسا بین الاقوامی روبوٹک سینسرز کا نیٹ ورک ہے جو سمندروں کے وسیع علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور اسکا کام سمندروں کے گرم ہونے کی پیمائش کرنا ہوتا ہے۔ محقیقن کا کہنا ہے کہ CRES سے آنے والے ڈیٹا کا مقابلہ جب ARGO سے آنے والے ڈیٹا سے کیا گیا تو انکو اپنی اس تھیوری کی درستگی کا ثبوت ملا کہ عالمی سمندروں میں 90 فیصد حرارت جذب کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے جوکہ سیارے کی ٹریپ شدہ اضافی توانائی ہے۔
زمین کی اس غیر متوازن حرارتی توانائی کے ہونے کے یہ دو پیٹرن ایک آزادانہ طریقے حاصل ہونے والے پیٹرن سے بہت اچھی طرح مطابقت رکھتا ہے اور یہ دونوں ایک بہت بڑے رویے کو ظاہر کررہے ہیں۔ یہ بات نارمن لویب Norman Loeb جو اس نئی تحقیق کے بڑے مصنف اور ناسا کے ہمپٹن، ورجینیا ، امریکہ میں واقع لینگلے ریسرچ سینٹر جو CERES سے آنے والے ڈیٹا کو اکھٹا کرتا ہے، نے اپنی اس تحقیق میں بتائی۔ نارمن نے مزید بتایا کہ یہ رجحان ہماری زمین کے لیے بہت خطرناک ہے۔
لویب اور انکی ٹیم نے یہ نتیجہ نکالا کہ زمین پر اسطرح درجہ حرارت کا بڑھنا قدرتی عوامل کا نتیجہ بھی ہے اور انسانی عمل دخل سے بھی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی بالائی فضاء میں بڑھوتری ہمارے سیارے میں حرارت کے قید ہونے کا ایک ذمہ دار ہے۔
دریں اثنا قطبین پر موجود برفانی شیٹوں کے سکڑتے ہوئے سائز بھی ہمارے اس گرمی کی زیادتی کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ برف کا سکڑنا بھی زمین کی حرارت بڑھانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں ، وہ اسطرح سے کہ حرارت برف سے ٹکرا کر منعکس بھی ہوتی ہے، کم برف کی چاردیں ہونگی تو کم حرارت منعکس ہوگی اور زمین پر زیادہ جذب ہوگی۔ اسطرح سے زمین میں حرارت واپس جذب ہونے کی مقدار بڑھتی چلے جائے گی۔
لیکن محقیقن نے ایک اور قدرتی طور پر اپنے آپ کو دوھرانے والا نمونہ تلاش کرلیا جسکو Pacific Decadal Oscillation (PDO) کہا جاتا ہے جو زمین کی گرمائش میں اضافے کا ایک اور سبب ہے۔ PDO سائکل کی وجہ سے بحر الکاہل کے مغربی حصوں کے درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کا باقاعدہ سبب بنتا ہے، جس میں مغربی حصے ٹھنڈے اور مشرقی گرم ایک سائکل کے تحت ہورہے ہوتے ہیں اور اس سائکل کا دورانیہ دس سال ہوتا ہے۔
ایک غیر معمولی شدت والا PDO سائکل جو 2014 میں شروع ہوا تھا ، اس نے سمندروں کے اوپر بادل بننے کے عمل کو محدود کردیا جسکی وجہ سے اس سائکل کے ٹھنڈے ہونے کے عمل کو بھی کم کردیا جو سمندروں کے ساتھ علاقے ہوا کرتے تھے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے زمین میں گرمی کا انجذاب بڑھ گیا جسکی وجہ سے گلوبل وارمنگ بھی بڑھ رہی ہے۔
لیوب کا مزید کہنا ہے کہ " ایسا ہوسکتا ہے کہ زمین پر یہ ہونے والی گرمی کی لہر کی وجہ انسانی سرگرمیوں اور خود زمین کی اپنی اندرونی تبدیلیوں کا مکس رویہ ہے" یہ بات انہوں نے حالیہ انسانی سرگرمیوں (جیسے جنگلات کا کٹاؤ، پلاسٹک ویسٹ کا بڑھنا، فاسل فیول کا بےدریغ استعمال وغیرہ) اور زمین اور خلاء کے درمیان حرارت کے تبادلے کی وجہ سے زمین کے ایکوسسٹم کے برتاؤ میں تبدیلی کی قدرتی لہر جیسے اثرات کے مطالعے کے سبب کہی۔ "اس عرصے یہ دونوں سرگرمیاں ، زمین کی گرمائش بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں اور زمین کے حرارتی توازن کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔ اس بڑھوتری میں ریکارڈ اضافہ ناقابل مثال ہے"
لیوب میں مزید کہا کہ "یہ مطالعہ ایک محدود وقت کے لیے تھا، لیکن زمین کی حرارت لینے کی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز کیا جاسکتا ہے کہ زمین کی آب و ہوا ، پچھلے تصور کیے گئے خیال سے کہیں زیادہ آف بیلنس ہورہا ہے اور خراب سے خراب حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے (جیسے درجہ حرارت میں یکدم سے بڑھ جانا اور سمندری سطح کا بڑھنا) جب تک کہ یہ رجحان ایک الٹ برتاؤ کو ظاہر کرے۔
یہ حالیہ تحقیق 15 جون 2021 کو جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز کے جرنل میں شائع ہوئی۔
سورس آرٹیکل لِنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...