سب سے پہلے آختہ کاری (Castration) اور (Castrato) کا مطلب جاننے کی کوشش کرتے ہیں یعنی کہ وہ مرد جس کو بچپن میں اس لیے نامرد بنادیا جاتا ہے تا کہ وہ عورتوں کی طرح یا مرد اور عورت سے زیادہ خوبصورت، باریک ، اونچا سُر یا ایک عجیب منفرد سریلی آواز نکالے یعنی مصنوعی طور پر ایک منفرد گلوکار پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے آختہ کاری یاخصیوں کا نکال دینا (Castration) ایک ایسا عمل ہے جس میں مرد کے خصیوں کو نکال دیا جاتا ہے اب یہ عمل مختلف طریقوں سے کیا جاسکتا ہے جراحی کے علاوہ مختلف کیمیائی عوامل بروئےکار لاکر بھی آختہ کاری (Castration) کا عمل کیا جاسکتا ہے۔آختہ کاری کے حوالے سے تاریخ میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ آختہ کاری (Castration) کا عمل پہلی بار کب اور کہاں پر کیا گیا تھا لیکن اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اس کا رواج 4000قبل مسیح بھی موجود تھا یا بعض محقیقین کے مطابق 16ویں صدی کے آخر سے اٹلی میں یہ رواج یا طریقہ عام ہوگیا تھا اور نو سال سے بارہ سال کے درمیان بچوں کے خصیوں (Testes)کو آختہ کاری (Castration) کے ذریعے نکال دیا جاتا اور یہ اس لیے کیا جاتا تھا کہ ان کی آواز کومرد یا عورت سے منفرد، خوبصورت، باکمال اور اونچی سر والی بنائی جاسکے۔
آختہ کاری کا عمل (Castration) کو قدیم زمانے میں سزا کے طور پر بھی استعمال کیا گیا اور اس حوالے سے آختہ کاری کی بہت طویل تاریخ موجود ہے بلکہ مغربی تاریخ میں خواجہ سرا گلوکار بازنطینی سلطنت کے ابتدائی دنوں سے ہی موجود تھے اور نویں صدی تک یہ مشہور تھے۔
آختہ کاری (Castration) سولہویں صدی کی وسط میں اٹلی میں یہ طریقہ رواج پا گیا تھا اس مقصد کے لیے بلوغت سے پہلے یعنی نو سال کے بچے کا انتخاب کیا جاتا تھا یا بارہ سال سے کم بچے کا لیکن زیادہ تر نو سال کے بچے کا ہی انتخاب کیا جاتا تھا۔ آختہ کاری یعنی بچے کے خصیوں کو جراحی کے ذریعے نکالنا جو کہ واقعی بہت تکلیف دہ عمل ہوتا تھا خصیوں کو نرم کرنے کے لیے بچے کو گرم پانی میں رکھا جاتا جس سے وہ نرم پڑھ جاتے اور بے ہوشی کے بعد عمل جراحی کے ذریعے خصیوں کو نکال دیا جاتا تھا۔اور ایسا کرنے سے بچے کے اندر مرد بننے کی صلاحیت یعنی کہ مردانہ ہارمون (Testosterone) اور اس کے ساتھ (Estrogen) نامی ہارمون کے بننے کا عمل رک جاتا تھا جس کی وجہ سے ان بچوں کی جسامت میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوجاتی تھیں یعنی کہ ان کی ہڈیاں نرم،جسم پر بالوں کا نا ہونا ان کی نسوانی جسامت نازک،گردن اونچی، جسم کا اتار چڑھاو کسی حسین ملکہ کی طرح، سینہ چوڑھا، آواز عورتوں والی یا اس سے بھی منفرد خوبصورت، باریک اور اونچی سُر والی بن جاتی تھی یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان مردانہ ہارمون کے نا بننے کی وجہ سے ان بچوں کی آواز کی نالی (Vocal cords)میں ایسی تبدیلی پیدا ہوجاتی تھی جس سے ان بچوں کی آواز نا مردوں کی طرح نا عورتوں کی طرح بلکہ اس کے درمیان ایک خوبصورت اور منفرد آوازپیدا ہوجاتی تھی لیکن اس کے علاوہ ان بچوں کی زندگی پر کافی منفی اثرات بھی پڑ جاتے اور یہ لوگ جسمانی مسائل کے ساتھ ساتھ ذہنی مسائل کے بھی شکار ہوجاتے تھے بلکہ کسی زمانے میں اچھی خاصی شہرت کے باوجود یہ لوگ تضحیک کی زد پر ہوتے اور خود کو کم تر سمجھتے تھے۔
مصنوعی طور پر ایک منفرد اور باکمال گلوکار پیدا کرنے کے لیے ان بچوں کو آختہ کاری (Castration) کے بعد سالوں گانے کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ بچہ بہترین اور منفرد گلوکار بن سکے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عمل اٹالین یعنی اطالوی تھا جو سولہویں صدی کے وسط میں شروع ہوا تھا اور یہ اس لیے بھی کیا جانے لگا تھا کہ یہ لوگ چرچ میں اپنی رسومات پورا کرنے کے لیے ان کو تیار کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں عورتوں کو سٹیج پر یا سر عام کسی محفل میں گانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے ان منفرد گلوگاروں (Castrato) یا (Eunch) کو مصنوعی طور پر پیدا کیا جاتا تھا تاکہ یہ گلوکار پوری زندگی یہ خدمات سرانجام دیتے رہیں۔بلکہ کچھ لوگوں کو سالوں سال گانے کی مشقیں کرائی جاتی تھیں جس سے ان کو گانے میں مہارت حاصل ہوجاتی تھی اور وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے گائیک بن جاتے تھے جس کے مقابلے میں کوئی آواز موجود نہ ہوتی۔
اٹھارویں صدی کے آخر تک سماجی رویوں میں کافی تبدیلیاں پیدا ہوگئی تھیں 1870 میں اس عمل کو (Castration) کو باضابطہ طور پر غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ نئی اطالوی ریاست نے فرانسیسی قانونی ضا بطہ اپنا لیا تھا جس میں واضح طور پر اس طرح کے ظالمانہ طریقہ یا رواج سے منع کیا گیا تھا۔ آخری (Sistine Castrato) Alessandro Moreschi تھا جو 1858 میں پیدا، 1913 میں ریٹائراور 1922میں انتقال کرگیا تھا۔
لنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...