سوچتا ہوں زمانہ کتنا بدل گیا ہے ۔ تو مجھے اندرون سے آواز آتی ہے ، تم کیوں نہیں بدلے ؟ کہ ہر آنے والی نسل خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے ۔ کہ ہر قدم ترقی کی طرف گامزن رہے ۔مگر بغور مشاہدہ کرتا ہوں تو اقبال کا شعر ذہن میں آتا ہے کہ ،
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
دور حاضرہ تقابلی دور ہے ۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی دیوار سے اونچی میری دیوار بنے ۔تہذیب بدل گئی ، قدریں بدل گئیں ۔ پہلے بزرگوں کے سامنے لب کشائی کی جرآت نہیں ہوتی تھی اب روبرو مضحکہ اڑایا جاتا ہے ۔ شامیوں کی جگہ ایرکنڈیشن ہال نے لے لی۔ انواع و اقسام کی ڈشوں کو بنانا قابل فخر ورنہ ناک کٹنے کا ڈر۔ کھانے سے زیادہ ضائع کرنے کو فیشن سمجھا جاتا ہے ۔ نوابی ہر گھر میں درآئی ہے ۔ چار نہیں تو دوپہیہ سہی ۔ سائیکل کی ہوا نکل چکی ہے ۔ معیار زندگی دیکھو تو جھگی جھونپڑی سے بھی ڈش اینٹینا جھانکے گا ۔ تلاشی لینے پر ہر بالغ مکیں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ۔ اشتہاری خوابوں کی دنیا ہر خواہش کو مہمیز لگاتی ہوئی ناپختہ ذہنوں کو اپنی حدیں توڑنے پر آمادہ کررہی ہے ۔ والدین کو بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑرہے ہیں ۔ اس تھپڑ کی گونج ختم ہوگئی ہے جو بیجا خواہشات کا دم توڑ دیتی تھی کیونکہ انھیں باغیانہ نتائج سے ڈر لگتا ہے ۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں جس ہوسٹل میں سپرنٹنڈنٹ کے فرائض انجام دے رہا ہوں وہاں بچوں کو شام کی چائے کے ساتھ پارلے جی بسکٹ دیتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیتے ہیں کہ ۔۔ یہ غریبوں کا بسکٹ ہے !! ۔۔۔ اور اسی بسکٹ کے لیے ہم بچپن میں ترستے تھے ۔۔۔ ہے نا ! ۔۔ زمانہ کتنا بدل گیا ہے ۔