ابا اب وہ ابا نہیں رہے تھے۔
ابا وہاں سے آئے تو بالکل بدل گئے تھے۔ ہم بچے چھو چھو کر ان کے نرم ملائم ہاتھ پیر دیکھتے۔ چہرے سے سرخی اور صحت مندی جھلک رہی تھی۔
ابا آٹھ ماہ پشاور رہ کر آئے تھے۔ کراچی میں ابا بہار کالونی کے کوئلہ گودام کے نگران تھے۔ کراچی کی جھلسا دینے والی دھوپ، ہوامیں ہر وقت اُڑتے رہنے والے کوئلے کے ذرات نے نہ صرف ابا کا رنگ جلا دیا تھا بلکہ اپنے چھوٹے لیکن سخت گھنگریالے بالوں کی وجہ سے وہ بھی ان مکرانیوں میں سے ہی لگتے تھے جو کوئلہ گودام میں مزدوری کرتے تھے۔ اور جب وہ ان مزدوروں سے بلوچی ( مکرانی) میں بات کرتے تو ہر کوئی انہیں شیدی مکرانی ہی سمجھتا۔
لیکن ابا پشاور رہ کر کیا آئے کہ ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔ ابا کا چہرہ، ہاتھ پیر سب بالکل ہی بدل گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سمجھ آتا تھاکہ یہ پٹھان اتنے سرخ و سفید اور صحت مند کیوں ہوتے ہیں۔ آٹھ ماہ میں ابا ایسے ہو گئے تھے تو جو وہاں پیدا ہوئے اور مستقل وہیں رہتے ہونگے وہ کیسے ہوتے ہوں گے۔ اور پھر ابا وہاں سے ہمارے لئے بہت سی چیزیں لائے تھے جن میں مجھے شہد کے سر بند ڈبے اور “ ایگل” کے موٹے موٹے فاؤنٹین پین ( قلم) اب تک یاد ہیں۔ وہ یقیناً یہ سب “ باڑے” سے لائے ہونگے۔ ابا کی صحت مندی اور غیر ملکی چیزوں نے میری سات سالہ عمر میں پشاور کا نہایت خوشگوار اور مثبت تاثر قائم کیا تھا۔
اس کے بعد البتہ پشاور سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ جغرافیہ اور مطالعہ پاکستان میں صرف اتنا پڑھتے کہ پشاور تعلیمی اور کاروباری مرکز ہے اور یہ کہ پاک فضائیہ کا مستقر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان ائرفورس کا ہیڈکوارٹر پشاور تھا لیکن ۱۹۴۸ میں یہ دارلحکومت کراچی منتقل ہوگیا لیکن ۱۹۶۰ سے ۱۹۸۳ تک یہ پھر پاک فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر رہا جو بعد میں دیگر افواج کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہوگیا۔
لیکن اس شہر کے بارے میں جب بھی پڑھا یا کوئی تصویر دیکھی یوں محسوس ہوا کہ زمانہ قدیم یہیں کہیں ٹھہر گیا ہے۔ قصہ خوانیبازار، مسجد مہابت خان، چوک یاد گار، محمد رفیع کے گائے گیت “ گھوڑا پشاوری میرا”، پشاوری قلچے، پشاوری کڑاہی گوشت، کابلی پلاؤ، پشاوری قہوہ اورپشاوری چپل پہنے اور کمبل پوش پٹھانوں نے اس شہر کی کچھ ایسی تصویر ذہن میں بنا رکھی تھی کہ یوں لگتا کہ تاریخ کے اوراق میں کہیں کھو گئے ہیں۔
اور آج بھی جب آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے تو بھی پشاور کوئی بہت زیادہ نہیں بدلا ہے۔ اب بھی اس کے درودیوار سے وہی کہنگی اور قدامت ٹپکتی ہے۔ آج بھی محلہ سیٹھیاں کے درودیوار، وہاں کے قدیم مکانوں کے چوبارے، جھروکے، محرابیں، ۔ منقش کھڑکی دروازے تاریخ کی ہزاروں کہانیاں سنا رہے ہوتے ہیں۔ اور قصہ خوانی تو ہے ہی جہاں تجار، فوجی قافلے یا سیاح اپنے سفر کی داستان سنایا کرتے تھے۔ اور اسی قصہ خوانی اور چوک یادگار کے آس پاس کے قہوہ خانوں میں سماواروں میں کھولتے گرم پانی،چھوٹی ، چینک، میں دودھ پتی یا پشاوری قہوہ۔ کابلی پلاؤ کے ڈھیر، چپلی کباب کی خوشبوئیں آپ کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہیں۔قصہ خوانی غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز ہے۔
اس کے مضافات میں واقعہ بالا حصار کے قلعے کے تصور سے ہی قبائلی علاقوں کی جنگجویانہ روایات، پختونوں کی عظمت رفتہ اورتاریخ کی بے شمار کہانیاں ذہن میں گونجنے لگتی ہیں۔ یہاں کے درودیوار ابدالیوں، درانیوں ،مغلوں، مرہٹوں، سکھوں اور انگریزوںکی بے شمار داستانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
پشاور کی دوسری پہچان یہاں کی گوناگوں اور بو قلموں زندگی ہے۔ اسے ہم پٹھانوں کا شہر سمجھتے ہیں لیکن یہاں اکثریت ہند کو بولنےوالوں کی ہے تو اردو، پنجابی، بلوچی، افغانی اور فارسی بولنے والے بھی کم نہیں۔ اور پشتو تو ہے ہی پشاور کی پہچان۔ یہ اور باتہے کہ کبھی کسی پٹھان کو پشاور کو پشاور کہتے نہیں سنا۔ ان کے لیے یہ ، پیخاور، ہے۔ اور وہ بھی گردن اکڑا کر کہتے ہیں پخاور، پخاوردہ۔
جنوبی ایشیا کا قدیم ترین شہر جس کی تاریخ تقریباً ساڑھے پانچ سو برس قبل مسیح سے جا ملتی ہے اور جس کا شمار آج بھی دنیا کےچند قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اب اتنا قدیم بھی نہیں رہا۔ یہاں بھی اب ( جیسے تیسے) میٹرو چلنے لگی ہے جو کراچی جیسے بزعم خود جدید شہر کو بھی ( اب تک) میسر نہیں۔ اور پھر اعلا درجے کے قدیم تعلیمی اداروں، اسلامیہ کالج، پشاور یونیورسٹی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، کے ساتھ ساتھ NUST, ابا سین یونیورسٹی، گندھارا یونیورسٹی جیسے جدید تعلیمی ادارے ان صحت مند جسموں کو صحت مند ترین دماغ بھی عطا کررہے ہیں۔ اسلامیہ کالج پشاور بھی سندھ مدرسہ کراچی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور انجمن اسلام اسکول بمبئی کے ساتھ ان تعلیمی اداروں میں شامل ہے جن کے لئے بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے اپنے تر کے میں سے عطیہ دینے کی ہدایت کی تھی۔
اسی پشاور میں وہ آرمی پبلک اسکول بھی ہے جہاں ہماری تاریخ کا خونچکاں ترین باب رقم ہوا جس کی یاد آج بھی ہمیں خون کےآنسو رلاتی ہے۔ لیکن جفاکش، جوانمرد اور بہادر پٹھانوں کے اس شہر نے ظلم وستم ، خونریزی اور تباہی و بربادی کے بدترین مظاہرے دیکھنے کے باوجود ان کے حوصلوں کو جاری و ساری رکھا۔آج بھی یہاں کے باسیوں کے چہروں پر مسکراہٹ رہتی ہےاور غیر ملکی سیاح یہاں کے لوگوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے سب سے فراخ دل ،خوش باش اور دوست پرور گردانتے ہیں۔
اس مردم خیز شہر سے جڑے ایسے بے شمار نام ہیں کہ اپنے اپنے شعبوں میں ان سے بڑا کوئی نام نہیں۔ پاک و ہند میں فلمی اداکاری میں دلیپ کمار سے بڑا کوئی نام نہیں۔ دلیپ کمار یعنی یوسف خان کی نہ صرف پیدائش اس شہر کی ہے بلکہ ان کا بچپن بھی یہیں گذرا۔ وہ آخر وقت تک اپنے شہر، یہاں کے کھانوں اور یہاں کے باسیوں کو یاد کرتے رہے۔ اور یہی حال ہندوستانی فلمی صنعت کے سب سے بڑے خاندان یعنی پرتھوی راج کپور کی فیملی کا رہا۔ راج کپور جیسا فلمساز، ہدایتکار اور اداکار بھی اسی شہر کویاد کرتا رہا۔ ایک خاتون پشاور کی مٹی لے کر راج کپور سے ملنے گئیں تو انہوں نے اپنے بھائیوں شمی اور ششی کپور اور بیٹوں رندھیراور رشی کپور کو بلاکر کہا کہ ان خاتون کے پاؤں چھوؤ۔ پشاور سے جانے والا کوئی بھی اپنے شہر کو بھلا نہیں پاتا۔ پشاور نے بھیاپنے فرزندوں کی ایسی ہی تکریم کی اور جب یوسف خان اپنے شہر آئے تو ان کی راہوں میں اپنی آنکھیں اور دل بچھا دئیے۔ اور ہاںہندوستانی فلمی صنعت کی وینس، مدھوبالا ( ممتاز بیگم) کی پیدائش بھی اسی شہر کی ہے۔
دنیا میں کسی بھی کھیل میں کسی کھلاڑی کا وہ ریکارڈ نہیں جو اسکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان کا ہے۔ مسلسل پانچ سو پچپن مقابلوں میں ناقابل شکست رہنے والے جہانگیر خان کی پیدائش بھی اسی شہر خوبی کی ہے، جہانگیر کے بعد اسکواش کا دوسرا بڑا نامجان شیر کی پیدائش بھی یہیں کی ہے، اسکواش میں پاکستان کا نام سب سے پہلے روشن کرنے والے اعظم خان کا تعلق بھی پشاورسے ہے۔
پاکستان میں بے شمار کھلاڑی آئے لیکن جو عوامی مقبولیت بوم بوم شاہد خان آفریدی کو حاصل ہوئی وہ شاید ہی کسی کو ملی ہو۔شاہد آفریدی کی پیدائش بھی یہیں کی ہے۔ آج کے ایک کامیاب کھلاڑی محمد رضوان کا تعلق بھی ( غالبا”) پشاور سے ہی ہے۔ عمرگل، وجاہت اللہ واسطی، یونس خان ، یاسر حمید اور پشاور میں پیدا ہونے والے کئی اور کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کاپرچم دنیا میں بلند رکھا۔
اور جب ہم پڑھتے تھے کہ پشاور تعلیم اور صنعت و حرفت کا مرکز ہے تو وہ کوئی ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ علم وادب کے اتنے بڑےنام اس شہر سے وابستہ ہیں اور وہ بھی اپنے شعبوں میں اعلا ترین مقام کے حامل ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام استاد، ماہر تعلیم، برصغیر میں ریڈیائی نشریات کے بانی، بے مثل مزاح نگار اور اقوام متحدہ کے نائب سکریٹری جنرل احمد شاہ بخاری پطرس اور انکے برادر خورد، صداکار، اداکار، منتظم شاعر اور ادیب ذوالفقار علی بخاری کے علاوہ فارغ بخاری اور خاطر غزنوی جیسے شعراء، اسی شہر کی دین ہیں اور پشتو کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کی پہچان بھی یہی شہر ہے۔ پاکستان میں ٹیلیویژن اداکاری کا سب سے اولین اور بڑا نام یعنی محمد قوی خان کا تعلق بھی اسی شہر سے رہا ہے اور شوخ وچنچل مرینہ خان کی پیدائش بھی پشاور کی ہی ہے۔
میرے پاس پشاوری چپلوں کی ایک جوڑی ہے جسے میں پچھلے پندرہ برسوں سے استعمال کررہا ہوں یہ بھی پشاور اور پشاور یوں کی طرح خوبصورت، مضبوط اور پائدار ہے۔ لیکن اب یہ بھی کہنگی کا شکار ہورہی ہے۔ سوچ رہاۂوں کہ اب میں بھی پشاور ہو ہی آؤں اور لگے ہاتھوں صدر بازار، گھنٹہ گھر وغیرہ کے چرسی تکوں، پشاوری قلچوں، خشک میوہ جات، سری پائے، پہلوان کے انڈہچھولوں، اور پشاوری قہوے کا لطف اٹھا ہی لیں۔
پشاور جس کا ایک قدیم نام پشپا پور یعنی چاہتوں کا نگر بھی ہے۔ پشاور شاعروں کا ڈیرہ، صوفیوں کا مسکن، مطربوں کا مرکز اور گلرخوں کا گل بن، جس کی باہوں کی گرمی مجھے دور سے ہی محسوس ہوتی ہے شاید مجھے اپنی طرف بلا رہی ہے۔ دیکھوں تو سہی کہ یہاں سے جانے والے پٹھان دلبر جانوں سے ان کی گھر والیاں دنداسہ اور کیا کیا کچھ ، کیوں منگواتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...