وقت کا جبر دیکھیں جس عطار کے لونڈے کے ریفرنس پر ایک مدت تک پیشیاں بھگتاتے رہے اسی سے حلف لے کر عدل کے سب سے بڑے سنگھاسن پر براجمان ہونے والے بیمار کے دل کی کیفیت کیا ہوگی ۔اور ریفرنس بھیجنے والے کی زہنی وقلبی کیفیت کیا ہوگی ۔سچ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر نئی روایت کچھ یوں بن رہی ہے کہ آنکھ میں شرم وحیا بھی نہیں ہوتی بلکہ اخلاقیات بھی نہیں ہوتی ۔ ویسے بھی تاریخ کا سبق ہے کہ طاقت کے کھیل میں روایتی اخلاقیات نہیں ہوتیں بلکہ طاقت کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں ۔جیل میں سہولتیں نہیں دوں گا کا اعلان کرنے والا طاقت چھن جانے کے بعد اپنی اسیری کے دوران سہولتیں مانگ رہا ہے ۔ٹھیک کہتے ہیں کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں بڑی
رہی بات کہ کیا ہورہا ہے تو کچھ بھی تو نیا نہیں ہورہا سب کچھ توقع اور اندازے کے مطابق ہورہا ہے ۔9 مئ کا واقعہ وہ ریڈلائن تھی جس کے متعلق ہر باشعور بندے نے کہا تھا کہ مک گیا تیرا شو نیازی اور اس کے بعد واقعی ہی میں شو مک گیا۔جس ناز اور لاڈ پیار سے تبدیلی سرکار کو لایا گیا تھا وہ تو معمولی قصہ ٹھہرا اصل کہانی تو برسراقتدار آنے کے بعد سے بے آبرو ہوکر کوچے کے نکالے جانے کے دن تک کے درمیان کی ہے ۔ ایک ایسی ہوشربا کہانی کہ بندہ ششدر رہ جائے کہ یہ کیسا اقتدار تھا اور آخر ایسی کیا مجبوری تھی کہ اس طرح کا اقتدار دیا گیا ۔تبدیلی سرکار کی کہانی تو الف لیلیٰ کی کہانی لگتی ہے ایک سے بڑھ کر ایک طلسمی کردار سامنے آئے ہیں ہم تو پنجاب سرکار کے طوطے میں دیو کی جان سمجھتے رہے مگر جان تو کسی طوطی میں تھی
بھلا ہو پرانے دور کے سیانوں کا جو کہہ گئے تھے کہ ٹھوکر کھا کرگرنے والا دوبارہ کھڑا ہوجاتا ہے مگر کسی کی نظروں سے گرنے والا دوبارہ کھڑا نہیں ہوپاتا۔ہیروں کی کہانی سنانے کی پاداش میں جس اہم شخصیت کو عہدے سے ہٹایا گیا تو اس کے دل پر کیا گذری ہوگی کہ سچ بولنے کی سزا ملی ہے اور ستم یہ کہ جب اسی کو طاقت واختیار ملا تو سوچیں وہ کیسے کسی کی بے گناہی پر یقین کرلے گا کیسے مان لے کہ بندہ سرٹیفائیڈ صادق و امین ہے ۔اب مستند صادق وامین کے لیئےیہ کسی المیے سے کم ہے کیا کہ اس نے جن دو شخصیات کو جن میں سے ایک کو عہدے سے ہٹایا اور دوسرے کے خلاف ریفرنس فائل کرایا وہی طاقتور شخصیات بن کر سامنے آ گئی ہیں لہذا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ بھلے دیسی مرغ اور مٹن دستیاب ہے مگر سلاخوں کے پیچھے دستیاب ہے ۔
چلو ایک تو اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہا ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ عوام بے چاری بھی کسی اور کی بوئی ہوئی فصل کاٹنے پر مجبورہے ۔بجلی ، گیس ، پٹرول اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔ ایک مزدور ایک چھوٹا سرکاری ملازم اب بنیادی ضروریات زندگی کے حصول سے قاصر ہے ۔ایک چیخ و پکار ہے ایک شور ہے مگر کیا کرسکتے ہیں ۔ایک مشکل وقت ہے جس کوصبر اور حوصلے کے ساتھ گذارنا پڑے گا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔مگر ایک بات تسلی بخش ہے کہ کہیں نا کہیں چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔کرنسی مارکیٹوں کے خلاف کریک ڈاون ، بارڈر کی بندش ، بجلی چوری ، زخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائیاں بہتر حکمت عملی ہیں لگے ہاتھوں ملکی وسائل پر پلنے والے سفید ہاتھی جس میں پی آئی اے ، ریلوئے ، کراچی اسٹیل مل، واپڈا کے نجکاری کے معاملات بھی اگر طے کرلیئے جائیں اور جتنی جلدی ان سے جان چھڑا لی جائے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کرلی جائے اور جتنا ممکن ہوسکے اس میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچایا تو زیادہ بہتر ہوگا۔پٹرول کے امپورٹ بل کو کم کرنے کے لیئے لگژری گاڑیوں پر پابندی اور سرکاری سطح پر تیل کی بچت سے بھی فائدہ ہوسکتا ہے ۔افسرشاہی کے شاہانہ طرز زندگی میں سادگی لاکر اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بجائے اگر ٹیکس نیٹ ورک بڑھایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے اور یہ سب کچھ اس غیر سیاسی دور میں ممکن ہے ۔منتخب حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لگے ہاتھوں جلد سے جلد مشکل فیصلے کرلیئے جائیں تو بہتر ہوجائے گا
حرف آخر کہ اب کیا ہوگا تو ہر ظالم کو اطلاع ہو کہ قاضی آ نہیں رہا بلکہ آگیا ہے بلاشبہ ماضی قریب کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ہوگا اور بہت سی چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی اگرکوئی غلط فہمی میں مبتلا ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ جلد سب کی غلط فہمی دور ہوجائے گی ۔ہر کوئی اپنے حصے کی سزا اور جزا پائے گا۔کم سے کم کوئی ایک فیورٹ نہیں ہوگا اور یہی بات قابل اطمینان ہے کہ سب ایک ہی لائن میں لگے ہوں گے ۔لگے ہاتھوں الیکشن بھی ہوجائیں گے اور کم وبیش من پسند قسم کا ایوان منتخب ہوجائے گا۔اب اقتدار پر کون ہوگا تو اس کے لیئے اتنا جان لیں کہ ایک لیڈر جیل میں ہے اور اس کی پارٹی کے لوگ اس کو چھوڑ رہے ہیں دوسری جماعت کے لیڈر نے کہا ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں ہے اب ایک ہی بچتا ہے جو ملک سے باہر ہے ۔لگتا یہی ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر چھوٹا بھائی ہوگا اور باقی ماندہ سیاسی جماعتیں حصہ بقدر جثہ اقتدار میں شامل ہوگی ۔ہاں کچھ پرانے کھلاڑی نئے نام کے ساتھ اس کھیل میں شامل ہوں گے ۔کسی کو کھل کر من مانی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور بہت کنٹرولڈ قسم کی حکومت ہوگی جس کا فوکس معیشت ہوگا باقی اللے تللے کرنے کی گنجائش نا ہونے کے برابر ہے اس کے لیئے خبرہو کہ قاضی آنہیں رہا بلکہ آ گیا ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...