درزی کی دکان کے سامنے دھری بینچ پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ خاکی وردی، سر پر چھجے والے ہیٹ جسے شاید پیک کیپ کہتے ہیں، ایک کے ہاتھ میں ایک رسی تھی جس کے دوسرے سرے پر ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا تھا جس کے دونوں ہاتھ اس رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ میری عمر کے بہت سے لڑکے انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ میں ںے سوالیہ نظروں سے اپنے ایک دوست کی طرف دیکھا۔
“ پُلِس والے ہیں” اس نے کان میں بتایا۔ “ اس لڑکے کو پکڑا ہے”۔
“ کیوں پکڑا ہے” میرے لہجے میں خوف تھا۔
“ پتنگ اڑا رہا تھا”
“ نہیں بے۔۔جُوا کھیل رہا تھا” ایک میلے کچیلے سے لڑکے نے سرگوشی کی۔
یہ میری پانچ ، چھ سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ تھا کہ میں “پُلِس” کو اپنے روبرو دیکھ رہا تھا۔ چور سپاہی کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ پُلس ( پولیس) کا نام بھی سن رکھا تھا لیکن جیتا جاگتا پلس آج پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میرے جسم میں خوف کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔
“ چلو بھاگو یہاں سے” دوسرے پولیس والے نے ہمیں ڈانٹا ۔ وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور گرفتار شدہ لڑکے کو لے کر ایک طرف چل دئیے۔ لڑکے کے لئے دل میں ہمدردی ، فکرمندی اور ملامت کے ملے جلے جذبات ہلچل مچا رہے تھے۔ پولیس کے لئے بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے، ڈر اور اطمینان ، لیکن پتہ نہیں کون سا احساس غالب تھا۔ پولیس والے لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں۔۔لیکن گندے لوگوں کو پکڑتے ہیں۔
اور پھر کچھ دنوں بعد قمر علی خان ایک ٹرائمف پھٹپھٹی (موٹر سائیکل ) پر آئے۔ خاکی وردی میں ملبوس یہ خوبصورت سے پولیس انسپکٹر ہمارے مکان مالکوں کے رشتہ دار تھے۔ قمر علی خان پاکستان کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تھے، اگلی بار وہ ایک کھلی اسپورٹس کار میں آئے۔ ان کے ساتھ حبیب علی کڈی بھی تھے۔ یہ بھی روم اولمپکس جیتنے والی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تھے۔ پولیس کے یہ انسپکٹر بہت اچھے لگے۔ لڑکے کو پکڑنے والے “پُلس والوں” کا ڈر کچھ کم ہوگیا۔
کچھ دنوں بعد ابا کے ساتھ سوسائیٹی جاتے ہوئے جب نیشنل اسٹیڈیم کے قریب سے گذرے تو اسٹیڈیم کے قریب گھوڑوں پر سوار پولیس کے سپاہی دیکھے۔ گھڑسوار پولیس اس کے بعد کبھی نہیں دیکھی۔ یہ پولیس والے بھی اچھے لگے۔ لیکن جب ایک دن بہار کالونی کے گورنمنٹ اسکول کے سامنے کھڑے ٹرک میں سوار سیاہ ٹوپ ( ہیلمیٹ) پہنے اور ہاتھوں میں بڑی بڑی سی لاٹھیاں لئے پولیس والے دیکھے جو ان لڑکوں کو پکڑنے کے لئے کھڑے تھے جن کے بازوؤں پر کالی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ۔ اس دن یہ پولیس والے بہت خوفناک لگے۔
اور نہ جانے کتنے لوگوں کو پولیس کی فرانسیسی طرز کی” ڈیگال کیپ” والی یونیفارم یاد ہے۔ ٹریفک پولیس کی سفید یونیفارم ہوتی تھی جس میں سفید سفاری کوٹ جیسی قمیض اور سفید پتلوں کے ساتھ سر پر پرانی انگریزی فلموں کے سپاہئیوں جیسا سفید سولا ہیٹ ہوتا تھا۔ پھر یہ یہ یونیفارم بدل گئی ۔ پتلون خاکی رہی لیکن قمیض ملیشیا کی ہوگئی۔ ٹریفک پولیس کے سفاری کوٹ کی جگہ سفید قمیض آگئی۔ سر کا ہیٹ بدل گیا۔ پہلے “ آخری چٹان” ڈرامے والا ،خود ، جن پر نوکدار سا لوہا پرانے زمانے کی تاریخی فلموں کی یاد دلاتا تھا۔ پھر یہ ہیٹ سادہ لیکن سخت ہیٹ میں بدل گئی۔
پولیس کی اس رنگ بدلتی وردی کے ساتھ ہی پولیس سے نفرت اور محبت کا رشتہ بھی بدلتا رہا۔ دنیا بھر میں پولیس کو دیکھ کر شہری اطمینان اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ انہیں کسی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو پہلے پولیس کی طرف دیکھتے ہیں۔ لندن پولیس جسے پیار سے “بابی” کہتے ہیں ، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے حلقہ کے گٹر کے ڈھکّنوں تک کا علم ہوتا ہے کہ کون سی سڑک پر کہاں کہاں ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے۔ شریف آدمی پولیس کا نام سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ بڑے سے بڑے مسئلے میں بھی پولیس کے پاس جانے سے بچتا ہے۔ اور وہ کچھ غلط بھی نہیں کرتا۔ اگر آپ پولیس کے پاس رپورٹ کرانے پہنچ جائیں کہ صاحب ہمارے گھر میں چوری ہوگئی اور چور دو لاکھ روپے کے زیور لے گئے تو پولیس آپ کی گردن پکڑے گی کہ “ اوئے، یہ تو بتاؤ یہ دو لاکھ کے زیور تمہارے پاس آئے کیسے۔ کام کیا کرتے ہو؟”۔ اور آپ کو لینے کے دینے پڑجائیں گے اور کچھ دے دلا کر آپ جان چھڑائیں گے۔
یہ شائد مذاق کی بات ہے لیکن معاملات اس سے کچھ مختلف نہیں ۔ پولیس کے بارے میں بہت سے لطیفے مشہور ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں پہلے سے خبر ہوتی ہے کہ کون سی واردات کہاں ہونے والی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس بے شمار ایسے قصے ہوں گے۔ بعض بلکہ اکثر معاملات میں تو مجرموں سے زیادہ پولیس بدنام نظر آتی ہے۔
میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ ہمارے محلوں میں جب کبھی دن کے وقت کوئی پولیس والا آنکلتا تھا تو کتّے انہیں دیکھ کر بھونکنا کیوں شروع کردیتے تھے۔ رات میں کبھی پولیس کو اپنے محلوں میں نہیں دیکھا۔ چوکیداری کا کام محلے کے کتّے اور چوکیدار کیا کرتے تھے۔ اللہ جانے پولیس والے رات کو ایسا کیا کرتے تھے جسے یاد کرکے کتّے دن میں ان پر چلّایا کرتے تھے۔ ویسے کتّوں کو انسانوں کی پہچان ہم سے زیادہ ہوتی ہے۔
لیکن اس دن مجھے پولیس پر بہت ترس آیا جب نیشنل اسٹیڈیم میں انتظامیہ کی بدانتظامی کی وجہ سے تماشائی بے قابو ہوگئے اور ہلڑ بازی میں شامیانے گرا دئے ۔ ایک بہت ہی خوبصورت اور وجیہہ پولیس افسر بہت شرافت اور لجاجت سے لوگوں سے درخواست کرتا رہا کہ سکون سے رہیں۔لیکن کچھ بدتمیز تماشائیوں نے اس افسر کو مارا پیٹا۔ اس کے منہ اور ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ اس غیرت مند افسر نے روتے ہوئے اپنی کیپ اتاری اور زمین پر دے ماری اور ایک جانب چلا گیا۔
حکومتوں سے اور انتظامیہ سے شکایت ہو تو ہم اس کا بدلہ ان غریب پولیس والوں سے لیتے ہیں جو کسی قسم کے جلسے جلوس کی نگرانی پر مقرر ہوتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے مقاصد کے لئے پولیس کی تعیناتی، تقرری، تنزلّی کرتی رہتی ہیں۔ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن ہمارے غیض و غضب کا نشانہ صرف پولیس بنتی ہے۔
کسی اور کو کیا کہوں ، نوجوانی میں جب ہم بھٹو صاحب ، معراج محمد خان، علی مختار رضوی اور طارق علی وغیرہ سے متاثر ہوکر خود کو بڑا انقلابی اور حریت پسند سمجھتے تھے، پولیس کو جُوتی کی نوک پر رکھتے تھے۔ پولیس سے ٹکراؤ، ان پر پتھراؤ۔ پولیس کے ہاتھوں لاٹھیاں اور ٹھڈّے کھانا ، سڑکوں پر گھسیٹے جانا، ہم سب اسے بڑی شان سمجھتے تھے۔ مجھ جیسے سوکھے سڑے، ٹیڈی نما بلکہ ٹڈی نما لڑکے نے بھی دو بار پولیس کی مار کھائی یا پولیس کے نرغے میں آیا، یا آتے آتے بچا۔
پہلی بار پاکستان چوک پر برٹش کونسل کے سامنے جہاں ہمارے کالج کے علاوہ ڈی جے، این ای ڈی اور ایس ایم کالج کے لڑکوں نے مل کر جلوس نکالا اور بڑے خضوع وخشوع سے برٹش کونسل پر پتھراؤ کررہے تھے وہاں پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور میں نے سڑک پر ایک شیل کو لڑھکتے ہوئے دیکھ کر دوڑ لگائی اور این ای ڈی میں گھس گیا۔
دوسری بار گورنر ہاؤس پر، جو ان دنوں شاید چیف منسٹر کی رہائش گاہ تھا ، جہاں بہاری طلباء نے وزیر اعلٰی ممتاز بھٹو کے خلاف مورچہ لگایا ہوا تھا اور نعرے بازی کررہے تھے۔ ہم اس جلوس میں نہیں تھے لیکن تماشہ دیکھنے جلوس کے ساتھ شامل تھے کہ آرٹلری تھانے سے پولیس کے ٹرک ہماری جانب آئے اور کنٹوپ والی پولیس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اترتے ہی لاٹھی چارج شروع کردیا۔ پولو گراؤنڈ کی جانب والی ایوان صدر روڈ پر زمین پر طلباء لوٹ رہے تھے جس پر پولیس بیدردی سے لاٹھیاں برسا رہی تھی۔ میرے کان کے پاس سے شائیں سے ایک لاٹھی گذری لیکن میں پولیس کے ہاتھ آنے سے پہلے پولو گراؤنڈ کا جنگلہ پھاند کر اندر داخل ہوچکا تھا۔ پلٹ کر دیکھا تو پوری سڑک پر لڑکوں کی ٹھکائی ہورہی تھی۔
پولیس کی زیادتیاں ایک طرف۔ دوسری طرف ایک طویل داستان ہے ان کی رشوت خوری، بدمعاشی، بدعنوانی اور نااہلی کی، میں اگر مثالیں دینے لگوں تو آپ کے پاس ہزار ہا واقعات ہونگے سنانے کے لئے۔ آپ تو اسی شہر، اسی ملک میں رہتے ہیں۔ میں تو سال میں چند دنوں کے لیے ہی وہاں آتا ہوں۔ آپ کا تو دن رات کا واسطہ پولیس سے پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میری رائے یہ تھی کہ کم از کم کراچی کی حد تک تو پولیس کی ضرورت نہیں ہے کہ میں نے کبھی پولیس کو کسی کام آتے نہیں دیکھا، میری یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ پولیس نے کسی کا چوری شدہ مال برآمد کیا ہو۔ کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تو ظالم کو پکڑ کر عدالت لے گئی ہو۔ اور سے سے بہت سے کام جو پولیس کو کرنے چاہئیں وہ کبھی کرتے ہوئے نظر آئے ہوں۔ البتہ جہاں کہیں ان کی ڈیوٹی لگی ہو وہاں سے انہیں کھلائے پلائے بغیر بچ نکلنا ناممکن ہے۔ بعض اوقات تو بے شرمی کی حد تک رشوت خوری نہیں بلکہ سیدھی سادی خیرات مانگتے نظر آتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کے عوام اپنے محافظوں سے ہی خوفزدہ رہتے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس کی وجوہات بھی آپ سب مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن کیا سارا قصور پولیس کا ہی ہے۔ وہ اس نہج تک کیوں پہنچی یا پہنچائی گئی۔ کیا یہ ان کی عادت ہی ہے یا مجبوری۔ کیا کبھی شہریوں اور انتظامیہ نے مل بیٹھ کر اس پر سوچ بچار کیا؟۔
خدا جانے سچ ہے یا جھوٹ لیکن میں نے آج سے کوئی چالیس سال پہلے یہ بات سنی تھی کہ شاہ فیصل مرحوم نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا تھا کہ پولیس کی تنخواہیں چار گنا بڑھا دی تھیں۔ جس پولیس کی ضروریات زندگی اس کی تنخواہ سے آسانی سے پوری ہو وہ بھلا کیوں رشوت لے کر مجرم کو چھوڑ دے گی اور بے گناہ کو گرفتار کرے گی۔
تقسیم سے پہلے پولیس کی ملازمت اور محکمہ بہت باعزت اور باوقار سمجھا جاتا تھا۔ اعلی خاندانوں کے تعلیم یافتہ لوگ پولیس کی ملازمت کو باعث افتخار جانتے تھے۔ پولیس کی عزت اور احترام فوجیوں سے کم نہیں تھا۔ حقیقتًا پولیس کا مقام و مرتبہ فوجیوں سے کہیں بلند ہونا چاہئیے کہ فوجی صرف غیر معمولی حالات یعنی جنگ میں ہی اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ( عموماً) جبکہ پولیس چوبیس گھنٹے ہماری حفاظت پر مامور ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس کو شاید سنجیدگی سے سمجھا ہی نہیں گیا۔ان کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہیں۔ تربیت کا فقدان، ضروری اسلحہ اور سازوسامان کی عدم فراہمی، سیاسی مداخلت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر مقامی پولیس کی تعیناتی۔ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں تعیناتی کے لئے لاکھوں کی رشوت دی جاتی ہے۔ جس پولیس کا تعلق اس شہر سے نہ ہو وہ بھلا وہاں کے شہریوں کی کس قدر ہمدردی ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ شہر کے پڑھے لکھے نوجوان پولیس کی ملازمت سے کیوں دور رہتے ہیں ، یا پھر انہیں دور رکھا جاتا ہے۔
یہی پولیس والے ہیں جو بغیر کسی ہتھیار کے ہماری حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ اس قلیل تنخواہ کے باوجود ہمارے لئے جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ دہشت گردوں، مجرموں اور ڈاکوؤں کا نشانہ بھی تو یہی پولیس بنتی ہے جسے ہم دن رات طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ کرکٹ میچ ہو، کوئی جلسہ ہو، کسی منحوس صورت وی آئی پی کی آمد ہو، یہ بے چارے گھنٹوں کڑی دھوپ میں کھڑے اپنی ڈیوٹی بجا لاتے ہیں۔ منحوس صورت میں نے اس لئے کہا کہ جنہیں اپنے ہی لوگوں سے ڈر ہو وہ اس قابل ہی نہیں کہ انہیں وی آئی پی کا درجہ دیا جائے۔ جو عوام کے دلوں میں بستے ہیں وہ عوام سے خوف نہیں کھاتے۔
ہر مہذّب معاشرے میں پولیس امن وسکون ، محبت اور خدمت کی ضامن ہوتی ہے۔ انہیں ان کا حق دیا جائے، ان کی صحیح تربیت کی جائے، انہیں ضروری سازوسامان اور اسلحہ دیا جائے، سیاسی مقاصد کے لئے نہ استعمال کیا جائے تو بھلا وہ کیوں حرام کی کمائی کھانے کا سوچیں گے اور اپنے ہی لوگوں کے لیے دہشت کا نشان بنیں رہینگے۔
ان سے محبت کریں۔ ان کا حق دلوائیں۔ انہیں اپنا سمجھیں وہ بھی ہمیں اپنا سمجھیں گے۔ جتنا ہم انہیں ظالم سمجھتے ہیں وہ بھی اتنے ہی مظلوم ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے اور انہیں ہمارا ساتھ چاہئیے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔
یقین کیجئیے محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ