ذکری
اکثری مکران میں رہتے ہیں ، لیکن وہ جھالان اور لس بیلہ کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی علاقے میں بھی آباد ہیں ۔ براہوئی ذکریوں کو وائی ، واہ بمعنی پیغام سے ماخوذ ہے ۔ ذکری قران کو داعی کہتے ہیں ۔ یہ قابل ذکر ہے کہ داعی، سگتائی اور ساکی سب قدیم سیٹھی قبائل تھے اور یہ بموجب دلچسپی ہے کہ براہوئی قبیلہ ساجدی کے بہت سے طائفے داعی یا ذکری ہیں ۔ یہ نکتہ مزید تحقیق کا طالب ہے کہ گو ذکری خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔ تاہم ان کے عقائد توہمات اور کافرانہ خیالات سے مملو ہے ۔ صرف قران ذکریوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان قدر مشترک ہے ۔ عملی طور پر ذکریوں اور مسلمانوں میں بہت فرق ہے اور ذکریوں کے عقائد اسلام کے اہم اصولوں پر نظریات سراسر مختلف ہیں ۔
ذکریوں کا نام ذکر سے ماخوذ ہے جو دوران عبادت کرتے ہیں ۔ ان کے مخالفین اور معتصب مبصرین نے ان کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے ۔ تاہم ذکریوں کا دعویٰ ہے یہ فرقہ ہندی ماخذ ہے اور دانا پور (جون پور) کے محمد نے اس کی بنیاد رکھی تھی ۔ جسے کوئی افغان اور کوئی سید بتاتا ہے ۔ اس نے مہدیت کا دعویٰ کیا تھا ۔ اسے جون پور سے نکالا گیا ، دکن گیا وہاں کے حکمرانوں نے اس کی آؤ بھگت کی لیکن اس کی شدید مخالفت کی وجہ سے وہاں سے نکالا گیا ۔ ہو چند پیروں کے ساتھ گجرات ، صحرائے بیکانیر اور جسلمیر سے سندھ آیا ۔ یہاں ٹھٹھ سے بھی نکالا گیا تو وہ قندھار گیا ۔ جہاں شاہ بیگ ارغون اس کا مرید بنا ۔ لیکن ملا اور عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے فرح (وادی ہلمند) میں ڈھکیل دیا گیا ۔ جہاں وہ مرگیا ۔ مکران کے ذکریوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سے غائب ہوا اور مکہ ، مدینہ ، حلب وغیرہ سے ہوکر ایران آیا اور لار (لارستان) کے راستے کیچ آیا ۔ اس نے کوہ مراد پر ڈیرہ جمالیا اور دس سال تبلیغ کے بعد پورے علاقے کو ذکری بنا کر فوت ہوا ۔
یوں ذکری فرقہ مہدویت کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ جس نے پندرویں صدی کے اواخر میں ایک واضح شکل اختیار کرلی تھی اور اس تحریک کا آخری ذکر 1628ء میں ملتا ہے ۔ اغلباً یہ مذہب اس علاقے میں مہدی کے مریدان باصفا کے ذریعے آیا ہو ۔ بہر کیف مکران میں بلیدی حکومت کی آمد اور ذکری مذہب کا آغاز بیک وقت ہوا ۔ اس سے پہلے اس سے پہلے مکران میں اس کی موجودگی کی کوئی تاریخی یا روایتی شہادت موجود نہیں ہے ۔ بلیدیوں کے ساتھ اس کی آمد ہوئی ۔ شاید اس لئے پہلا بلیدی حکمران بو سعید وادی ہلمند کے علاقہ گرم سیل نزد فرح کا رہنے والا تھا اور جس کا دور بھی مہدی کا دور تھا ۔
بلیدیوں کے وقت اسے خوب عروج حاصل ہوا اور یہ علاقہ بھر میں پھیل گیا ۔ بلیدیوں کو ملا مراد گچگی نے اٹھارویں صدی کے اوائل میں نکال باہر کیا ۔ اس نے کوشش کی کہ اس کو مذہب کا درجہ حاصل ہوجائے ۔ ملا مراد نے اس فرقے کو نئے خطوط پر ڈھالا ۔ ذکری کیلنڈر کا آغاز کیا ۔ زمین پیرو کاروں میں تقسیم کی اور ان کی اقتصادی حالت بہتر بنانے پوری پوری کوشش کی ۔ اس نے اعلان کیا کہ کوہ مراہ ذکریوں کا کعبہ ہے اور حج کی رسومات ادا یہاں ادا کی جائیں ۔ قلعہ تربت کے سامنے اس نے ایک کنواں کھدایا اور اس کو اس نے چاہ زم زم کا نام دیا ۔ اس کا شمار ذکری اولیا میں ہوتا ہے ۔ لیکن ایسے اسلام آزار مذہب کے پھیلاؤ نے بالآخر میر نصیر خان اول والی قلات کو متوجہ کیا ۔ خان قلات نے ذکریوں کے خلاف مکران میں خوب کشت و خون کیا اور ملک دینار بن ملا مراد کو اذیت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارہ ۔
عقائد
ذکریوں کے اہم عقائد مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) دستور محمدی ختم ہوچکا ہے اور مہدی نے اس کی جگہ لے لی ہے ۔
(2) آنحصور ﷺ کا مقصد قران کریم کے لفظی معافی کی تبلیغ تھی ، لیکن مہدی کے سپرد اس کی تاویل تھی اور وہ صاحب تاویل ہے ۔
(3) نماز مترک ہے اور اس کی جگہ ذکر نافذ ہوا ہے ۔
(4) روزہ رکھنا فرض نہیں ہے ۔
(5) کلمہ شہادت لا الہٰ الا اللہ محمد مہدی رسول اللہ نافذ ہونا چاہیے ۔
(6) زکوۃ کے بجائے 1/10 عشر دینا چاہیے ۔
(7) اس دنیا اور اس کی چیزوں سے گریز کرنا چاہیے ۔
قابل اہم یہ ہے ان کے اکثر عقائد باطنیوں سے اخذ کئے گئے ہیں ۔
ان کی عبادات عمل کہلاتی ہیں ، یہ ذکر اور کشتی مشتمل ہیں ۔ ان کے یہاں نماز کی جگہ ذکر لے لی اور یہ روزانہ مقرر وقفوں پر ہوتا ہے اور کشتی مخصوص تواریخ پر ہوتی ہیں ۔
ذکر
ذکر دو طرح کے ہیں یعنی ذکر جلی ہو ذکر جو زبان سے کیا جائے اور ذکر خفی جو صرف دل میں کیا جائے ۔ ذکر بہت سے ہیں اور ہر ذکر دس بارہ سطور کا ہے ۔ ذکر چھ دفعہ روزانہ مندرجہ ذیل طریقہ پر ہونا چاہیے ۔
(1) لا الہٰ الا اللہ کا ذکر ۔ ذکر خفی جو ہر ایک صبح کاذب سے پہلے گھر پر تیرہ دفعہ دہرائے ۔ یاد رہے ہر ذکر اسی کلمہ سے شروع ہوتا ہے ۔
(2) گورہام یا صبح سویرے کا ذکر ۔ سبحان اللہ جو ذکر جلی ہے اور سجدہ پر ختم ہوتا ہے ۔ سجدے کے بعد ذکر خفی لا الہٰ حسبی اللہ اور جل اللہ جل اللہ دہرائے جاتے تھے اور طلوع پر ایک اور سجدہ کیا جاتا ہے ۔
(3) نمروج ء ذکر ۔ یعنی دوپہر کا ذکر ایک دفعہ ذکر جلی اس میں سبحان اللہ دہرائے جاتے ہیں ۔ کوئی سجدہ نہیں ہے ، صرف سبحان اللہ کلمہ سے ہی مخصوص ہے ۔
(4) روچ زرہ ء ذکر ۔ یعنی قبل غروب آفتاب کا ذکر خفی جو کلمہ سبحان اللہ پر ختم ہوتا ہے ، غروب آفتاب کے بعد سجدہ ۔
(5) سر شب ء ذکر یعنی آغاز شب کا ذکر ایک ذکر جلی قریباً قریباً دس بجے رات جس میں تمام ذکر دہرائے جاتے ہیں ، سوائے سبحان اللہ کے ۔
(6) نیم ہنگام ء ذکر ۔ یعنی ذکر نیم شبی ، ایک ذکر خفی جسے افراد دہراتے ہیں ، اس ذکر کے لئے لا الہٰ ایک ہزار دفعہ ہونا چاہیے اور ہر سو کے بعد ایک سجدہ ۔
کشتی
کشتی جمعہ کی کسی رات کو ہوسکتی ہے ۔ جو مہینہ کی چودویں تاریخ کو آئے اور ماہ ذی الحج کی پہلی دس راتوں میں بھی اور عید الاضحیٰ کے اگلے دن بھی ۔ بڑی کشتی ذی الحج کی نویں رات کو ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ پیدائش ، خطنہ اور شادی کے مواقع پر اور قسمیں اتارنے کے لیے بھی منائی جاتی ہے ۔ کشتی منانے والے عام لوگ ناچ کی طرح دائرے میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ ڈھول وغیرہ استعمال نہیں ہوتے ہیں لیکن ایک یا زیادہ عورتیں دائرے کے وسط میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور مہدی کی تعریف میں منظوم تعریفیں گاتی ہیں ۔ جب کہ آدمی گھومتے ہیں اور کورس کو دہراتے ہیں ، گانے والی گاتی جاتی ہیں اور آدمی کورس پڑھتے جاتے ہیں ۔ جب گانے والیاں لفط ہادیا پر آتی ہیں تو آدمی پکارتے ’ گل مہدیا ‘ گویا ’ سیدھے راستے کا رہنما کون ہے ؟ ‘ جواب ہوتا ہے کہ ’ ہمارا پھول مہدی ‘۔ جب سب ٹھک جاتے ہیں تو کشتی ختم ہوجاتی ہے ۔ دیہات اور قبضات میں عورتیں اور مرد علحیدہ علحیدہ ذکر اور کشی منعقد ہوتی ہیں ۔ لیکن پہاڑی بلوچوں کے ہاں مرد و عورتیں بلا امتیاز حصہ لیتے ہیں ۔ یہ کہنا کہ ان اجتماعات میں غیر اخلاقی بلکہ مباشرت جیے افعال رائج ہیں بے بنیاد ہیں ۔ یہ کہنایاں ان متعصب لوگوں کی تراشیدہ ہیں جو ان کشتیوں میں عورتوں کی موجودگی سے یقناً متاثر ہوتے ہیں ۔
ذکرانہ
ذکر کے لئے علحیدہ جگہیں مخصوص ہیں جنہیں ذکرانہ کہتے ہیں ۔ ذکرانہ کی کوئی خاص وضح نہیں ہوتی ہے ۔ یہ دیہات میں پیش کی ایک جھوپڑی ہوتی ہے ۔ اب تو پکے ذکرانہ تعمیر ہوچکے ہیں ۔ خانہ بدوشوں کی بستی میں ایک علحیدہ گدان اس مقصد کے لیے مخصوص ہوتا ہے ۔ ذکرانہ کے دروازے کا کوئی خاص رخ نہیں ہوتا ہے ۔
ذکریوں اور عام مسلمانوں کی تدفین میں فرق نماز جنازہ کا ہے ۔ ذکری نماز جنازہ نہیں پڑھاتے ہیں اس کے سوا اور کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ ذکری ملا بہت با اثر ہوتا ہے اور مذہبی پیشوایت کی حثیت سے وہ ماضی میں وہ اپنے اہل فرقہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں ۔ موجودہ دور میں ذکریوں پر کئی پابندیاں عائد ہیں ۔ ان کی اکثر رسمیں خاموشی سے ادا ہوتی ہیں ۔ ذکری ملا اگرچہ اپنے پیرو کاروں پر پرانے رسم و رواج کو قائم رکھنے پر زور دے رہے ہیں ۔ تعویز گنڈے بھی رائج ہیں ۔ منت پوری ہونے پر خاص نزرانہ وصول کرتے ہیں ۔ ذکری ملا پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں ۔ ان کی مذہبی تصنیفاف بھی محدود ہیں ۔ وہ صرف روایات پر چل رہے ہیں جو سینہ بہ سینہ ان تک پہنچی ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں علم بڑھ رہا ہے اور ملاؤں کا اثر کم ہو رہا اور اسلامی اصولوں کے ساتھ رابطہ ہو رہا ہے ۔ اس لیے یہ فرقہ انحاط پزیر ہے اور آثار بتا رہے ہیں یہ فرقہ جلد ہی فنا ہو جائے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔