مہنگائی کسی حکمران کو گالیاں دینے سے ختم نہیں ہوگی، بلکہ ذخیرہ اندوزوں سے نفرت کی تحریک سے ختم ہوگی۔ آپ اپنے آس پاس دیکھیں، اگر آپ کی گلی محلی میں کوئی ذخیرہ اندوز رہتاہے تو اس سے نفرت کریں۔ کیونکہ وہ خدا کا مجرم تو ہے ہی، پوری قوم کا مجرم بھی ہے۔ سب سے بڑا گناہ ذخیرہ اندوزی ہے کیونکہ اس سے آپ دوسروں کے منہ سے لقمہ چھین کر اپنے گھر میں سٹور کرلیتے ہیں۔ عیسی علیہ السلام نے جس انداز میں اپنی قوم کو متنبہ کیا وہ اِس حوالے سے قابلِ غورہے،مفتی تقی عثمانی کے ترجمہ کے مطابق، ’’آئی انفارم یو‘‘ کے الفاظ ہیں۔
وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡۚ
یعنی وہ جو تم اپنے گھروں میں سٹور کرلیتے ہو، اس کی مجھے خوب خبر ہے۔ اس میں تمہارے لیےخدا کی نشانی موجود ہے،اگر تم مؤمنین ہوتو۔
قرانِ پاک کی ایک پوری سورہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف پوری وضاحت کے ساتھ نازل ہوئی، اور اس میں نہایت سخت وعید ہے۔
وَيۡلٌ۬ لِّڪُلِّ هُمَزَةٍ۬ لُّمَزَةٍ (١) ٱلَّذِى جَمَعَ مَالاً۬ وَعَدَّدَهُ ۥ (٢) يَحۡسَبُ أَنَّ مَالَهُ ۥۤ أَخۡلَدَهُ ۥ (٣) كَلَّاۖ لَيُنۢبَذَنَّ فِى ٱلۡحُطَمَةِ (٤) وَمَآ أَدۡرَٮٰكَ مَا ٱلۡحُطَمَةُ (٥) نَارُ ٱللَّهِ ٱلۡمُوقَدَةُ (٦) ٱلَّتِى تَطَّلِعُ عَلَى ٱلۡأَفۡـِٔدَةِ (٧) إِنَّہَا عَلَيۡہِم مُّؤۡصَدَةٌ۬ (٨) فِى عَمَدٍ۬ مُّمَدَّدَةِۭ (٩)
ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے (۱) جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے (۲) (اور) خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا (۳) ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا (۴) اور تم کیا سمجھے حطمہ کیا ہے؟ (۵) وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے (۶) جو دلوں پر جا لپٹے گی (۷) (اور) وہ اس میں بند کر دیئے جائیں گے (۸) (یعنی آگ کے) لمبے لمبے ستونوں میں (۹)
بات یہ ہے کہ حکومت پر اعتراض کرنا آسان بھی ہے اور ایک لحاظ سے بنتابھی ہے۔ یعنی سوال یہ ہے کہ حکومت نے اِن ذخیرہ اندوزوں کو پکڑا کیوں نہیں؟ پچھلی حکومتوں کے حکمرانوں میں سے کچھ تو خود نہایت مایہ ناز ذخیرہ اندوز تھے، لیکن موجودہ حکومت نے تو دعوے بھی کیے تھے کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ پھر کیوں چھوڑ رکھاہے کہ مہنگائی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی؟ رمضان گزر گیا، روزہ داروں نے پھلوں کی شکل نہیں دیکھی کیونکہ ان کی قیمتیں آسمان پر تھیں۔چلو! روزہ داروں کا تو مشن ہی روزہ رکھنا تھا یعنی کم کھانا،لیکن یہ پابندی قدرت کی طرف سے نافذ کی گئی ہوتی تو اور بات یہ تھی۔ یہ پابندی تو آپ کے اڑوس پڑوس میں رہنے والے ذخیرہ اندوزوں کی لائی ہوئی ہے، جن پر اگر حکومت ہاتھ ڈالنا چاہے تو آپ ہی سب سے پہلے باہر نکل آتے ہیں لڑنے کے لیے۔ ایسا کیوں ہے؟
آپ اپنے پڑوسی ذخیرہ اندوز کو نفرت کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے؟ کیا وجہ ہے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ کی گلی میں چینی، چاولوں، چنوں حتیٰ کہ سگریٹوں تک کا ذخیرہ اندوز رہتاہے؟ کیا آپ کو خبر نہیں ہے کہ آپ کے کتنے ہی ملنے والے ایسے ہیں جو خود آپ کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ اس بار فُلاں چیز لے کر رکھ لو، بڑا منافع ملتاہے اور فُلاں چیز کے لیے سرمایہ کاری کرلو، بڑا فائدہ ہوگا؟
میں بتاتاہوں آپ اس کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ کیونکہ وہ بہت شدید قسم کا مذہبی ہے۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ خود ہی امام مسجد ہو ، آپ کے محلے کا۔ اوّل تو امامان مسجدان کی فی زمانہ حالت بہت نازک ہے، لیکن جن کی نازک نہیں ہے، وہ کافی بڑے ذخیرہ اندوز بن چکے ہیں۔آپ کو یقین نہیں تو میرے ساتھ تشریف لائیے، میں آپ کو ان سے ملواتاہوں۔
پھر تبلیغی جماعت، تبلیغی جماعت نے اِن لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ تبلیغی جماعت ذخیرہ اندوزوں کی جماعت نہیں ہے، لیکن ذخیرہ اندوزوں نے اس جماعت میں پناہ لے رکھی ہے۔ جیسے کوئی چور مسجد میں چھپ جائے۔ہاں قصور وار، مولانا طارق جمیل جیسے علما ہیں جو ایسے ذخیرہ اندوزوں کو مسکرا مسکرا کر ملتے اور ان کوجھپیاں ڈالتے ہیں۔
تو یہ وجہ ہے کہ آپ ان سے نفرت نہیں کرتے۔ کیونکہ آپ کنفیوزڈ ہیں۔ آپ کو وہ گناہ گار لگتے ہی نہیں ہیں۔ نیک نمازی، بااثر، سیاسی، طاقتور، زکواۃ کے مسئلے پوچھ پوچھ کر زکواۃ دینے والے۔ آپ کیسے نفرت کرسکتے ہیں ان سے؟
میں ذاتی طورپر اپنے شہر خوشاب کے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جو بدترین ذخیرہ اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کے ساتھ باقاعدہ چلّے پہ چلّے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں میرے اپنے رشتہ دار بھی شامل ہیں ۔ ان میں بعض لوگ جن کو میں فقط شکلوں سےجانتاہوں، اتنے بڑے بڑے ذخیرہ اندوز ہیں کہ ان میں سے ایک صاحب سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تو وہ بتا رہے تھے کہ پورے پنجاب کی چینی اُن کےکنٹرول میں رہتی ہے۔یہ باقاعدہ ان کے الفاظ تھے کہ’’ادریس صاحب، آپ کے پنڈی اور اسلام آباد میں بھی چینی کا کوئی تاجر میرے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ صرف رابطے میں ہی نہیں، بلکہ جس علاقے کی شوگر ملیں زیادہ ہیں اس علاقے کے تاجروں کی قوت بھی زیادہ ہے۔ وہ بتارہے تھے کہ انہوں نے اپنے گھر میں تین کروڑ کی ٹائیلیں لگوائی ہیں جوہرآباد میں۔ اور اب آپ کو یہ جان کر کوئی حیرت نہ ہونی چاہیے کہ وہ شخص باریش ہے، تبلیغی جماعت میں چلّے لگاتاہے اور مولانا فضل الرحمان والی جمعت کا کوئی عہدے دار بھی ہے اور اس کے چوبیسوں گھنٹے مولویوں، قاریوں اور نام نہاد علما کی معیت میں گزرتے ہیں۔ تین کروڑ کی ٹائیلیں اور فوارے۔ خدا کی پناہ۔
میں جس محلے میں پیدا ہوا اوربڑا ہوا، اس محلے کے ستر فیصد لوگ ذخیرہ اندوز ہیں۔ پچیس فیصد جواری ہیں اور باقی پانچ فیصد سخت غریب ہیں اور ان جواریوں اور ذخیرہ اندوزوں کے نوکر ہیں۔چینی، چنا، گندم، گڑ، صابن، سوڈا، اور خداجانے کیا کیا، ذخیرہ کرنے کے کتنے ہی بڑے بڑے سٹور میرے گھر کے آس پاس موجود تھے۔ میں نے تمام عمر ان لوگوں سے نفرت کی اور کھلم کھلا اپنے غصے کا اظہار کیا۔ بدلے میں نفرت سہی اور ایک مسلسل عذاب کا شکار رہا یہاں تک میرا جوان بیٹا مجھ سے کی گئی ذخیرہ اندوزوں کی اس نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔لیکن میں آج بھی ان سے اپنی نفرت کا کھلم کھلا ہی اظہار کرتاہوں۔
ذخیرہ اندوز جب مال جمع کرتاہے تو وہ دوسروں کا حق مارتاہے۔ وہ مال اس لیے جمع کرتاہے کہ وہ اسے زیادہ مہنگا بیچےگا۔اور وہ اسے زیادہ مہنگا بیچتاہے۔ مہنگا ہونے کا کوئی وقت اللہ کی طرف سے مقرر نہیں ہے، مہنگا ہونا ان کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ممکن ہوتاہے۔وہ پہلے چیز کو چھپا لیتے ہیں۔ وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے تو پھر مہنگی ہوجاتی ہے۔ پھر وہ نکال لاتے ہیں اور مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ یہ ہےپاکستان میں مہنگائی کی وجہ ۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔عام محاورہ ہے کہ انڈیا کی حکومتیں امیر ہوتی ہیں اور عوام غریب ہوتی ہے جبکہ پاکستان کی حکومتیں غریب ہوتی ہیں اور عوام امیر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اُمرا مذہب اور لمبی لمبی داڑھیوں کی آڑ میں چوری کرتے ہیں۔ مال ذخیرہ کرتے ہیں اور مہنگا کرکے بیچتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب شہری مرتاہے۔ بچوں سمیت خودکشیاں کرتاہے اور جب لوہا بہت زیادہ گرم ہوجاتاہے تو خنزیر طبیعت کے سیاستدان شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ حکومت کا قصورہے۔
ذخیرہ اندوزوں میں حشرات الارض کی روح ہوتی ہے۔ بے شک کسی سے پوچھ لیں۔ تصوف میں روحِ حیوانی ایک باقاعدہ نظریہ ہے۔ اقبال بھی اس نظریہ کے قائل تھے اور چاہتے تھے کہ ہمارے لوگوں میں شاہین کی اور بلند بال پرندوں کی روح پیدا ہوجائے۔ ہمارے لوگ چیونٹیوں کی طرح مال جمع نہ کریں۔ ہمارے لوگ مؤمنین بن جائیں کیونکہ قران کہتاہے کہ اگر تم مؤمن ہو تو سب سے زیادہ بلندی پر تم ہوگے۔ اقبال چاہتا ہے ہمارے انداز بلند بال پرندوں جیسے ہوں۔ ذخیرہ اندوز یا سٹاکسٹ سوسائٹی چیونٹیوں کے درجے کی سوسائٹی ہوتی ہے۔ یہ انسانی سماج کا سب سے گھٹیا درجہ ہے۔ اس درجہ پر پہنچنے کے بعد گزشتہ اقوام کو اللہ تعالیٰ تباہ کردیا کرتے تھے۔ اسے قران کی اصطلاح میں عذابِ خسف کہتے ہیں۔ ایسا عذاب جس میں آپ زمین کے اندر دھنس جائیں۔ چیونٹیاں زمین کے نیچے سوراخ بنا کررہتی ہیں۔ زمین کے اندر دھنس کررہتی ہیں۔ جب کوئی ذخیرہ اندوز اپنی چیونٹیانہ روح کی وجہ سے مال جمع کرتاہے تو وہ قرانی اساطیر کی رُو سے عذابِ خسف کا شکار ہوچکاہے، وہ زمین میں دھنس چکاہے۔ سرتاسر۔ اس کے لیے زمین پھٹ گئی ہے اور وہ اس کے اندر چلا گیاہے۔وہ اسفل سافلین بن کر جیتاہے یعنی گھٹیا ترین مٹیوں میں سے بھی گھٹیا ترین مٹی بن کر یا اس میں دھنس کر۔مال متاع اور دنیاوی چیزوں کے لیے مرنا اور لڑنا اور پیسے جمع کرنے کے لیے اپنے آس پاس موجود غریبوں اور بھوکوں کو نظر انداز کرنا اسفل سافلین ہوجانے کی ہی نشانی ہے۔