میانوالی میں میری رهائشی کوٹھی ساتھ کافی ساری زمین خالی تھی ۔ ایک دن مالی نے مشوره دیا کہ سر ۔ یہاں سبزی لگا دیتے ہیں۔
مُجھے یہ بات اچھی لگی ۔ اگلے تین چار دن میں ِاُس جگہ پر سبزی لگا کر سائیڈوں پر بیری کے کانٹوں سے باڑ لگ چکی تھی ۔ لگاتار حفاظت ہوتی رہی تو آئندہ کچھ ہفتوں میں بھنڈی ، پیٹھا ، کدو ، پالک ، دهنیہ ، پودینہ تقریبا ہر قسم کی سبزی تیار تھی۔
پم میاں بیوی کا معمول تھا کہ روزانہ صبح صبح اُٹھ کر ایک بار سبزی کا چکر لگانا۔
ابھی پیٹھے تقریبا خربوزے سائز کے ہوئے تھے ۔ ایک دن دیکھا تو دو تین تھوڑے تھوڑے کُترے ہوئے ۔ بہت غور کیا پر سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس جانور کا کام ہو سکتا هے ۔ آخر طے یہ پایا کہ وه جو کوئی بھی ہے ، مزید نقصان سے بچنے خاطر آج رات اُسے ڈهونڈنا اور اُس کا شکار کرنا ہو گا ۔
غیر آباد سی کالونی تھی ۔ رات گیاره بجے ہم میاں بیوی ٹارچ اور اَسلحہ لیکر سبزی کے کھیت باہر اسطرح جا بیٹھے کہ کسی بھی جانور کا آنا جانا ہمیں نظر آ جائے ۔
پچھلی رات تین بجے چَھن چَھن جیسی آواز آئی ، یوں جیسے کوئی خاتون پیروں میں پائل ڈالے ، کیٹ والک کرتی آ رہی ہو ۔
ایک تو پردیس ، دوسرا کالونی جنگل میں تھی ، تیسرا قبر جیسی خاموشی اور پھر چَھن چَھن کی آواز جو هولے هولے قریب آتی جا رہی تھی ۔ عجیب طِلسمی سا ماحول بن گیا ۔
میرے پاس باره بور کاربین تھی جبکہ مرحومہ بیگم صاحبہ پاس بتیس بور ریوالور اور ایک هاکی کیونکہ وهاں سانپوں کا بھی بہت خطره تھا ۔
بیگم صاحبہ پسٹل وغیرہ چلانے کے معاملے میں ٹرینڈ تھیں ۔ میں نے اُنہیں کہا کہ ریوالور کا لاک کھول لو لیکن فائر نہیں کرنا اور خود سانس روک کر سامنے ٹارچ کی لائٹ ڈالی ۔ دیکھا تو چھ سات سیہیں ،، پرکوپائن ،، کھیت کی باڑ کاٹ کر سبزی میں داخل ہو رہی تھیں اور چَھن چَھن کی آواز اُن کے کانٹوں کے آپس میں ٹکرانے کی تھی ۔
جب پوری بات سمجھ آئی تو فوراً ہی بیگم صاحبہ کے ریوالور کی گولیاں ایجکٹ کروائیں اور اپنے پیچھے آنے کا اشاره کیا ۔ اُن کی ڈیوٹی تھی ٹارچ کی لائٹ شکار پر لاک کرنا اور میرا کام تھا فائر کرنا ۔ ڈر بھی رها تھا کہ باره بور کاربین کا فائر تھوڑا بھی ڈھیلے ہاتھ سے کیا جائے تو اُسکا جھٹکا کلائی کی هڈی توڑ دیتا ہے ۔
آخر ایک پرکوپائن لاک ہوئی ۔ ستر اسی فیٹ کا فاصلہ تھا ۔ میں نے فائر کر دیا ۔ باقی تو بھاگ گیئں لیکن وه بیچاری زخمی ہو کر گری اور پھر لنگڑاتی لنگڑاتی اپنے ٹھکانے طرف واپس چل دی ۔
وه آگے آگے چلتی رہی اور ہم میاں بیوی اُسکے خون کے نشان پر پیچھے پیچھے چلتے رہے ۔ آخر کالونی کی حد تک اُسے چھوڑ کر ہم واپس آ گئے ۔
اگلی دو راتیں پرکوپائن سبزی کھانے نہیں آئیں ۔ تیسری رات کچھ شک ہوا ۔ باہر نکل کر ٹارچ کی لائٹ میں دیکھا تو ایک پرکوپائن بیل سے پیٹھا توڑ رہی تھی ۔ سمجھ نہیں آئی کہ جب یہ خود کھا نہیں رہی تو علیحده کیوں کر رہی ہے ۔ ہم میاں بیوی دیکھتے رہے ۔ اُس نے پیٹھے کی ڈنڈی کاٹ کر پیٹھا بیل سے علیحدہ کیا اور هاتھوں پیروں ساتھ زمین پر گُھماتی ہوئی پیٹھا اپنے ٹھکانے طرف لے کر چل دی ۔
میں نے تھوڑا نزدیک جا کر ٹارچ کی لائٹ اُس پر ڈالی ۔ پہلے وه پیٹھا چھوڑ کر دور بھاگی لیکن دوباره واپس آ کر اگلے هاتھ پیٹھے پر رکھے اور ضدی بچے کی طرح اکڑ کر مجھے دیکهنے لگ گئی ، جیسے مُجھے کہہ رہی ہو کہ اللّٰہ کے دئیے رزق میں میرا بھی حق ہے ، میرا حق مُجھ سے مت چھینو ۔
مُجھے اُس کی آنکھوں میں اپنے لئے انتہا کی نفرت نظر آئی ۔ یوں لگا جیسے کہہ رہی ہو ۔ تم نے میرے ساتھی کو گولی ماری تھی نا ۔ وه اب زخمی اور چار دن کا بھوکا ہے ۔ خُود چل نہیں سکتا ۔ یہ پیٹھا میں اُس کے لئے لیکر جا رہی ہوں ۔ ہمت ہے تو مُجھے بھی گولی مار کر پیٹھا چھین لو ۔
ہم نے اُسے اُس کے حال پر چھوڑا اور خود زخمی دل ساتھ گھر واپس آ گئے ۔ اِس واقعہ کے بعد میں نے اپنی کالونی یا سبزی میں سیہہ نہیں دیکھی ۔
۔
میرے کھیت میں روز کے روز پیٹھے کی بیلوں پر دس باره نئے پھول کِھلا کرتے تھے لیکن اِس کے بعد اُس سیزن میں ایک بھی نیا پھول نا کِھلا ۔ سرسبز اور صحت مند بیلیں چند دنوں میں ہی سُوکھ کر مر گئیں ۔
پرکوپائن کبھی کبھار آ کر اللّٰہ کے دیئے ہوئے میں سے اپنے حصے کا ہی تو کھاتی تھی ۔ میں کھانے دیتا ۔ میں نے اُسے گولی کیوں ماری ۔ ؟
جب میں نے اُنکا حصّہ چھینا تو اللّٰہ پاک نے میرے سے میرا حصّہ واپس لے لیا ۔
۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...